ڈاکٹر افتخار بیگ (نظم)

لفظوں کا احتجاج

ڈاکٹر افتخار بیگ

مجھے محسوس ہوتا ہے …………
کہ ہم لفظوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں جیون بتاتے ہیں
یہ باتیں لفظ ہیں یارو! یہی ممتا کہانی ہیں
یہی چاہت کا قصہ ہیں،محبت ہیں، جوانی ہیں
یہی نامہ ہیں گر پیارے،یہی پھر نامہ بر بھی ہیں
یہی عاشق کی سِسکی ہیں،یہی معشوق سارے ہیں
یہ عشق جاودانی ہیں …………یہ صدیوں کی کہانی ہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ ہم لفظوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں جیون بِتاتے ہیں
مجھے محسوس ہوتا ہے
اگر باتوں کی،لفظوں کی، یہ ٹھنڈی شبنمی چھیاں،منافق دھوپ کے ہاتھوں
کبھی توقیر کھوبیٹھی
تو پھر محشر بپا ہوگا
مگر یہ …………کب بپا ہوگا؟
یہ کوئی سانحہ ہوگا…………
یا پھر شاید………… فقط اک واقعہ ہوگا
مجھے معلوم کیسے ہو؟
میرے یارو!
مجھے اتنا تو بتلاؤ!
تمہاری بستیوں میں لفظ کی تقدیس کو نیلام جو کردیں
وہی سب معتبر کیوں ہیں …………؟
بتاؤ میں کہاں جاؤں …………؟
کہ میں تو لفظ کو اب بھی پیمبر ہی سمجھتا ہوں
مقدس ہی سمجھتا ہوں …………!
منافق شہر ہے سارا…………
بتاؤ میں کہاں جاؤں …………؟
عجب بستی تمہاری ہے …………یہاں پر کچھ نہیں ہوتا
نہ کوئی طائرِ سدرہ،کہیں پیغام چھوڑے ہے
نہ یہ بستی اُلٹتی ہے…………
نہ کوئی ثور پھونکے ہے…………
عجب بستی ہے
کہ………… اس جا…………منافق دھوپ کے ہاتھوں
پیمبر قتل ہوتے ہیں …………
میں اس بستی کے مقتل میں، اکیلا بیٹھ روتا ہوں
میرے اندر کی دنیا میں کہیں کہرام مچتا ہے
یہ کیسا ظلم جاری ہے…………؟
یہ بھولے لفظ بستی میں بڑے بے بس،بڑے بے کس،بڑے مجبور رہتے ہیں
یہ میرے منہ کو تکتے ہیں …………
یہ کیسی بے بسی سے آن کر روتے مچلتے ہیں …………
یہ کہتے ہیں:”تمہارے شہر کے باسی،بہت ہی ظلم کرتے ہیں،
انھیں روکو،وگرنہ روٹھنا تو ہم بھی جانیں ہیں“
یہ کہتے ہیں:”ارے او بیگ صاحب!اپنی بستی کے مکینوسے کہو…………!
دھیرج رکھیں تھوڑی،
کہ ہم نے تو ہمیشہ سوچ کے آنگن کو مہکایا
دلوں میں درد دہکایا،ہمیں نہ پھر سے کچھ کہنا
ہماری موت سارے شہرے کو تاراج کردے گی“
میرے یارو!
صدا کیسی ہے یہ جو رات کو سونے نہیں دیتی
مری بستی مجھے اک پل کو بھی رونے نہیں دیتی
نہ میری بات سنتی ہے…………
نہ عادت کو بدلتی ہے…………
بتاؤ میں کہاں جاؤں؟
بتاؤ میں کہاں جاؤں؟

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com