ڈاکٹر افتخار بیگ (نظم)

محبت امر ہے لیکن…………

ڈاکٹر افتخار بیگ

عجب پاگل سی لڑکی ہو…………
نہ جانے کون سے لمحے میں تم نے
دل کے آنگن میں کوئی تصویر سی بُن لی…………
اُسی کو دیوتا جانا…………
پھر اس تصویر کے رنگوں میں تم نے خود کو نہلایا
اُسی کے سحر میں گم…………زندگی سے روٹھ کر
یہ بات کہتی ہو…………
”وہ مجھ کو چاہتا ہے،وہ تو بس سودائی ہے میرا“
تم اکثر یوں بھی کہتی ہو…………
”محبت امر ہے،اے دل …………!کوئی بھی نام ہو اس کا
کسی بندھن میں بستی ہو، مقدس ہے …………مقدس ہے“
مگر تم نے کبھی بھی چاند کی آنکھوں سے اپنے شہر کی گلیوں کی تاریکی نہیں دیکھی
جہاں عفریت پھرتے ہیں
دنوں کی روشنی میں یہ
کسی گہرے تقدس کا لبادہ اوڑھ کر
سب شہر میں آواز دیتے ہیں
”محبت کے امیں ہم ہیں ………… ہمیں حرمت کے قابل ہیں
کہ ہم جذبوں کے پارکھ ہیں …………“
مگر راتوں کو یہ سارے گلی کی بدروؤں کی گاد میں لوٹیں لگاتے ہیں
کہ ہر عفریت کو گہری عفونت راس آتی ہے
عجب تم ہو…………
تمہیں بس دن کے آنگن میں
مہکتے رنگ میں ڈوبے
لبادے تو نظرتے ہیں
مگر باطن نہیں دِکھتا…………
محبت امر ہے………… لیکن
کسی محبوب کو ڈھونڈو………… کسی عاشق کو نہ ڈھونڈو…………
وگرنہ تم بھی اپنے آپ کو بدرو میں پاؤ گی…………!
سنو…………!بس سن بھی لونا…………! تم
محبت کو یہاں کے گورکن دفنا چکے کب کے
تم اب اس لحد پہ بیٹھی …………سسکتی ہو…………
یہ سسکن بھی مقدس ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com