جینے کا دکھ سہتے سہتے
کتنے لوگوں کی سانسوں نے
تھک کے
موت کی ٹھنڈی گود میں اپنا آپ چھپایا
من کی خواہش کو جھٹلایا
جلتی سوچوں کو بہلایا
لیکن…………
چین کی ٹھنڈ ی چھایا کا بس ایک ہی پرتو پایا
آخر کس کی خاطر جینا…………؟
یہ زہر اب دکھوں کا پینا…………؟
جبکہ…………
نس نس پیاس کے مارے تڑپے………… سانس کا پنچھی پھڑکے
ہر سو صحراؤں کے ڈیرے
اپنے جوگی والے پھیرے
ایسے بانجھ سویرے تیرے
آنکھیں نور کو ترسیں بابا…………!
ہر سو پتھر برسیں بابا…………!
ربا کون سنے شہنائی …………؟
اب تو جان لبوں پہ آئی
موسم ایسے ہیں زہریلے
سارے جسم ہوئے ہیں نیلے
پھولوں جیسے عارض پیلے
اب کے جینا ایک عذاب…………
گلشن گلشن ناگ پھریں ہیں
کیسے مہکیں پھول گلاب
جاناں …………!
وقت کی بھینٹ چڑھیں گے
تیرے میرے سارے خواب
دل کی درد کہانی بابا…………!
رونا ریت پرانی بابا…………!
پگلی سانسوں نے سوچا ہے اب کے ہار کے دیکھیں بابا…………!
من کو مار کے دیکھیں بابا…………!
جانے سن لے وہ فریاد…………
نہیں ہے اپنا آپ بھی یاد جسے وہ آج زمیں پرآئے
دیکھے دکھ کی فصلیں، دیکھے جلتے جذبوں کا نیلام
وفا کا ایسا قتل ِعام
کہ لرزیں پربت خوف کے مارے
بھوکوں بلکیں بچے سارے
تھل کی جلتی ریت ہے ہرسو
پیاسا ہر اک کھیت ہے ہرسو
اپنی رحمت تو برسادے
آجا ہم کو بھی پرسا دے
سارے بیج نمو سے عاری
بھوبل بھوبل مٹی ساری
دل پہ ایسا خوف ہے طاری
جیسے پتھر بھاری بھاری
ہر دہلیز لہو میں ڈوبی
کھوگئی دل والوں کی روبی
سب چوراہوں پہ ہیں پہرے
حاکم سارے اندھے بہرے
آنسو آہیں ہیں مقسوم
خدایا…………! تیری ہرسو دُھوم
خدایا…………! تیری ہرسو دُھوم