میں کیا لکھوں …………؟
کس طرح سے لکھوں …………؟
کہ اب تو کچھ حوصلہ نہیں ہے
کہ اپنے من میں مچلتے جذبوں کو لفظ کا پیرہن بھی دے دوں
میں جانتا ہوں …………!
کہ لفظ کی کوکھ میں پنپتے میں سب مفاہیم کے فسانے
میں جانتا ہوں …………!
کہ لفظ کی حُرمتوں کا قصہ تو ان کے معنوں کے ساتھ مشروط ہی رہا ہے
پڑھا ہے میں نے کہ لفظ جذبوں کا اک پیمبر ہوا کرے ہے
مگر میں لکھتا ہوں جب بھی یارو…………!
تو حرف و معنی کے سب مباحث
عجیب سی دھند میں سمٹ کر ہیں روٹھ جاتے
مرے لیے تو یہ لفظ سارے ہیں بانجھ
ان کے سبھی مفاہیم کھو چکے ہیں
کہ میرے من میں مچلتے جذبوں کی ساری حدت
اور شدت کو آشکارا نہیں کریں ہیں
تو کیسے پھر یہ کسی کو میرا پتا بتائیں …………؟
میں آج بھی اس لیے ہوں جیتا…………
اور اس لئے ہیں یہ لفظ میرے یقیں کاحصہ
کہ اپنی بستی میں لوگ مجھ کو بھی جان پائیں
یہ جان پہچان کا فسانہ عجیب ساہے
یہ جان پہچان، زندہ بستی میں بسنے والوں سے مانگتی ہے
گلاب چاہت،دھنک محبت
مگر یہ بستی …………
یہ میری بستی تو مرچکی ہے
میں آج بھی جی رہا ہوں یارو!
بہت سے مُردوں سے بات کرنا ہے، جی کا جوکھم
مگر مرا تو یہی مقدر
کئی یگوں سے بہت سے اکھّرلکھاوٹوں میں سجا رہا ہوں
اسی لیے جی رہا ہوں یارو…………!