جب تخیل میں ترا عکسِ گماں کھلتا ہے
پھر مرے سامنے لفظوں کا جہاں کھلتا پے
کب بنا پاتے ہیں ہر پیڑ کو مسکن اپنا
ہم پرندوں پہ ہر اک پیڑ کہاں کھلتا ہے
شام ہوتے ہی چمک اٹھتا ہے اب دل کا نگر
اور پھر دل سے کوئی اور جہاں کھلتا ہے
کانپ جاتا ہوں کہ اس شہر کی اب خیر نہیں
جب سماعت پہ کوئی شورِ فغاں کھلتا ہے
کھل بھی سکتا ہے تماشائے محبت مجھ پر
گر کسی روز یہ دروازہء جاں کھلتا ہے