محمد علی ایاز (غزل)

دشت میں گھر بناتی رہتی ہے

محمد علی ایاز

دشت میں گھر بناتی رہتی ہے
آنکھ منظر بناتی رہتی ہے

زندگی کچھ حسین پل دے کر
اپنے نمبر بناتی رہتی ہے

جلتا رہتا ہے بلب کمرے میں
روشنی ڈر بناتی رہتی ہے

بند کمرے میں سانس لینے کو
سوچ بھی در بناتی رہتی ہے

اشک ہوتے ہیں موتیوں جیسے
آنکھ زیور بناتی رہتی ہے

اپنی وسعت سے بڑھ کے اڑنے کو
زندگی پَر بناتی رہتی ہے

بھاپ اڑ اڑ کے میری چائے سے
اس کا پیکر بناتی رہتی ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com