محمد علی ایاز (غزل)

خواہشِ وصل کے زندان میں رکھا ہوا ہے

محمد علی ایاز

خواہشِ وصل کے زندان میں رکھا ہوا ہے
خود کو اک شخص کے امکان میں رکھا ہوا ہے

حوصلہ پڑتا نہیں کیسے اٹھاٶں اس کو
ہجر کا دکھ بھی تو سامان میں رکھا ہوا ہے

دیکھنے والے بھی حیران ہوئے جاتے ہیں
دل نے ہر زخم نمک دان میں رکھا ہوا ہے

تتلیاں پھول سمجھتے ہوئے آ جاتی ہیں
اس کی تصویر کو گلدان میں رکھا ہوا ہے

اک پرستان میں ٹھہرایا ہے اس عشق نے اور
دوسرے شخص کو ملتان میں رکھا ہوا ہے

آتے جاتے ہوئے دل اسکے تصور میں رہے
ہجر اس واسطے دالان میں رکھا ہوا ہے

اور تو کچھ بھی نہیں اس میں فضیلت ایسی
اک تجسس ہے جو انسان میں رکھا ہوا ہے

دل کی تسکین کو یہ بات بھی کیا کم ہے ایاز
اس نے کچھ روز تجھے دھیان میں رکھا ہوا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com