تا دیر اک چراغ بناتا رہا ہوں میں
لو سے بھی اپنے ہاتھ چھڑاتا رہا ہوں میں
اک شہرِ برف زار میں حدت کے واسطے
اپنے بدن کی آگ جلاتا رہا ہوں میں
یہ بارِ عشق تجھ سے اٹھایا نہ جائے گا
خود کو بھی ایک عمر ڈراتا رہا ہوں میں
لوگوں نے میرے کام کو سنجیدہ کب لیا
جیسے کوئی تماشا دکھاتا رہا ہوں میں
اس کارِ ناتمام میں گزری تمام عمر
دل سے بس ایک دل کو ملاتا رہا ہوں میں
بھیجا گیا تھا مجھ کو کسی اور کی جگہ
اک عمر اس کے رنج اٹھاتا رہا ہوں میں