یہ شک کا پرندہ ہے جو پر تک نہیں رکھتا
میں چوری چھپے اس پہ نظر تک نہیں رکھتا
تجھ سے تو مری جان تعلق ہی الگ ہے
ورنہ تو میں اپنی بھی خبر تک نہیں رکھتا
وہ چاہتی ہے شام و سحر ساتھ ہو اور میں
بستر پہ کسی کو بھی سحر تک نہیں رکھتا
یہ حجرہ ء دل ہے یہاں جو چاہے چلا آئے
دیوار تو کیا میں کوئی در تک نہیں رکھتا
سینے سے الگ کرنے پہ ہو جاتا تھا ناراض
اور اب مرے شانوں پہ بھی سر تک نہیں رکھتا
اے چشمِ تغافل ذرا دو چار ستم اور
یہ غم تو مری آنکھ کو تر تک نہیں رکھتا