یہی نہیں ہے کہ بس چاک ہو گیا ہے بہت
دل اس کے بعد تو سفاک ہو گیا ہے بہت
ہم اپنی کم نظری کا شکار ہو گئے ہیں
زمانہ اور بھی چالاک ہو گیا ہے بہت
اب ایسے سینہ و دل کی کشادگی نہ دکھا
مجھے پتہ ہے تو بے باک ہو گیا ہے بہت
تو واقعی تجھے اب سچ چھپانا آ گیا ہے
کہ جھوٹ بولنے میں طاق ہو گیا ہے بہت
تمھارے ہاتھ اکیلے نہیں خراب ہوئے
ہمارا زخم بھی ناپاک ہو گیا ہے بہت
تمھاری یاد میں آنکھیں بھی سبز ہو گئی ہیں
اور ایک خواب بھی نمناک ہو گیا ہے بہت
اسے تو اپنی بھی کوئی خبر نہیں ہوتی
وہ کیسے صاحبِ ادراک ہو گیا ہے بہت