اسی لیے تو محبت سے دل نہیں بھرتا
وہ آئے دن مری چائے کا بل نہیں بھرتا۔۔۔؟
سمو تو لی ہے ستاروں کی روشنی تو نے
تو اب بھی کیوں ترے سینے کا تل نہیں بھرتا
جھلستا رہتا تھا دن بھر تمھاری کرنوں میں
بلا جواز میں روزن میں سل نہیں بھرتا
یہ روح ہے کہ جو خود کو سنبھال لیتی ہے
بدن کا گھاؤ کبھی مستقل نہیں بھرتا
ترے لعاب_دہن سے شفا ملے تو ملے
ہمارا زخم کوئی آب و گل نہیں بھرتا
ہزار شان سے کرتا ہوں سامنا سب کا
تمھارا دم کوئی خوار و خجل نہیں بھرتا
وگرنہ کون سی شے ہے جو دسترس میں نہ ہو
بس اک قدم جو دل_مضمحل نہیں بھرتا
ہمارا اپنا لغت ہے، ہمارے اپنے اصول
ہرا؛ بھرا ہوا ہے، مندمل؛ نہیں بھرتا
میں دیکھتا ہوں بچھڑتے ہوئے اسے ایسے
کہ جیسے سانس کوئی جاں گسل نہیں بھرتا