بچھڑ گئے ہیں مگر دھیان میں رکھا ہوا ہے
وصال بھی حد امکان میں رکھا ہوا ہے
بتاتی رہتی ہے آنکھوں کو آنسوؤں کی جلن
ہمارا زخم نمکدان میں رکھا ہوا ہے
رکھا نہیں کسی عورت کو بھول کر دل میں
کسی درندے کو زندان میں رکھا ہوا ہے
پڑے ہوئے ہیں بہت پھول اردگرد اس کے
اور ایک تتلی کو گلدان میں رکھا ہوا ہے
کسی سے مل کے کوئی کاروبار کیا کرنا
شروع سے مجھے نقصان میں رکھا ہوا ہے
اٹھاؤ آنکھوں سے اور اپنے دل میں لے آؤ
میں مر گیا ہوں جو شمشان میں رکھا ہوا ہے
پتہ نہیں تھا کہ تم آ رہے ہو میری طرف
چراغ پہلے سے دالان میں رکھا ہوا ہے
ہمارے دل پہ ہزاروں شعاعیں پڑتی ہیں
یہ آئینہ کسی میدان میں رکھا ہوا ہے
بتاؤ سینے سے کس کو لگائے پھرتے ہو
ہمیں تو فالتو سامان میں رکھا ہوا ہے
ہزاروں وجہیں ہیں ہجرت کی میرے پاس مگر
کسی کے عشق نے ملتان میں رکھا ہوا ہے