یہی بہت ہے کہ شام و سحر سفر میں رہو
کہیں پہ پہنچو نہ پہنچو مگر سفر میں رہو
یہ کائنات نہیں ہے کہ ختم ہو جائے
یہ میرا دل ہے، یہاں عمر بھر سفر میں رہو
کبھی کبھار کا ملنا بھی کوئی ملنا ہے
ہمارے ساتھ رہو اور ہر سفر میں رہو
سکون موت ہے، یہ جان کر قیام کرو
روانی زیست ہے، یہ سوچ کر سفر میں رہو
تھکن اتار دی پہلے گلے لگا کے مجھے
اور آگے کہہ دیا بار_دگر سفر میں رہو
یہ کوئی شرط نہیں ہے مری طرف آؤ
جہاں ہو اور جدھر ہو، ادھر سفر میں رہو
برابری سے توازن جنم نہیں لیتا
رکے رہو دو پہر، دو پہر سفر میں رہو؟
کوئی تمھارا نشانہ نہ لے سکے حمزہ
اسی خیال کے پیش_نظر سفر میں رہو