جو تیرے نام سے وابستگی تمام ہوئی
سو تیرے ساتھ مری ہر خوشی تمام ہوئی
میں چل رہا تھا، اندھیرے سے خوف کھاتے ہوئے
پھر ایسا شعر ہوا. تیرگی تمام ہوئی
وہ ایک روز مرے ساتھ ہمکلام نہ تھا
اُس ایک روز مری خامشی تمام ہوئی
ترے فراق میں اتنا میں بدگمان ہوا
کہ تیرے بعد تری تشنگی تمام ہوئی
پھر ایک روز مکمل میں خود پہ کُھلنے لگا
پھر ایک روز مری بے بسی تمام ہوئی
زمیں پہ گرتے ستارے نے،یہ کہا طارق
وجود پاتی ہوئی روشنی تمام ہوئی