عشق ہماری ذات سنوارا کرتا ہے
کرب، اذیت، ہجر اتارا کرتا ہے
دل کو اکثر میں الجھائے رکھتا ہوں
فرصت میں یہ ذکر تمہارا کرتا ہے
اس دریا پر صرف خموشی رہتی ہے
اس دریا سے شور کنارہ کرتا ہے
اتری ہے پھر دھوپ ہمارے آنگن میں
سورج کتنا دھیان ہمارا کرتا ہے
ہم جیسے ہی قیس کی بیعت کرتے ہیں
ورنہ عشق میں کون خسارہ کرتا ہے
اپنے آنسو خود ہی پونچھنے پڑتے ہیں
کون کسی ہجر گزارا کرتا ہے