مکانِ دل میں کوئی بھی مکیں نہیں مرے دوست
ٹھہر کے دیکھ تجھے گر یقیں نہیں مرے دوست
میں اس لئے بھی تری خیر مانگتا ہوں بہت
تمام شہر میں تجھ سا حسیں نہیں مرے دوست
یہ رفتگاں تو کہیں اور ہی مُقیم ہوئے
تلاش کر لے یہ زیر زمیں نہیں مرے دوست
وہ کس لئے مرے بارے میں رائے دیتا ہے
جب اس کا ذکر ادب میں کہیں نہیں مرے دوست
جو سچ کے نور سے روشن دکھائی دیتی ہے
مری جبیں ہے یہ تیری جبیں نہیں مرے دوست
میں سر پھرا ہوں ،سو اس کے مزاج سے ہوں جدا
کچھ اس لئے بھی میں اس کے قریں نہیں مرے دوست