وحشت کے مکانات میں ہوتا ہے دھواں بند
تکلیف سے ہر دم ہے دمِ ہجر زداں بند
مرضی ہے مری کب میں سماعت کو بجھا دوں
کانوں پہ رکھوں ہاتھ تو ہوجائے اذاں بند
کھلتا ہی نہیں کچھ بھی درِ جانِ سخن پر
در بند ، کرم بند ، نظر بند ، زباں بند
ہوتی نہیں سانسوں کی کھٹکتی ہوئی دستک
اس طرح کیا ہم نے درِ حجرہِ جاں بند
پھر ایک نئے پن سے اذیت مجھے دیتا
کرتا تھا جہاں تھک کے بہت کارِ جہاں بند
خوشبو نہ کہیں پھیلے خبر ہو نہ کسی کو
رکھتے ہیں کمر بند سے زخموں کے نشاں بند
اک دن میں غزل کاری سے توبہ بھی کروں گا
اک روز مجھے کرنا ہے یہ کارِ زیاں بند
جھپکی نہ کوئی آنکھ ، نہ دھڑکا ہے کوئی دل
لب کھولے ہیں اس نے تو ہوئے کون و مکاں بند
کچھ مجھ کو نہیں تاب ولے دیدِ جہاں تاب
موسیٰ ہوں کوئی جس پہ ہوا سارا سماں بند
عاجز ہے یہ اسلوب شہِ ملکِ سخن کا
کرتا ہے ہہت لوگوں کا جو زورِ بیاں بند
چاہت کے سمندر میں حوادث ہیں بہت سے
اک شخص پہ ہوتا ہے یہ دروازہ کہاں بند