میں ہر کسی کو زیب تن کیے رہا جہان میں
اب ایک سوٹ بچ گیا ہے دوستی کے تھان میں
اداس کردیا بہت، دکھوں سے بھر دیا بہت
اتار کر خدا نے مجھ کو میرے خاندان میں
اگر شنید و گفت پر ہی منحصر ہے فیصلہ
تو ان گنت مقررین ہیں مری کمان میں
ہم اس کی پنسلیں تراشتے رہے ،کہ وہ لکھے
ہمارا ذکر تک نہیں ہے جس کی داستان میں
اسے محبتوں کا فلسفہ سمجھ نہ آئے گا
جو ہم سے بات کر رہی ہے لکھنوی زبان میں
مہک رہا ہے باغِ جان اس کو دیکھ دیکھ کر
گلاب کھل رہا ہے میری شاعری کے لان میں
خرید لے کوئی تو میں ادا کروں گا شکریہ
سجا رکھے ہیں چند ایک حادثے دکان میں
سرائے کی طرح ہے دل ، رکو ، چلو ، دعائیں دو
گھروں سی کوئی بات نہیں اس مکان میں