خراب لمحوں کی نادانیاں سمجھتا ہے
وہ شخص میری پریشانیاں سمجھتا ہے
میں رزقِ زخمِ جگر جانتا ہوں ان کو بھی
جنہیں زمانہ نمکدانیاں سمجھتا ہے
تم اب گئے تو کبھی لوٹ ہی نہ پاؤ گے
یہ دل تمام پنل خانیاں سمجھتا ہے
بلا جواز ، سفر کا ارادہ رکھتا ہوں
کہ رستہ سب کی زر امکانیاں سمجھتا ہے
وہ جانتا ہے مری آنکھ تخت پر ہے کیوں
پڑھا لکھا ہے سلیمانیاں سمجھتا ہے