شب کے مہمان تھے جزیرے پر
جتنے انسان تھے جزیرے پر
ان مچھیروں کو کچھ نہیں معلوم
میرے احسان تھے جزیرے پر
کافروں نے کیا سمندر فتح
اہلِ ایمان تھے جزیرے پر
کوئی آواز لوٹتی ہی نہ تھی
ہم پریشان تھے جزیرے پر
ایک میں تھا اور ایک اس کا خیال
دو ہی بے جان تھے جزیرے پر
ان کو پانی سے خوف آتا تھا
چند نادان تھے جزیرے پر
گھاؤ بھر تو گئے مرے لیکن
جو نمکدان تھے جزیرے پر
اور کچھ چاہیے بھی کیا عاجز
زخم آسان تھے جزیرے پر