مفہوم پہ اک گام بھی ٹھہرا نہیں ہوتا
اک بوند بھی پانی ہو تو صحرا نہیں ہوتا
میں چاہتا ہوں رزم گہِ عشق میں جیتوں
پر مجھ سے یہ پرچم کبھی لہرا نہیں ہوتا
کوئی بھی میسر نہ ہو تو خود کو پکارو
تنہائی کا دریا کبھی گہرا نہیں ہوتا
امواجِ تصور کے کرشمات ہیں ورنہ
تصویر کا اپنا کوئی چہرہ نہیں ہوتا
سڑکوں سے اڑی گرد جمی ہے مرے منہ پر
سورج سے مرا رنگ سنہرا نہیں ہوتا