میں سمجھتا تھا کہ آئینہ بنانا خواب ہے
ایک دن مجھ پر کھلا خوابوں کی دنیا خواب ہے
میں نے صحراؤں میں رکھا ہے سرابِ دل کشی
دیکھنے والے، ادھر بھی دیکھ! گویا، خواب ہے
کوئی جھانکے یا نہ جھانکے، کھڑکیوں کے اس طرف
خال و خد کے بھیس میں ، چہرہ بہ چہرہ ، خواب ہے
قہقہہ ناقابلِ توبہ گنہ ہے اس جگہ
یہ اداسی کے قدیمی سلسلے کا خواب ہے
ایسے لایعنی نگر کی سمت جانا ہے مجھے
چار سو جس میں دھواں ہے اور بقایا خواب ہے
دلہنوں نے اس میں پہنا سوگ میں نیلا لباس
ذائقہ تبدیل کر دیتا ہے، ایسا خواب ہے
اس کنارے پر پڑی ہیں روشنی کی کرچیاں
اور ، دریا پار جانے کا کرایہ، خواب ہے
میر نے تازہ خیالی کو کیا ہے مہر بند
شاعری لگتا ہے غالب کا ادھورا خواب ہے
اب نہیں چلنے یہاں جدت کی اندھے داؤ پیچ
اب بہ سطحِ چشمِ نو ، کوئی پرانا خواب ہے