جبینِ خوش نما جیسا ہے جملہ معتبر اس کا
غزل کے جتنے لہجے ہیں سبھی پر ہے اثر اس کا
زمینوں اور زمانوں کی تڑپتی رہگزر کے بیچ
بھلا لگتا ہے دل کی وحشت آرائی میں گھر اس کا
وہ چلتا ہے جھجکتے پاؤں رکھتا ہے ستاروں پر
خلا کو زندگی کی بھیک دے سیر و سفر اس کا
وہ اپنے گھر میں بے فکری سے سو جاتا تھا اکثر
مخالف قافلوں کے سینوں میں بیٹھا تھا ڈر اس کا
خوش انگیزی کے ہر منظر میں اس کی تابناکی ہے
نشانِ انکشاف اس کا ، جمال اس کا ، گہر اس کا
ہمارے سچ کی قیمت بھی مقابل آ نہیں سکتی
چلا ہے جس تناسب سے زمانے میں مکر اس کا
اشارے ، رمزیے ، تشبیہہ ، حجت اور دلائل تک
نہیں اس کا ہے ہاں اس کی اگر اس کا مگر اس کا
جسے ردِ روایت نے مسافر کردیا عاجز
چراغوں کی طرح روشن رہا تا حشر سر اس کا