سمے کی لے میں بڑے دھیان سے نکلتی ہوئی
صدا ہوں میں کسی زندان سے نکلتی ہوئی
خدا کرے مرے جانے سے ہو سکون تجھے
میں نظم ہوں ، ترے دیوان سے نکلتی ہوئی
میں : اک چراغ سرِ راہِ بے بسی محبوس
وہ : روشنی درِ امکان سے نکلتی ہوئی
نئے دنوں کی پرستار ، دھوپ کی آیت
دلوں میں اتری جو قرآن سے نکلتی ہوئی
ملے جو زخم تو چھیلے ہوئے بدن کے ساتھ
دوا جو پہنچی ، نمکدان سے نکلتی ہوئی