بات بے بات محبت کی قسم کھاتی ہے
خوف آتا ہے مجھے جتنی وہ جذباتی ہے
ہر محبت کے مقدر میں سپھل ہونا نہیں
پر بہت دیر میں یہ بات سمجھ آتی ہے
میں محبت میں عقیدے کو نہیں دیکھتا ہوں
کیونکہ یہ مسئلہ انساں کا بہت ذاتی ہے
آسماں خاک نظر آئے گا سرداروں کو
آنکھ میں دھول ہے اور دھول بھی طبقاتی ہے
ہجر کی جیل ہے اور کوئی شناسا بھی نہیں
ایک دیوی ہے غزل کی، جو ملاقاتی ہے
اتنا خوش فہم نہ ہو اسکی توجہ پہ حسن
وہ جسے بھولنا چاہے اسے دہراتی ہے