آنکھ کو دل کا عزادار نہیں ہونے دیا
یعنی پتھر کا سزاوار نہیں ہونے دیا
اسکی آنکھوں میں رعونت، مری آنکھوں میں خمار
دونوں دریاؤں کا انکار نہیں ہونے دیا
میں نے پھر چوم کے بتلایا کہ وہ زندہ ہے
میں نے اس شخص کو دیوار نہیں ہونے دیا
ہم اسے ہجر کی بھٹی میں نہیں جھونک سکے
ہم نے اس نور کو فی النّار نہیں ہونے دیا
ریشمی کان مصائب بھی نہیں سن سکتے
اس لئے کرب کا اظہار نہیں ہونے دیا
ایک دیوی تھی جو آنکھوں سے سخن بانٹتی تھی
اس نے ہم ایسوں کو بیکار نہیں ہونے دیا
جب اسے بھولنے لگتے وہ نظر آ جاتا
اس نے بت خانے کو مسمار نہیں ہونے دیا