یہ لوگ جو تجھے بادِ صبا نہیں کہتے
تُو ہم سے پوچھ تجھے دل میں کیا نہیں کہتے
دلوں کی آگ تو کندن بنایا کرتی ہے
ہم ایسی آگ کو آتش کدہ نہیں کہتے
جو اپنے یار سے مخلص نہ ہو وہ مر جائے
ہم ایسے لوگ اِسے بددعا نہیں کہتے
یہاں پہ ایک عقیدہ ہے اور وہ ڈر ہے
یہاں کے لوگ خدا کو خدا نہیں کہتے
سرسوتی کی نظر ہے ہماری غزلوں پر
ہم اس یقین پہ کچھ بھی برا نہیں کہتے
کہا تو تھا کہ تمھاری بہت ضرورت ہے
ہم ایک بات کبھی بارہا نہیں کہتے
تو کیا وہ آنکھیں تمھیں ہر جگہ نہیں دکھتیں
بھٹکتی چیز کو تم آتما نہیں کہتے؟
یہ بے حسی بھی تو تیری عطا ہے لوگوں کو
جو تیرے زخم کو تیری سزا نہیں کہتے
تمہارے بعد کشش ہی نہیں کسی شے میں
کسی مدار کو ہم دائرہ نہیں کہتے
غزل کے ساتھ زمانے کے زخم بھرتا ہوں
اب اس ہنر کو بھی تم معجزہ نہیں کہتے؟