تمہارا ہجر اسے آبشار کرتا تھا
ہماری آنکھ پہ تھل انحصار کرتا تھا
وہ پھول دیکھنے آتا تھا باغ میں ہر روز
میں خوشبوؤں کو وسیلہ شمار کرتا تھا
حضور آپ تو دل دے کے چیختے ہیں بہت
میں ایک شخص پہ جاں تک نثار کرتا تھا
میں چاہتا تھا کہ وہ بولتا رہے ، میں سنوں
مگر وہ کم گو بڑا اختصار کرتا تھا
مری زباں پہ بھروسہ تھا اس لئے سب کو
کہ ایک شخص مرا اعتبار کرتا تھا
خدا کے بعد اسے مجھ پہ مان تھا کیونکہ
خدا کے بعد اسے میں ہی پیار کرتا تھا
کسی کی شکل اترتی تھی شعر بن کے حسیب
کوئی خیال مجھے سوگوار کرتا تھا