موتیا آنکھوں میں اور چاندی بھلے بالوں میں ہے
پھر بھی تیرے مبتلا کا نام دل والوں میں ہے
زندگی کو کاٹتے ہیں جیل کے مانند ہم
موت کی پرلطف ٹھمری کا اثر تالوں میں ہے
نفسیاتی مسئلے سمجھو اگر شوقین ہو
وہ کبوتر خوش نہیں جو سرمئی جالوں میں ہے
جنگ میں آ کر تمہارے جنگجو پر یہ کھلا
گھاؤ جو تیری نظر کا ہے کہاں بھالوں میں ہے
اے سمندر معذرت میں اس لئے ڈرتا نہیں
تجھ سے بھی ظالم بھنور اُن سانولے گالوں میں ہے
اک تمہارا خوف ہے اور اک خدا کا خوف ہے
اپنا دل تو جیسے ڈر کے آتشیں چھالوں میں ہے
دستیابی اصل میں بے قیمتی کا نام ہے
دیوتا کی شکل تک پرساد کے تھالوں میں ہے
سرسری دیکھا تھا اس نے اوڑھ کر جس کو حسن
آج بھی وہ شال سب سے قیمتی شالوں میں ہے