منہ کس کو چھپانا چاہیے ؟
آج کی تحریر -پی ٹی آی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ نام -آج صبج جب آنکھ کھلی تو حسب معمول چائے کے کپ اور سیگریٹ کے ساتھ میں نے ٹی وی آن کیا -تومحترم محمود خان کو پی ٹی آی کے طرف سے صدارتی امیدوار نامزد کرنے کی خبر سنی میں نے چائے کا اک بڑا گھونٹ بھرا اور سیگرٹ کے کش کےساتھ جناب داعی ریاست مدینہ کے ماضی کے فرمودات پر سوچنے لگا کیسے وہ عبدالصمد اچکزی کے با اصول بیٹے کو ذلیل و رسوا کرتے تھے ایمان افروز خطابات میں وہ فرماتے تھےکے ایک شخص جس کے پاس بقول بانی پی ٹی آی ڈھنگ کے کپڑے نہیں اور چادر کی بکٗل میں میں منہ چھپاۓ پھرتا ہے جس کی تضحیک عمران خان باقاعدہ تمثیلی انداز میں أڑیا کرتے تھے سیاست کے اس دلچسپ سفر کے بعد جو دھرنے اور وزیر اعظم ہاوس سے اڈیالہ جیل پہنچ کر کچھ تھما ہے-لہذا آج میں نے ماضی کی اپنی تحریروں کو پھر سے پڑھا ۔اور ان تحریروں پرپی ٹی آی کے دوستوں کے کمنٹ چیک کیے، مجھے یاد ہے کہ عمران کے حکومتی مرتدین ایک بار میں انتہا درجے کہ وہ الفاظ بھی لکھا کرتے تھے جنہیں لکھنے کی تصور سے مجھے شرم آتی ہے ۔ أس وقت ان کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ لیے ہر تحریر لکھنے کی” وہ” لوگ رہنمائی کر رہے تھے اور مجھ جیسے دیگر بہت سے لوگ انہیں سمجھانے کی بے سود کوشش کررہے تھے کہ وہ الفاظ بولو جنہیں کل واپس لینا آسان ہو- مگر تب اس کے برعکس محمود خان اچکزی اور دوسرے لوگ ان کے لیے غدار اور کافر تھے حتیٰ کہ فضل الرحمان کو فضلو کہنا گویا عین ثواب تھا اب اس وجہ سے کتنی پریشانیاں اور ندامتیں اٹھانا پڑ رہی ہیں! ہو سکتا ہے میں نے کسی کی بے عزتی نہ کی ہو لیکن میں نے ہمیشہ سچ کی عینک کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ لیکن ان میں سے کچھ کو براہ راست کال اور میسج کرکے بھی اپنے باس کے دفاع میں اتنا آگے جانے سے روکنے کی کوشش کی تھی، خاص طور پر وہ لوگ جو عمران کی حکومت میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا تھے ! اب جب میں دیکھتا ہوں کہ ان میں سے کچھ کتنے احمق تھے، انہوں نے جعلی سیاست دانوں کو سچی دوستی سے زیادہ اہمیت دی۔ میں آپ کو بہت یاد کرتا ہوں اور میں آپ کی دوستی سے مایوس بھی ہوں۔ اب خود سوچیں سیاسی انتہا پسندی کا یہ جن بوتل سے نکلانا جتنا آسان تھا بوتل میں واپس بند کرنا اس بھی زیادہ جان جوکھم کا کام ہے اب بھی ہمیں موجودہ حکومت کے ساتھ کسی کے ہونے یا نہ ہونے کا الزام ایک دوسرے پر نہیں لگانا چاہیے کیونکہ ہمارے پاس نہ کل اختیار تھا اور نہ اب ماضی میں آپ باس کے پاس بیسٹ فائیو ایجنٹ جیسا اختیار تھا۔ ، اور اب وہ اختیار نہیں ہے ۔ اس لیے ہمیں ایک دوسرے سے لڑنے اور ایک دوسرے کے دلوں کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس وقت ہم سب ایک ہی کونے میں ہیں اور کل کے سیاست دان بھی عیش و عشرت میں مصروف ہیں لیکن ماضی کی ناراضگیوں کی وجہ سے سیاسی کارکنان صحافی اینکر ایک دوسرے کو پیغام بھی نہیں بھیج سکتے۔(مانی )