معیشت کو مضبوط کرنا ہوگا، کمزور کی آواز کوئی نہیں سنتا، وزیراعظم
اسلام آباد: وزیراعطم شہباز شریف نے کہا ہے کہ معیشت کو مضبوط کرنا ناگزیر ہے، کمزور کی آواز کو کوئی نہیں سنتا۔
ٹیکس ایکسیلینس ایوارڈز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں غزہ جنگ بندی سے متعلق قرارداد منظور کی گئی، جو کہ خوش آئند ہے تاہم اس پر عمل درآمد بہت ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ کئی ماہ سے فلسطینیوں پر اسرائیل کی جانب سے ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، اسرائیلی جارحیت اور تباہی میں بچوں سمیت ہزاروں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جس کی عصر حاضر میں کوئی مثال نہیں ہے۔ دنیا کے دیگر مذہب ممالک نے بھی اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد پر عمل کے بغیر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ پاکستان پوری اسلامی دنیا کے ممالک اور دوسرے ممالک کے ساتھ بھی اپنے فلسطینی بھائیوں کی ایک آزاد مملکت کے لیے بھرپور آواز اٹھاتا رہا ہے اور اٹھاتا رہے گا یہاں تک کہ انہیں یہ حق مل نہیں جاتا۔وزیراعظم نے کہا کہ آج کی تقریب کا مقصد پاکستان کے معماروں یعنی ٹیکس پیئرز کی حوصلہ افزائی کرنا ہے، جنہوں نے اپنی محنت کی کمائی سے ٹیکس ادا کیا، جنہوں نے دن رات محنت کرکے پاکستان کی ایکسپورٹ بڑھانے میں اپنا کردار ادا کیا، ان میں خواتین بھی شامل ہیں جو ملکی معیشت میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں۔
ٹیکس ایکسیلینس ایوارڈز کا مقصد محض ایک تقریب کا انعقاد نہیں بلکہ اس کا مقصد قوم کو پیغام دینا ہے کہ اس وقت ملک جن معاشی حالات سے گزر رہا ہے، جو چیلنجز درپیش ہیں، اگر ان مسائل کو حل کرنا ہے تو گاڑی کی دو پہیوں کی طرح حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
وزیراعظم نے کہا کہ حکومت پاکستان صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر آپ کے مسائل حل کرے گی اور اس میں درپیش تمام رکاوٹوں کو دور کرے گی۔ ہمیں سرخ فیتے کو ختم کرنا ہوگا۔ تاخیری حربوں اور نااہلی چھوڑ کر ایک ایسا ماحول مہیا کرنا ہے، جس کے ذریعے آپ اپنے شعبوں میں محنت کرکے پاکستان کو معاشی ترقی کی دوڑ میں ایک بار پھر آگے لا سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشی مسائل تبھی حل ہو سکتے ہیں جب ہم پرائیویٹ سیکٹر کے لیے اچھے مواقع پیدا کریں، انہیں پوری طرح سے سپورٹ کریں۔ انڈسٹریز لگانا یا تجارت کرنا حکومت کا کام نہیں، حکومت کا کام ان سب کے لیے بہترین مواقع پیدا کرنا ہے اور اس طرح کی پالیسیاں بنانا ہے، جس سے پاکستان آئندہ برسوں میں ترقی کی دوڑ میں دنیا کی دوسری قوموں میں شامل ہو جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ معیشت مضبوط ہو تو قوم کی آواز مضبوط ہوتی ہے اور اس کی آواز کو سنا جاتا ہے، مگر معیشت کمزور ہو تو کمزور کی آواز کوئی نہیں سکتا۔ آج وہ مرحلہ آ گیا ہے کہ سب کو مل کر مشکلات اور چیلنجز کو قبول کرتے ہوئے ان کا حل نکالنا ہوگا۔ ماضی کی کئی دہائیوں کی کوتاہیوں کو چھوڑ کر اب ہمیں آگے بڑھنا ہوگا۔شہباز شریف نے کہا کہ ایف بی آر کی ری اسٹرکچرنگ کی جا رہی ہے، جس پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے۔ ایف بی آر کو مکمل ڈیجیٹائز کردیا جائے گا۔ اسی طرح ہمیں تمام شعبوں میں موجود خلا کو ختم کرنا ہوگا اور اگر اس میں کامیاب ہو گئے تو ٹیکس در ٹیکس لگانے کا سلسلہ بھی خاتمے کی طرف جائے گا۔ اس حوالے سے اصلاحات پر کام کا آغاز ہو چکا ہے، جس کے بعد اچھی ٹیکس پالیسی لائیں گے۔ ہر ہفتے اچھے اعلانات سننے کو ملیں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ کشکول کی پالیسی کو اب ترک کرنا ہوگا۔ اب تو کشکول لے کر نہ بھی جائیں تو اگلے کہتے ہیں کہ کشکول ان کی بغل میں ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے۔ یہ ہمارے لیے اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا وقت ہے۔وہ قومیں ہم سے بہت آگے نکل گئیں جنہوں نے کبھی کشکول نہیں اُٹھایا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج ہم پر قرضوں کا پہاڑ ہے، جسے قرض لے کر ہی اتارا جا رہا ہے، قرضوں سے تنخواہیں ادا کرتے ہیں، قرضوں سے ڈیولپمنٹ کے کام کررہے ہیں، قرضوں کی زندگی کب تک گزاریں گے؟
انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور عزت سے زندگی بسر کرنی ہے تو پھر ایک ہی راستہ ہے کہ ہم یکجان دو قالب ہوکر یکسوئی کے ساتھ دن رات محنت کریں۔ انڈسٹری کو بڑھائیں، ایکسپورٹ کو بڑھائیں، زراعت اور آئی ٹی کو ترقی دیں، ان اہداف کو حاصل کرنے سے ہی ہمارے مسائل حل ہوں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب سے حلف اٹھایا ہے، تب سے اب تک معیشت کی بہتری کے لیے مسلسل اقدامات کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں بھی پیش رفت ہوئی ہے۔ ہمیں آئی ایم ایف سے ایک پروگرام اور چاہیے ہوگا، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے ساتھ ساتھ ہمیں محنت اور بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھنا ہوگا۔ ملازمت کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے، مہنگائی میں کمی لانا ہوگی، زراعت اور ایکسپورٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف پروگرام میں کچھ حدود و قیود ضرور ہوتی ہیں مگر جو کچھ ہمارے اختیار میں ہے، اس کے لیے ہمیں کسی بہانے کی ضرورت نہیں ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایسے ادارے جو خسارے کا سامنا کررہے ہیں ان کی نجکاری کررہے ہیں۔ ائرپورٹس اور پی آئی اے کو پرائیویٹائز کیا جا رہا ہے۔ جب تک بجلی، گیس اور دیگر اداروں کے خساروں کو کم نہیں کیا جاتا، تب تک معیشت کا خلا پُر نہیں ہو سکتا۔ اور اگر یہ سب کرلیا تو پاکستان ضرور ترقی کرے گا۔
وزیراعظم نے اعلان کیا کہ تقریب میں تمام کیٹیگریز میں جن افراد کو ایوارڈز دیے گئے ہیں، انہیں بلیو پاسپورٹ جاری کیا جائے گا۔ یہ سب لوگ پاکستان کے سفیر ہیں اور انہیں ملک سے باہر پاکستانی سفارت خانوں کی جانب سے بھرپور معاونت ملے گی اور یہ ان کا حق ہے۔