پلوشے شہرزاد کی زندگی کا پہلا خواب پڑھ لکھنا تھا۔
پڑھ لکھ لیا تو اب دوسرا خواب اپنے علاقے لکی مروت کی دوسری بچیوں کو پڑھتے دیکھنا ہے۔
اس کے لئے وہ خود شہر میں جاب کرتی ہے۔ پیسے بچاتی ہے اور بچیوں کی فیس ادا کرتی ہے۔ گاؤں میں بچوں کے ماں باپ سے مل کر انہیں سکول بھیجنے کی ترغیب دیتی ہے۔
باقاعدگی سے نماز اپنے شوق سے پڑھتی ہے۔ البتہ گاؤں جاتے ہوئے برقعہ اس لئے پہنتی ہے کہ گاؤں اور قبیلے والوں کے لئے قابلِ قبول رہے۔ میں نے ایک بار ان سے پوچھا، "آپ کو علاقے اور قبیلے کی قبولیت کیوں چاہئے؟”
جواب تھا، "تاکہ گاؤں والے میری بات سُنیں جس طرح اب سُنتے ہیں۔ کوئی یہ کہہ کر اپنی بچی کو سکول سے نہ اٹھائے کہ پلوشہ کی طرح لکھ پڑھ گئی تو یہ بھی برقعہ چھوڑ دے گی۔ میرے برقعہ لینے نہ لینے سے زیادہ اہم کسی بچی کی تعلیم ہے۔”
چترال کی کالاش وادیوں سے لے کر لکی مروت تک ایسے بچے بچیاں ہیں جو ان کی حوصلہ افزائی اور معاونت سے پڑھ رہے ہیں۔
وہ سمجھتی ہے کہ اس کا دین اسے بھلائی کا حکم دیتا ہے۔ بچیوں کو سکول میں پڑھانا بھلائی ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کل تک ان کو پسند تھا اب نہیں ہے۔ آج فون پر بھرائی آواز میں پوچھ رہی تھی،
"میں نے تو کل اُن سے صرف سادہ سا سوال کیا تھا۔ میں نے کسی پر طنز نہیں کیا تھا۔ پھر بھرے مجمعے میں مجھ سے معافی کا تقاضا کیوں کیا گیا؟ مجھے بلاوجہ دھتکارا کیوں گیا؟ بات کو مذہب کی توہین تک کیوں کھینچا گیا۔ یوٹیوبرز "ذاکر نائیک کا پٹھان لبرل لڑکی کو جواب” کے تھمب نیلز کے ساتھ کلپ کیوں بیچ رہے ہیں؟”
اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کا سوال دردمندانہ اور اخلاص سے بھرپور تھا۔ اس میں کسی طنز کا شائبہ تک نہیں۔
اس کے باوجود ذاکر نائیک نے ان کو کیا جواب دیا وہ پیشِ خدمت ہے۔ پھر اس جواب کو فخریہ طور پر اپنے پیج پر بھی شئیر کیا۔ بین الاقوامی طور پر معروف داعی لکی مروت کی پلوشہ سے جیت گیا ہے مگر پلوشہ پہلے سے زیادہ کنفیوژن میں کھڑی ہے۔ سوال بھی وہی کھڑا ہے۔
پلوشہ کو اب ذاکر نائیک پسند نہیں۔ اس پر یہ بھی کھل گیا ہے کہ داعی ہمیشہ کھینچتے ہی نہیں پرے بھی دھکیلتے ہیں۔ ذاکر نائیک کے رویے نے پلوشہ کے دردمند اور اخلاص بھرے دل پر کاری ضرب لگائی ہے۔
زخم مندمل ہوجائیں گے تو پلوشہ دوبارہ نسلوں کی بھلائی میں جت جائے گی۔ ہاتھ جوڑ کر قبیلے والوں کے پاس جائے گی کہ اپنی بچیوں کو سکول بھیجیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی جنتیں کمانے کہیں اور نکل جائے گا۔ البتہ سوالات وہی ہیں، وہی رہیں گے۔ ساتھ یہ شکوہ بھی،
ہم ایسے دلبروں کو جہنم میں ڈال کے
بیٹھے رہو بہشت کو ویراں کیے ہوئے