پاکستان کا سب سے بڑا ائیر پورٹ کہاں ہے؟
بلوچستان کے جنوب مغرب میں بحیرہ عرب کے ساحل پر گوادر کے اُس انٹرنیشنل ایئر پورٹ کا بالآخر افتتاح کر دیا گیا ہے جس کا خواب دہائیوں سے دیکھا جا رہا تھا۔
4300 ایکڑ (17 مربع کلو میٹر) رقبے پر پھیلا نیو گوادر انٹرنیشنل ایئر پورٹ (این جی آئی اے) پاکستان کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے جس پر دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے بھی اتر سکتے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ نئے ہوائی اڈے کا رن وے، ٹرمنل بلڈنگ اور دوسری سہولیات بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کی گئی ہیں۔ انہیں توقع ہے کہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے اندرون ملک اور بیرون ملک پروازوں کے آغاز کے ساتھ ساحلی شہر میں تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔ تاہم بعض تجزیہ کار اس کے برعکس خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔نئے ہوائی اڈے کا بیشتر تعمیراتی کام رواں سال کے وسط میں مکمل کر لیا گیا تھا۔ اگست میں پاکستان کے یوم آزادی کے دن وزیراعظم شہباز شریف نے چینی وفد کے ہمراہ اس کا باقاعدہ افتتاح کرنا تھا تاہم گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج اور سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے افتتاحی تقریب کو مؤخر کیا گیا۔
دو ماہ بعد آج پیر کو چین کے وزیراعظم لی چیانگ اور پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں بیٹھ کر منصوبے کا اسلام آباد میں بیٹھ کر ورچوئل افتتاح کیا۔
گوادر شہر سے مشرق میں تقریباً 26 کلومیٹر دوری پر واقع یہ پاکستان کا دوسرا گرین فیلڈ یعنی ایسا ایئرپورٹ ہے جسے پاکستانی حکومت نے چین اور عمان کی حکومت کی امداد سے بالکل نئے سرے سے تعمیر کیا ہے۔
پاکستان کی وزارت منصوبہ بندی کے مطابق منصوبے پر مجموعی طور پر 60 ارب 20 کروڑ روپے کی لاگت سے زائد کے اخراجات آئے جن میں سے نصف سے زائد رقم چینی حکومت نے فراہم کی۔
نئے ہوائی اڈے کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کے حکومتی ادارے چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی کے ذیلی ادارے چائنہ ایئرپورٹ کنسٹریکشن گروپ کو دیا گیا تھا۔ اس چینی کمپنی کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر لیاؤ جیان ژن کے مطابق یہ منصوبہ چینی حکومت اور عوام کی طرف سے گوادر اور پاکستان کے حوالے کے لیے ایک تحفہ ہے اور یہ پاک چین دوستی کی یادگار کے طور پر قائم رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ دونوں ملکوں کے درمیان پائیدار شراکت داری اور باہمی تعاون کی اعلیٰ مثال ہے جس سے فضائی نقل و حمل کے بنیادی ڈھانچے اور خطے میں معاشی ترقی کو فروغ ملے گالیاؤ جیان ژن نے بتایا کہ گوادر ایئرپورٹ سٹیٹ آف دی آرٹ منصوبہ ہے جسے بین الاقوامی معیار کے مطابق تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر کے دوران کافی ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گوادر میں بہت تیز ہوائیں چلتی ہیں یہاں دو سو کلومیٹر فی گھنٹہ تک ہوا بھی ریکارڈ کی گئی۔
’ہم نے ڈیزائن کے مرحلے میں یہاں کی آب و ہوا، زمین کی ساخت اور باقی چیزوں کو دیکھا۔ ہم نے تیز ہوا، گرمی اورموسمیاتی سختیوں کے علاوہ بجلی، پانی، تعمیراتی مواد اور ہنرمند افرادی قوت کی کمی جیسی مشکلات پر قابو پاکر اس منصوبے کو تکمیل تک پہنچایا ہے۔‘
چینی ماہر کا کہنا تھا کہ گوادر ایئرپورٹ کے لیے 42 فٹ اونچے اور 14 ہزار مربع میٹر پر مشتمل جدید سہولیات سے آراستہ خوبصورت اور سمارٹ ٹرمنل بلڈنگ تعمیر کی گئی ہے جو ابتدائی طور پر سالانہ چار لاکھ سے زائد مسافروں کو ہینڈ ل کرسکے گی جبکہ اس کا کارگو ٹرمنل متنوع کارگو اقسام کو سنبھالنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی صلاحیت سالانہ 30 ہزار ٹن ہے۔ مسافروں کو ٹرمینل سے پرواز تک جانے کے لیے برج کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔
لیاؤ جیان ژ ن نے بتایا کہ ایئر پورٹ کا رن وے بین الاقوامی معیار ہے جس پر جدید لینڈنگ آلات نصب کیے گئے ہیں اس لیے اس پر پر دن رات اور ہر موسم میں پروازیں چلائی جا سکیں گی۔
ان کے مطابق رن کی لمبائی 3658 میٹر اور چوڑائی 75 میٹر ہے جسے 23 میٹر چوڑے ٹیکسی وے سے جوڑا گیا ہے۔ اس رن وے پر چار سو سے پانچ سو مسافروں کی گنجائش رکھنے والے ایئر بیس 380، بوئنگ 747 جیسے دنیا کے بڑے مسافر بردار طیارے بھی لینڈ اور ٹیک آف کر سکیں گے۔ یہاں بیک وقت پانچ طیارے پارک ہو سکیں گے۔
حکام کے مطابق گوادر کا نیا ایئرپورٹ، کراچی ایئرپورٹ 3700 ایکڑ، اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ 3600 ایکڑ اور لاہور ایئرپورٹ 2800 ایکڑ کے مقابلے میں پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ایئر پورٹ ہے جو 4300 ایکڑ (تقریباً 17 مربع کلومیٹر) رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔
نئے ہوائی اڈے میں ہائی ٹیک نیویگیشنل سسٹم، جدید ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور، کریش یا پھر آگ لگنے کی صورت میں ریسکیو، فیول سٹوریج، ڈی سیلینیشن پلانٹ، گرڈ سٹیشن، واٹر سپلائی سسٹم، پی ٹی سی ایل فائبر آپٹک سسٹم اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے متعلقہ عمارتیں اور بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا ہے۔
ایئرپورٹ کو چاروں اطراف باڑ لگا کر محفوظ بنایا گیا ہے۔ مسافروں اور سامان کے لیے جدید حفاظتی خصوصیات کا حامل سکینگ نظام بھی نصب کیا گیا ہے۔کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی سے 12 میگاواٹ کا معاہدہ کر کے ایئرپورٹ کو 24 گھنٹے ہموار بجلی کی فراہمی کے لیے تین الگ الگ ٹرانسمیشن لائنوں سے منسلک کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ 12 ارب روپے سے زائد لاگت سے ایئرپورٹ کے احاطے میں ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے لیے کیمپ، سول ایوی ایشن کے عملے اور افسران کے لیے رہائش، کمیونٹی سکول، مسجد، میس اور دیگر سہولیات سے آراستہ الگ کمپلیکس بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں ایسٹ بے ایکسپریس وے کو توسیع دے کر گوادر پورٹ کو نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے جوڑا جائے گا۔ یہ نئی سڑک ساڑھے دس کلومیٹر طویل ہو گی۔
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق ایئر پورٹ کے بنیادی ڈھانچے کی ٹیسٹنگ اور کمیشننگ کئی ماہ قبل مکمل کر لی گئی تھی۔ اس دوران ایئرکنگ بی 700 کی ایک آزمائشی پرواز نئے ہوائی اڈے پر کامیابی سے اتری۔ تین ماہ کے دورانیے تک جاری رہنے والے اس عمل میں معیار، قواعد و ضوابط ، ایئرپورٹ کے ڈیزائن، آپریشنل کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔
ایئرپورٹ کے عملے کو چین میں تکنیکی تربیت دی گئی تاکہ ایئرپورٹ کو آزادانہ طور پر چلایا جا سکے۔
وزارت ہوا بازی کے مطابق نئے ایئرپورٹ کو پاکستان، عمان اور چین کا جوائنٹ وینچر سنبھالے گا تاہم اس کے انتظام اور آپریشن کی نگرانی کے لیے پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی ذمہ دار ہوگی۔ ایئرپورٹ کو اوپن سکائی پالیسی کے تحت چلایا جائے گا۔گوادر کا پرانا ایئرپورٹ 1966 سے فعال ہے۔ 80 اور 2000 کی دہائی میں یہاں نئی تعمیرات کی گئیں تاہم اس ایئرپورٹ پر صرف چھوٹے طیارے اتر سکتے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں جب گوادر میں بندرگاہ کی تعمیر اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا تو نئے ایئرپورٹ کی ضرورت کو بھی محسوس کیا گیا۔ تقریباً دو دہائی قبل اس کی فزیبلٹی پر کام کیا گیا لیکن آنے والے کئی برسوں اور حکومتوں میں یہ منصوبہ کاغذی کارروائیوں تک محدود رہا۔
نئے ایئر پورٹ کی خصوصیات، اس پر کام کے آغاز، تکمیل کے لیے تاریخوں اور اخراجات کا تخمینہ وقت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہا۔ 2010 میں منصوبے کی لاگت کا تخمینہ ساڑھے سات ارب روپے اور2015 میں 22 ارب روپے لگایا گیا۔
2015 میں پاک چین اقتصادی راہداری منصوبےکا حصہ بننے کے بعد اس کو ترجیحات میں رکھا گیا اور اس کے ڈیزائن میں بہت وسعت لائی گئی جس کی وجہ سے تخمینہ بھی بڑھ کر پہلے 55 ارب اور پھر 60 ارب تک پہنچ گیا۔ چین نے منصوبے کے لیے قرض فراہم کرنے کا وعدہ کیا، بعد میں 2017 میں معاہدہ کرکے قرض کو امداد میں تبدیل کر دیا۔ عمانی حکومت نے بھی منصوبے کے لیے امداد فراہم کی لیکن ایئرپورٹ پر عملی طور پر کام تب بھی شروع نہ ہو سکاگرچہ مارچ 2019 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا لیکن اس کے باوجود تعمیراتی کام سات ماہ کی تاخیر سے اکتوبر 2019 میں شروع ہوا۔ اس وقت منصوبے کی تکمیل کی مدت 2022 بتائی گئی، مگر بعد میں مارچ 2023 اور جون 2024 کی نئی تاریخوں پر بھی عمل نہیں ہو سکا۔
سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ کی تعمیر کا کام اب بھی سو فیصد مکمل نہیں ہوا۔ رسمی افتتاح کے باوجود دو سے تین فیصد کام اب بھی باقی ہے جسے مکمل کرنے میں مزید چند ماہ لگ سکتے ہیں۔ اتھارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے ہوائی اڈے پر پروازوں کا آغاز دسمبر یا پھر نئے سال کے شروع میں متوقع ہیں۔حکام گوادر کے نئے ہوائی اڈے کو گوادر پورٹ اور اس کے فری زون کی ترقی کے لیے اہم سمجھتے ہیں اور توقع کر رہے ہیں کہ اس سے نہ صرف گوادر کے مقامی شہریوں کو آمدروفت میں آسانی ہوگی بلکہ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار بھی کم مسافت اور تیز رفتار سفر کی سہولیات میسر آنے سے گوادر کی جانب راغب ہوں گے۔
نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے منیجر خالد کاکڑ کا کہنا ہے کہ پرانے ایئرپورٹ پر صرف چھوٹے طیارے اتر سکتے تھے جس میں 40 سے 50 مسافر آتے تھے وہ طیارے بھی غیر آرام دہ تھے۔ اب مسافر اچھے اور بڑے حجم کے طیاروں میں اندرون ملک اور بیرون ملک آرام دہ سفر کر سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایئرپورٹ پر جلد قومی اور بین الاقوامی پروازیں شروع ہوں گی۔ ابتدائی طور پر پی آئی اے یہاں سے پروازیں چلائیں گی۔ ہم تمام ایئر لائنز کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ جلد ان کی فضائی سروس بھی گوادر سے شروع ہو گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی معیار کے حامل ایئرپورٹ کی فعالی سے نہ صرف گوادر کے علاوہ بلکہ ملکی اور غیرملکی سرمایہ کار مستفید ہو سکیں گے بلکہ تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔
پاکستان میں چینی معاشی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے بلوچستان کے صحافی عدنان عامر کہتے ہیں کہ 246 ملین ڈالر مالیت کا نیو انٹرنیشنل ایئر پورٹ گوادر میں سی پیک کے منصوبوں میں سب سے بڑا اور انتہائی منصوبہ ہے۔ باقی منصوبوں کے برعکس چین نے اس منصوبے کے لیے قرضہ نہیں بلکہ امداد دیان کا کہنا ہے کہ نئے ایئر پورٹ سے نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بالخصوص چین کے لیے براہ راست پروازیں چلائی جا سکیں گی جو موجودہ اور پرانے ایئرپورٹ پر ممکن نہیں تھی اس پر صرف چھوٹے طیارے ہی لینڈنگ کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ توقع کی جا رہی تھی کہ جب بندرگاہ کی تعمیر سے شہر ترقی کرے گا اور صنعتی اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بنے گا تو بہت سارے لوگ گوادر آئیں گے اور بڑے پیمانے پر تجارتی سامان کی ترسیل ہو گی تو اس کے لیے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کو ضرورت سمجھا گیا لیکن اب نئے ایئرپورٹ کی تکمیل پر صورتحال مختلف ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ گوادر میں مستقبل قریب میں زیادہ معاشی سرگرمیوں کےا ٓثار دکھائی نہیں دے رہے، بیشتر مقامی لوگوں کی معاشی حالت بھی ایسی نہیں کہ وہ فضائی سفر کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت بھی صرف گوادر اور کراچی کے درمیان ہفتے میں دو تین پروازیں چلتی ہیں وہ بھی بیشتر منسوخ ہوجاتی ہیں۔
عدنان عامر کے مطابق ’طلب نہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ گوادر کا نیا انٹرنیشنل پورٹ بڑے انفراسٹرکچر اور زیادہ صلاحیت کے باوجود گھوسٹ اور خالی ترین ایئرپورٹ رہے گا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گورننس کے مسائل کی وجہ سے منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر، بلوچستان میں شورش، سکیورٹی کے مسائل اور عسکریت پسندوں کی جانب سے چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کے واقعات کی وجہ سے سی پیک کے منصوبوں پر اثر پڑا ہے۔