بشریٰ بی بی کی ’سیاسی انٹری‘ سے کیا علیمہ خان ناخوش ہیں؟
جیسے جیسے 24 نومبر کے دھرنے کی تاریخ قریب آ رہی ہے، پی ٹی آئی کے اندر صورتحال کچھ آسان دکھائی نہیں دے رہی۔
اس کی بنیادی وجہ بشریٰ بی بی کا وزیراعلٰی ہاؤس خیبرپختونخوا میں پنجاب اور کے پی کے اراکین اسمبلی سے خطاب ہے، جس میں انہوں نے ایم این ایز کو 10 ہزار جبکہ ایم پی ایز کو پانچ ہزار افراد احتجاج میں لانے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں نتائج سے بھی آگاہ کیا ہے۔
ان کے نام سے منسوب ایک آڈیو ٹیپ بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے جو ان کے خطاب کے وقت ریکارڈ کی گئی تھی۔تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی نے اس آڈیو کی تصدیق کی ہے کہ بشریٰ بی بی کی آواز ہی ہے۔ اس اکٹھ میں پنجاب سے بھی تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز کو بھی بلایا گیا تھا۔ تاہم ابھی تک کی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں کسی بھی قسم کی ہلچل دکھائی نہیں دے رہی۔
تحریک انصاف پنجاب کے آفیشل پارلیمانی واٹس ایپ گروپ میں بھی اراکین دبے لفظوں میں پوچھ رہے ہیں کہ یہ ٹارگٹ کیسے پورے ہوں گے۔ ایک تو تحریک انصاف پنجاب کی قیادت جس میں صوبائی صدر حماد اظہر ہیں، وہ بھی 9 مئی کے بعد سے روپوش ہیں جبکہ باقی 60 فی صدر قیادت پابند سلاسل ہے۔ اور پنجاب میں خاموشی کا مطلب بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
تاہم عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان بھی پنجاب میں متحرک دکھائی نہیں دیتی ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کے درمیان بتائی جانے والی سرد جنگ ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے بلکہ صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔’اس دفعہ عمران خان نے براہ راست اپنے کارکنوں کو کال دی ہے۔ اور بشریٰ بی بی ایک پیغام بر کے طور پر آئی ہیں۔ چونکہ عمران خان سے رابطوں کا فقدان ہے۔ اور جو لوگ الگ الگ ملتے تھے وہ باہر آ کر اپنی مرضی سے بیان دیتے تھے۔ چاہے وہ گوہر ہو، یا علی امین ہو یا سلمان اکرم راجہ۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’بشریٰ بی بی کی اس تقریر کو سیاسی انٹری نہ سمجھا جائے، میں بھی اس میٹنگ میں تھا۔ وہ تو بس خان کا پیغام دے رہی تھیں۔ اور علیمہ خان یا بشریٰ بی بی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ کال کا تو جیل سے نکل کر علیمہ خان نے بتایا تھا۔ ارکان پارلیمنٹ کے لیے پیغام بشریٰ بی بی لے کر آئیں۔ تو اس وقت ہم سب کا بس ایک فوکس ہے اور وہ ہے عمران خان کی رہائی۔‘
پنجاب میں خاموشی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں قیادت کی کمی کا ضرور سامنا ہے، لیکن اس دفعہ کی کال براہ راست عمران خان نے ورکرز کو دی ہے۔
’آپ کی سوچ ہے کہ لوگ کیسے وہاں پہنچیں گے۔ میں ابھی حکمت عملی تو نہیں بتا سکتا لیکن ہم بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ جس طرح آٹھ فروری کو لوگوں نے حیران کر دیا تھا، اب بھی ایسا ہی ہو گا۔ لیڈران کی ضرورت ہے ہی نہیں ہے