سرکاری عہدیداران کی برطرفی کیس؛ کیا صدر، وزیراعظم سمیت سب کو نکال دیں؟ جسٹس جمال
آئینی بینچ نے تمام کرپٹ سرکاری عہدیداران کو برطرف کرنے سے متعلق درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کی درخواست میں استدعا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے انہیں فارغ کریں، آپ ان سرکاری افسروں کی نشاندہی کریں اور متعلقہ اداروں سے رجوع کریں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اپنی درخواست میں کسی سرکاری آفیسر کا نام تک نہیں لکھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ کا کونسا کام نہیں ہوا عدالت کو بتائیں! اس کا کیا مطلب ہے ہم صدر، وزیر اعظم، اسپیکر اور پارلیمنٹیرینز سب کو نکال دیں۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے لاہور ہائیکورٹ میں ججز کی سینیارٹی کے حوالے سے جسٹس فرخ عرفان خان کی درخواست پر سماعت کی۔
آئینی بینچ نے نظر ثانی درخواست غیر مؤثر ہونے کی بنیاد پر نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ مستقبل میں کسی اور مقدمے میں سینیارٹی کے اصول کا معاملہ طے کریں گے۔جسٹس عائشہ ملک نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ کیا آپ یہ کیس چلانا چاہتے ہیں؟ چار ججز کے حوالے سے ایشو تھا یہاں تو ججز ریٹائر بھی ہو چکے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پانچ لوگوں نے ایک ساتھ حلف لیا تو عمر کے حساب سے سینیارٹی طے ہوگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہ کہ آپ عدالت کو اکیڈمک ایکسر سائز کرنے کا کہہ رہے ہیں۔وکیل حامد خان نے دلائل میں کہا کہ ججز کا نوٹیفکیشن ساتھ ہونے کے بعد اگر حلف ایک دن تاخیر سے بھی لیں تو سینیارٹی برابر ہی ہوگی، جسٹس فرخ عرفان نے امریکا ہونے کے سبب چیف جسٹس کو آگاہ کر کے حلف ایک دن بعد اٹھایا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جج جب تک حلف نہیں اٹھاتا تب تک وہ جج نہیں ہوسکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ نظرثانی میں آئے ہیں فیصلے میں غلطی کیا ہے وہ بتائیں، اگر کوئی شخص نوٹفکیشن کے ایک ماہ تک حلف نہیں لیتا اور بعد میں وہ انکار کر دے تو کیا ہوگا؟جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا کہ بہتر ہے اس معاملے کو اوپن رکھیں کسی اور کیس میں طے کر لیں گے۔