بلوچ علیحدگی پسند گروہ بی ایل اے کے حملوں میں شدت پاکستان کے لیے نیا سیکیورٹی چیلنج
پاکستان کے تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹیڈیز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، بلوچ علیحدگی پسند گروہ، خاص طور پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، پاکستان کے لیے ایک سنگین سیکیورٹی خطرہ بن چکے ہیں۔ اس گروہ کے حملوں میں حالیہ مہینوں میں تیزی آئی ہے، جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی ایل اے اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لاتے ہوئے زیادہ خطرناک ہو چکا ہے۔بی ایل اے کی حکمت عملی میں تبدیلی اور شدت کا اثر یہ ہے کہ یہ گروہ اب دہشت گرد حملوں میں خودکش دھماکوں سمیت جدید طریقے استعمال کر رہا ہے، جیسا کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ماضی میں کیا تھا۔ بی ایل اے کی جانب سے 61 حملے کیے گئے، جن میں 169 ہلاکتیں ہوئیں، جن میں سے 45 افراد صرف بی ایل اے کے حملوں میں مارے گئے۔ یہ تعداد ٹی ٹی پی کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں سے بھی زیادہ ہے، جو ایک اہم اشارہ ہے کہ بی ایل اے اپنے حملوں کو منظم اور زیادہ تباہ کن بنا رہا ہے۔ماہرین کے مطابق بی ایل اے کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور عوامی مسائل سے ہم آہنگ ہو کر اس گروہ نے بلوچستان میں حمایت حاصل کی ہے۔ وہ ایسے لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں جن کا تعلق حکومت سے تعاون کرنے والے افراد یا صوبہ پنجاب سے ہے، اور اسی وجہ سے گروہ میں نوجوانوں کی بھرتی بھی بڑھ گئی ہے۔بی ایل اے کی حکمت عملی میں تبدیلی کے بعد، بلوچستان کی حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے لیے اس نوعیت کی تنظیموں کے ساتھ نمٹنا مشکل ہو رہا ہے۔ یہ گروہ اب سافٹ اہداف یعنی کم سیکیورٹی والے علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے، جیسے کہ کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر حالیہ حملہ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بی ایل اے اب اپنے طریقوں میں مزید خطرناک ہو چکا ہے۔دوسری جانب، جان اچکزئی، بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات، نے اس بات کا ذکر کیا کہ ریاست نے بی ایل اے کی فوجی تنصیبات اور اہم عمارتوں پر حملوں کی صلاحیت کو محدود کیا ہے، جس کے بعد یہ گروہ اب سیکیورٹی کے کمزور مقامات کو نشانہ بنا رہا ہے۔مختصر یہ کہ بی ایل اے پاکستان کے لیے ایک اہم سیکیورٹی خطرہ بن چکا ہے، اور اس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے، جس کے لیے نئی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔