کسی بھی شخص کے سامنے اگر یہ سوال رکھا جائے کہ پاکستان میں حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ ، بھارت میں مہاتما گاندھی ، ایران میں آیت اللہ خمینی، چین میں ماؤزے تنگ ، امریکہ میں لوتھر کنگ، ترکیہ میں مصطفیٰ کمال پاشا، یوگو سلاویہ میں جوسپ ٹیٹو، برطانیہ میں ونسٹن چرچل ، روس میں جوزف سٹالن اور کیوبا میں فیڈل کاسترو اپنی اپنی قوم کے رہنما گردانے جاتے ہیں تو جنوبی افریقہ میں کون ہوگا ؟تو ذہن میں جھٹ سے ایک ہی نام امڈے گا ’’ نیلسن منڈیلا‘‘۔ کل یعنی پانچ دسمبر کو اسی عالمی رہنما کی9 ویں برسی ہے جسے جنوبی افریقہ میں قوم کے باپ کا مقام حاصل ہے۔
جنوبی افریقہ میں جمہوریت کا چراغ جلانے والے عالمی رہنما کی کل پانچ دسمبر کو 9 ویں برسی
اپنے ہی وطن میں نسل پرستی سے متاثرہ سیاہ فاموں کو ان کے بنیادی حقوق دلانے اور ملک کو جمہوری بنانے میں نیلسن منڈیلا نے اپنے لہو سے چراغ جلایا۔جوانی میں مسلسل 27 سال قید کاٹی۔ 1990 میں رہا ہوئے تو سیاہ فاموں کو استحصال سے بچانے کی جدوجہد وہیں سے پھر شروع کردی جس کا سلسلہ 1964 میں ان کی گرفتاری سے قطع ہوا تھا۔ ڈیموکریٹک جنوبی افریقہ کے پہلے صدر منتخب ہوئے ، امن کا نوبیل انعام حاصل کیا اور دنیا بھر میں نسل پرستی اور استحصال کے خلاف مضبوط آواز اور استعارہ بن گئے۔
نیلسن منڈیلا 18 جولائی 1918 کو جنوبی افریقہ کے گاؤں مویذو میں پیدا ہوئے۔والد نے اِن کا نام رولہلاہلا رکھا۔ منڈیلا کے والدین اَن پڑھ تھے مگر انہوں نے بچے کو سکول بھیجا اور وہ اپنے قبیلے کاسکول پہنچنے والا پہلابچہ قرار پایا۔ اس کی سفید فام استانی نے حسب روایت اس کا انگریزی نام نیلسن رکھ دیا۔ نیلسن نے تعلیم کا سلسلہ ٹوٹنے نہ دیا اور یونیورسٹی پہنچا۔ فورٹ ہیئر یونیورسٹی میں 19 سال کے نیلسن منڈیلا کی ملاقات اولیوتھمبونام کے نوجوان سے ہوئی اور یہ ملاقات عمر بھر کی رفاقت میں بدل گئی۔
چونکہ قدرت نے نیلسن منڈیلا کو صرف سیاست دان نہیں بلکہ ایک دانشور سیاستدان کے روپ میں ڈھالنا تھا اس لئے فطری طور پر تعلیم کے حصول کا شوق ان کی شخصیت میں پنپتا رہا حتیٰ کہ انہوں نے جیل میں رہتے ہوئے یونیورسٹی آف لندن سے پرائیویٹ طالب علم کے طور پر قانون کی تعلیم امتیازی نمبروں سے حاصل کی۔
نیلسن منڈیلا نے عملی سیاست کا آغاز 1948 ء میں اْس وقت کیا جب نسلی امتیاز کی حامی جماعت افریقن نیشنل پارٹی برسرِ اقتدار آئی۔نیلسن منڈیلاکا ایک اہم کارنامہ انقلابی نظریات کی ترویج ہے۔انہوں نے دھمکیوں سے نہ ڈرنے اور سامراجی طاقتوں کے سلسلے میں بیداری پیدا کرنے جیسے دو اہم اصولوں کی بنیاد پر جنوبی افریقہ میں ایک عظیم انقلاب کی داغ بیل ڈالی۔نیلسن منڈیلا کی نسلی امتیاز کے خلاف اس وسیع تر جدوجہد کے آغاز نے حکمرانوں کو ان کا سخت مخالف بنا دیا۔5 دسمبر 1956 کو انہیں ایک سو پچاس ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار کر کے اْن پر غداری کا مقدمہ بنا دیا گیااور 1961 میں انہیں شواہد ثابت نہ ہونے کی بناء پر رہا کر دیا گیا۔
1962 میں وہ الجیریا گئے جہاں انہوں نے گوریلا جنگ اور ہتھیارچلانے کی باقاعدہ تربیت حاصل کی۔اْن کی افریقہ واپسی کے تھوڑے عرصہ ہی بعد 5 اگست 1962 کو ٹریفک جام کے دوران انہیں گرفتار کر کے پانچ سال کے لیئے جیل بھیج دیا گیا۔اکتوبر 1963 ء میں نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھیوں پر تخریب کاری اور غداری کا مقدمہ چلایا گیا ۔12 جون 1964 کو نیلسن منڈیلا اور ان کے تمام ساتھیوں کو غداری کا مجرم قرار دے کر عمر قید کی سزا سنادی گئی۔1964 سے 1982 ء تک نیلسن منڈیلا نے کیپ ٹاؤن کے جزیرے روبن میں قید بامشقت برداشت کی۔قید کے دوران نیلسن منڈیلا کی شہرت میں بے پناہ اضافہ ہوااور وہ افریقہ میں اہم ترین سیاہ فام رہنما کے طور پہچانے جانے لگے ۔
فروری 1990 میں نیلسن منڈیلا کی رہائی کا اعلان کیا گیا۔رہائی کے فوراً بعد نیلسن منڈیلا نے افریقن نیشنل کانگریس کی قیادت سنبھالی اور پارٹی کو آئندہ چاربرس بعد ہونے والے عام انتخابات کے لیے تیا ر کرنا شروع کردیا۔ 27 اپریل 1994 کو جنوبی افریقہ میں انتخابات کا انعقاد کیا گیا۔ان انتخابات میں افریقن نیشنل کانگریس نے 62 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیئے اور نیلسن منڈیلا ملک کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوگئے۔ نیلسن منڈیلا نے صدر منتخب ہونے کے بعد گوروں سے سیاہ فام باشندوں یا اپنے اْوپر ہونے والے ظلم کا انتقام لینے کے بجائے ایسے فیصلے کیے جس نے دنیا بھر کو حیران کر دیا۔ بڑے پیمانے پر سماجی اور معاشی اصلاحات ہوئیں۔نیلسن منڈیلا کو دوسری مدت کے لئے صدر بننے کی خواہش نہیں تھی۔اس لئے نیلسن منڈیلا کی خواہش و اصرار پر اْن کی جگہ 1999 میں تھابو میبیکی کو صدر منتخب کر لیا گیا
نیلسن منڈیلا کو ان کی خدمات پر 250 سے زائد اعزازات سے نوازا گیا جن میں سب سے قابل ذکر 1993 کا نوبیل پرائز برائے امن ہے۔دنیا کے اس عظیم رہنما کا 95 سال کی عمر میں 5 دسمبر 2013 ء کو انتقال ہوا۔آج نیلسن منڈیلا دنیا میں نہیں ہیں لیکن اْن کی عظیم و دلفریب داستانِ حیات یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر اقتدار کو عوام کی بہتری اور اس کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کیا جائے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو زوال آشنا نہیں کر سکتی۔