نیب قانون میں نہیں لکھا آرمی افسران کا احتساب آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، عدالت
سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ آرمی افسران کا احتساب آرمی ایکٹ کے تحت ہوگا، آرمی ایکٹ نیب کے دائرہ کار کو محدود نہیں کر سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور وزیراعلی کو قومی فیصلوں پر احتساب سے استثنیٰ حاصل ہے، سوال یہ ہے کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کو حاصل استثنیٰ افواج کو کیسے دیا جاسکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر آرمی افسر کرپشن کر رہا ہے تو 40 سال انتظار کریں کہ ریٹائر ہو تو احتساب کیا جائے گا؟
نیب ترامیم اُس اسمبلی نے کیں جو مکمل ہی نہیں، چیف جسٹس
قومی اسمبلی سے پی ٹی آئی کے استعفوں سے متعلق سوال پوچھتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے لوگ قومی اسمبلی کے رکن ہیں یا نہیں؟
عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ تحریک انصاف کے تمام ارکان اسمبلی سے استعفے دے چکے ہیں، سیاسی حکمت عملی کے تحت اسپیکر استعفے منظور نہیں کر رہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کسی حلقے کو غیر نمائندہ اور اسمبلی کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا، اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی ارکان کو اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی کا کوئی رکن اسمبلی نہیں جا رہا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یعنی پی ٹی آئی کا آئیڈیا یہ ہے کہ بائیکاٹ بھی کرنا ہے اور نشستیں پُر بھی نہیں ہونے دینی، اسپیکر ایک ساتھ تمام استعفے کیوں منظور نہیں کرتے؟ جس رکن کو مسئلہ ہوگا اسپیکر کے فیصلے پر اعتراض کردے گا۔
جسٹس منصور نے کہا کہ پی ٹی آئی والے تنخواہ بھی لے رہے ہیں اور اسمبلی بھی نہیں جاتے، روایت کے مطابق اسپیکر کے سامنے استعفے دینے کا بیان دینا ہوتا ہے، اسپیکر زبانی باتوں پر استعفے منظور نہیں کرتا، پی ٹی آئی کے مطابق تو وہ پارلیمانی جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، یہ کیسا یقین ہے؟ اگر اسپیکر کو 4 دن میں استعفے منظور کرنے کا حکم دیں تو کیا پی ٹی آئی کا مسئلہ حل ہو جائے گا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی معاملے پر عدالت کو تبصرہ نہیں کرنا چاہیے تھا، اسمبلی جانا یا نہ جانا پی ٹی آئی کا سیاسی فیصلہ ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اسمبلی اسی صورت چھوڑی جا سکتی ہے جب رکن جسمانی طور پر جانے کے قابل نہ رہے، ارکان اسمبلی کو اپنی آواز ایوان میں اٹھانی چاہیے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا سینیٹ میں نیب ترامیم پر بحث ہوئی تھی؟ جس کے جواب میں عمران خان کے وکیل نے کہا کہ سینیٹ سے بھی ترامیم بغیر بحث منظور کروائی گئیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ایوان میں قانون پر بحث ہی نہ ہو تو استعفے کے علاوہ کیا حل ہے؟
آئندہ سماعت پر وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان دلائل کا آغاز کریں گے۔