ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں سیاسی انتشار، افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات ان چند عوامل میں سے ہیں جو سکیورٹی صورت حال کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں میں پاکستان میں نہ صرف شدت پسند تنظیم پاکستان تحریک طالبان کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے بلکہ بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے بھی اپنے حملوں میں سکیورٹی فورسز کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ جس کے باعث ملک کی سکیورٹی صورت حال پر سوال اٹھ رہے ہیں اور کئی حلقوں میں یہ بحث ہورہی ہے کہ دہشت گردی میں اس حالیہ اضافے کی کیا وجوہات ہیں۔
اسلام آباد کی انتظامیہ نے حال ہی میں ایک خود کش حملے کو ناکام بنایا تھا جس میں ایک پولیس کا سپاہی ہلاک ہوا تھا۔ اس حملے کے بعد اسلام آباد کے کئی علاقوں میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔ امریکہ، سعودی عرب اور آسٹریلیا نے ملکی دارلحکومت میں موجود اپنے شہریوں کو نقل و حرکت میں انتہائی احتیاط برتنے کا کہا ہے۔ سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دارالحکومت میں سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں اور درجنوں چیک پوسٹیں قائم کردی گئی ہیں۔
بڑھتی دہشت گردی، عوامل کیا ہیں؟
ناقدین کا خیال ہے کہ ملک میں سیاسی انتشار، افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی اور ٹی ٹی پی سے مذاکرات ان چند عوامل میں سے ہیں جو سکیورٹی صورت حال کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ معروف دفاعی مبصر جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا ہے کہ سابق افغان حکومت کے عناصر اب ٹی ٹی پی کو سپورٹ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اس تنظیم کے حملوں میں شدت آئی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سابقہ افغان حکومت کے کئی عناصر نے ازبکستان اور دوسرے وسطی ایشیائی ممالک میں پناہ لی ہوئی ہے۔ ان عناصرکو بھارت کی بھی معاونت حاصل ہے اور وہ ٹی ٹی پی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان حملوں میں شدت آئی ہے۔‘‘
جنرل امجد شیعب کے مطابق ملک میں سیاسی انتشار اور بے یقینی کے سبب بھی دہشت گرد عناصر کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ ان کے خیال میں حکومت کی توجہ کہیں اور لگی ہوئی ہے اور ایسے میں ملک کی سکیورٹی کو نقصان ہو رہا ہے۔
ان کا دعوی ہے کہ اس معاملے میں اندرونی عوامل کے علاوہ کچھ بیرونی عناصر بھی کار فرما ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’امریکہ اس خطے سے نکل گیا ہے لیکن اب کیونکہ چین افغانستان کے مختلف علاقوں میں کچھ پراجیکٹس شروع کرنا چاہتا ہے اور وہاں کے قدرتی ذخائر سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اسی لیے امریکہ بھی اس خطے میں دوبارہ اپنی موجودگی چاہتا ہے اور وہ دہشتگردی کا بہانہ بنا کر ہمیں مدد کی پیشکش کر رہا ہے۔‘‘
اسی لیے خیال یہ کیا جارہا ہے کہ دہشتگردی کو جان بوجھ کے بڑھایا جا رہا ہے تاکہ اس سے خطے میں امریکی موجودگی کا راستہ ہموار کیا جا سکے۔ تاہم افغان اور طالبان امور کے کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال کی ذمہ دار پاکستان کی اپنی ریاست اور حکومتیں ہیں جنہوں نے طالبان کی حالیہ سرگرمیوں کو مبینہ طور پر نظر انداز کیے رکھا۔
پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق سربراہ ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ ریاست کی کمزوری کی وجہ سے دہشت گرد عناصر دوبارہ متحد ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں کئی ایسے عناصر ہیں جو ٹی ٹی پی کو گمراہ سمجھتے ہیں اور ان سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔ ایسے ہی عناصر نے ان سے مذاکرات کی کوشش کی اور ان مذاکرات کی وجہ سے انھیں وقت مل گیا کہ وہ دوبارہ متحد ہو سکیں۔‘‘
ڈاکٹر سرفراز خان کے مطابق افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے سے بھی ٹی ٹی پی کے حوصلے بڑھے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک کچھ عناصر یہ سوچ رہے ہیں کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کوئی دو الگ مخلوق ہیں۔ درحقیقت ان دونوں کا نظریہ اور القاعدہ کا نظریہ ایک ہی ہے۔ افغان طالبان پاکستانی طالبان کی بھرپور مدد کر رہے ہیں جس کا وہ فائدہ اٹھا کر اپنی کارروائیوں میں تیزی لا رہے ہیں۔‘‘
مستقبل کا منظر نامہ
ان حملوں کی شدت کی وجہ سے کئی حلقوں میں خیال ہے کہ پاکستان میں سکیورٹی کی صورت حال مذید ابتر ہو سکتی ہے۔ جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اگر حکومت فوری طور پر کوئی آپریشن کرے تو اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’پاکستان نے پہلے بھی طاقت کے ذریعے ان کو ختم کیا تھا اور اب بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ ان کے خلاف فوری ایکشن لیا جائے تاکہ یہ سر نہ اٹھا سکیں۔‘‘