رپورٹس

بھوپال کا بڑھئی شطرنج کا کھلاڑی کیسے بنا؟

شطرنج جیسے کھیل کی ایجاد جس ملک میں ہوئی تھی وہ بالآخر پہلی بار شطرنج کا بادشاہ بنا ہے کیونکہ پہلی بار اس کی مرد اور خواتین کی ٹیموں نے طلائی تمغہ حاصل کیا ہے۔
انڈیا نے گذشتہ دنوں ہنگری کے دارالحکومت بوداپست میں جاری 45 ویں اولمپیاڈ میں یہ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ یہ مقابلہ عالمی سطح پر ہر دو سال بعد ہوتا ہے۔ اس سے قبل جب انڈیا کے شہر چنئی میں اس کا مقابلہ ہوا تھا تو اسے کانسی کا تمغہ ملا تھا۔ اور اس سے قبل ایک بار اسے کانسی کے تمغے پر اکتفا کرنا پڑا تھا۔یہاں ہمارا مقصد چیس اولمپیاڈ کی روداد سنانا نہیں ہے بلکہ ایک ایسے شخص کے بارے میں بات کرنا ہے جس نے پہلی بار انڈیا کو عالمی سطح پر پہچان دلائی۔
آپ اگر گوگل پر انڈیا کے شطرنج چیمپیئنز کے بارے میں سرچ کریں گے تو آپ کو وشوناتھن آنند کا نام نظر آئے گا، کیونکہ وہ انڈیا کے پہلے کھلاڑی ہیں جنہوں نے ’گرینڈ ماسٹر‘ بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
لیکن اس سے پہلے بھی ایک شخص گزرا ہے جس نے انڈیا کے لیے پہلا اولمپیاڈ تمغہ حاصل کیا تھا۔ ان کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے لیکن ان کے کھیل کو جاننے والوں کا کہنا ہے کہ اگر انہیں سہولیات دستیاب ہوتیں تو وہ انڈیا کے پہلے گرینڈ ماسٹر ہوتے۔
دی انڈین ایکسپریس کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جب آنند کی عمر صرف 11 سال ہو گی اس وقت مالٹا میں جاری اولمپیاڈ مقابلے میں محمد رفیق خان نے تیسرے بورڈ پر انڈیا کے لیے پہلا تمغہ حاصل کیا تھا جو کہ چاندی کا تمغہ تھا۔
اگرچہ شطرنج کا اولمپیاڈ سب سے پہلے سنہ 1927 میں شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی یہ دنیا کا سب سے گرانقدر مقابلہ مانا جانے لگا۔ انڈیا نے آزادی کے حصول کے بعد پہلی بار سنہ 1956 میں اپنی ٹیم چیس اولمپیاڈ میں بھیجی تو اس کے 10 کے 10 کھلاڑی انتہائی تربیت یافتہ تھے اور مراعت یافتہ گھرانوں سے آئے تھے۔ ان کے پاس جدید شطرنج کی تمام سہولیات موجود تھیں۔
ایسے میں محمد رفیق کا کارنامہ بہت بڑا تھا۔ اگرچہ وہ کبھی بھی گرینڈ ماسٹر نہیں بن سکے لیکن انہوں نے شطرنج کی دنیا میں جو عزت و احترام حاصل کیا وہ اس وقت کسی دوسرے کے حصے میں نہیں آیا۔محمد رفیق خان کون تھے؟
محمد رفیق ہندوستان کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں آزادی سے ایک برس قبل 12 جولائی 1946 کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد پیشے سے ایک بڑھئی تھے۔
محمد رفیق نے ابتدا سے ہی اپنے والد کا کاموں میں ہاتھ بٹانا شروع کیا اور وہ بھی ایک بڑھئی بن گئے لیکن اس طرح وہ تعلیم سے دور رہ گئے۔
بھوپال کے چائے خانوں پر لوگوں کو شطرنج کی بساط بچھاتے اور بازیاں کھیلتے دیکھ کر بڑے ہونے والے رفیق میں بھی اس کھیل کا شوق پیدا ہو گیا۔
ان کے سابق دوست نے اخبار ’دی نیو انڈین ایکسپریس‘ کو بتایا کہ ’رفیق نے کبھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس کے بجائے وہ اپنے بڑھئی باپ کی مدد کرتے تھے۔ کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ قریبی چائے کی دکانوں پر جاتے جہاں شطرنج کے شوقین بساط بچھائے بیٹھے ہوتے اور وہ ان کے ساتھ کھیل میں شامل ہو جاتے تھے۔ یہیں سے ان کی شطرنج میں دلچسپی پیدا ہوئی۔‘
لیکن محمد رفیق جو شطرنج جانتے تھے وہ انڈین طرز کی شطرنج تھی جس میں پیادے صرف ایک خانہ آگے بڑھ سکتے تھے جبکہ بین الاقوامی کھیل میں پیادے پہلی بار میں دو خانے بھی بڑھ سکتے تھے۔
تاہم محمد رفیق کے کھیل پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑا اور ان کا جیت کا سلسلہ جاری رہا۔ محمد رفیق خان نے پہلی بار جب ریاستی چیمپیئن شپ میں حصہ لیا تو اس میں وہ کامیاب رہے۔اس وقت انڈیا میں شطرنج کے دو سطح پر مقابلے ہوتے تھے۔ نیشنل اے اور نیشنل بی۔ نیشنل بی میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑی کو نیشنل اے میں موقع دیا جاتا تھا۔ اور نیشنل اے کھیلنا کسی بھی کھلاڑی کے لیے قابل قدر اور باعث افتخار تھا۔
چونکہ وہ پیشے سے بڑھئی تھے اس لیے انہوں نے اپنے لیے شطرنج کے بورڈ اور مہرے خود بنائے تھے جس پر اکثر و بیشتر ان کی نگاہیں ہوتی تھیں۔
شطرنج میں رفیق کا سفر اس وقت شروع ہوا جب انہوں نے اپریل 1975 میں مدھیہ پردیش شطرنج چیمپیئن شپ میں حصہ لیا۔ انہوں نے سید نواب علی جیسے معروف نیشنل اے سطح کے کھلاڑیوں کو شکست دے کر ٹورنامنٹ جیتا۔ اس وقت تک سید نواب علی ورنا میں ہونے والے اولمپیاڈ میں انڈیا کی نمائندگی کر چکے تھے۔
اس جیت کے بعد رفیق نے بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں منعقدہ 13 ویں نیشنل بی ٹورنامنٹ میں شرکت کی اور راجہ روی شیکھر کے بالکل پیچھے نیشنل اے سرکٹ میں اپنی جگہ بناتے ہوئے ٹورنامنٹ میں دوسرا مقام حاصل کیا۔
ان کی کامیابی کا بڑا لمحہ جون 1976 میں کلکتہ میں 14 ویں نیشنل بی مقابلے میں آیا جہاں انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسلسل نو فتوحات سمیت مجموعی طور پر 11 فتوحات حاصل کیں۔ سنہ 1976 میں نیشنل بی میں ان کا مظاہرہ آج تک بے مثال ہے۔
شطرنج میں کامیابی کے بعد انہیں ملازمتوں کی پیشکش ہونے لگی اور انہوں نے بالآخر بھیل (بھارت ہیوی الیکٹرک لمیٹڈ) میں نوکری قبول کر لی۔دو سال بعد 1978 میں وہ کوچین میں ہونے والے اے مقابلوں میں کامیاب ہو کر نیشنل چیمپیئن بنے۔
مدھیہ پردیش کے پہلے انٹرنیشنل ماسٹر اکشت کھمپریا نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ شطرنج کی کوئی کتاب نہیں پڑھ سکتے تھے کیونکہ اس وقت کی کتابیں خصوصی طور پر انگریزی یا روسی زبان میں ہوتی تھیں۔ اس کے باوجود وہ قدرتی طور پر مضبوط کھلاڑی تھے۔ ان کا کھیل بہت پریکٹیکل تھا۔ شطرنج کی کتابوں سے دوری کا مطلب یہ تھا کہ ان کے پاس اصولی اور نظریاتی علم بہت کم تھا۔‘
ان کے مطابق محمد رفیق کا کھیل اتنا اچھا تھا کہ اگر انہیں سپورٹ ملی ہوتی اور ان کی اچھی طرح تربیت ہوتی تو وہ انڈیا کے پہلے گرینڈ ماسٹر ہوتے۔
بہرحال سنہ 1980 میں جب مالٹا میں اولمپیاڈ ہوا تو وہ انڈین ٹیم کا حصہ تھے اور انہوں نے تیسرے بورڈ میں 13 میں سے 10 مقابلے جیتے اور چاندی کے تمغے کے حقدار بنے جو کہ اںڈیا میں کسی کا اولمپیاڈ میں پہلا میڈل تھا۔
وہ انڈیا کے گرانقدر مقابلے پیلو مودی چیمپیئن شپ کے 1984، 1986 اور 1992 میں تین سال فاتح رہے۔ کامیابی کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی انہوں نے بہت عاجزی کی زندگی گزاری اور تقریباً گمنام ہی رہے۔ یہاں تک کہ سنہ 2019 میں جولائی کے مہینے میں ان کی وفات ہو گئی۔محمد رفیق خان نے بیلجیئم کے ماہر شطرنج آلبریک او کیلی کو انہی کے کھیل میں شکست دی اور ان کے نام سے موسوم چال میں ہی انہیں پھنسا دیا۔ آج جب انڈیا نے پہلی بار طلائی تمغہ حاصل کیا ہے تو انڈین میڈیا میں محمد رفیق خان کو یاد کیا جا رہا ہے اور یہ ان کو ایک خراج تحسین ہے۔
بہ شکریہ اردو نیوز

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com