پاکستانی میڈیا کیوں بحران کا شکار ہے؟
پاکستان میں میڈیا اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے لیکن دو دہائی قبل جنم لینے والے چینلز ابھی بھی گھٹنوں گھٹنوں چلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ان میں اب بھی پختگی کی کمی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجوہات اوراسباب کیا ہیں؟
پاکستان میں نجی ملکیتی الیکٹرانک میڈیا کی داغ بیل مشرف دور میں ڈالی گئی اور اسی دورمیں یہ تیزی سے نشو ونما پاتی چلی گئی۔اینکرزاورمیڈیا ہاؤسزکے لیے کنگ میکرکا امیج
میڈیا کے ابتدائی دورسے ہی کچھ اينکرز کو فوجی اسٹبلشمنٹ نے گود لے ليا، باقی جو بچے انہيں مسلم ليگ ن، پيپلز پارٹی، اور تحريک انصاف نے اپنے اپنے مفاد ميں جمہوريت کے نام پر خوب استعمال کيا، يوں ٹی وی اينکرز کو يہ گمان ہوگيا کہ وہ حکومتيں گرانے اور بنانے ميں اہم کر دار ادا کر سکتے ہيں۔ اس سوچ کی بنيادی وجہ يہ تھی کہ ان اينکرز ميں صحافی کم اورحادثاتی طور پر الکٹرانک ميڈيا سے وابستہ ہونے والوں ميں، ڈاکٹرز، انجينيئر، نرسز،مڈوائف، گيسٹ ريليشن آفيسرز، ايئرہوسٹس ، بيو ٹيشن ، سابق سفارتکار، سب اينکر پرسن بن کر ميڈيا انڈسٹری میں کود پڑے، ٹی وی ديکھنے والے اس سب کے باوجود خاصے سمجھدار ہيں انہيں تمام بشری خاميوں کے ساتھ پرنٹ ميڈيا سے آنے والے صحافيوں اور پيرا شوٹرز(چھاتہ بردار) صحافيوں کا فرق معلوم ہے۔ حق گوئی اوربے باکی کی توقع مناسب نہیں،،
صحافتی معیارمیں گراوٹ اسباب اورمحرکات
سینیئرصحافی اورتجزیہ کارمظہرعباس کا کہنا ہے کہ ماضی کی نسبت اب صحافیوں اورصحافت کو قدرکی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا،پھرصحافیوں کا معیاربھی وقت کے ساتھ گراوٹ کا شکارہے۔ اخبارات میں ایڈیٹرکا ادارہ ختم ہوگیا ہے مالکان خود ایڈیٹربنے ہوئے ہیں یا کمزورشخصیت کو ایڈیٹربناکرکام چلارہے ہیں۔ ساٹھ یا ستر کے عشرے میں صحافت کا جو معیارتھا وہ آج نظرنہیں آتا۔ میڈیا میں کرپشن بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے اس کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہےاورلوگ اس پر اعتبارکرنے کو تیارنہیں۔ مظہر عباس نے کہا کہ ٹیلی ویژن چینلز کی مشروم گروتھ کی وجہ سے کئی ایسے لوگ صحافت کے شعبے میں آگئے، جن کا پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا کا پس منظرنہیں تھا ۔ صرف اپنے مقاصد،طاقت کے حصول اوراعلیٰ سیاسی حلقوں میں اثرورسوخ قائم کرنے کے لے میڈیا ہاؤسزقائم کئے ،نتیجہ سب کے سامنے ہے۔
میڈیا کا گلیمراوررنگینیاں
کراچی میں قائم ایک معروف درسگاہ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریش (آئی بی اے) کے زیر اہتمام سینٹرآف ایکسیلینس ان جرنلزم کی ڈائریکٹرعنبرشمسی کہتی ہیں کہ ٹیلی ویژن جرنلزم میں گلیمر عوامی سطح پرپذیرائی کی وجہ سے بھی کچھ خرابیاں پیداہورہی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’عام آدمی ٹیلی ویژن اینکرزکوصحافی مانتا ہے، اس سے متاثرہوتا ہے ،آپ کسی نوجوان سے پوچھیں وہ کیا بننا چاہتاہے؟ اسکا جواب ہوگا کہ اینکر، وہ ایڈیٹر،رپورٹریا پروڈیوسربننے میں دلچسپی نہیں رکھتاوجہ اس شعبے میں گلیمرہے۔‘‘
عنبر کے بقول اب تو سوشل میڈیا پربہت سے لوگ صحافی کے روپ میں جلوہ گرہورہے ہیں جس کی وجہ سے بھی میڈیا کی ساکھ خراب ہوئی ہے اورکرپشن کا پہلوبھی نمایاں ہورہا ہے پھراسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کے لئے ٹیلی ویژن چینل پراپنے پسندیدہ لوگوں کے ذریعے رائے عامہ ہموارکرنے کے لیے اپنے خرچ پرپروگرام کراتے ہیں۔
صحافت میں کرپشن کے تانے بانے
کرپشن کے حوالے سے زیادہ باریک بینی سے بات کریں تو کوئی بھی مبرا نہیں ۔ آب پیٹ پر پتھر باندھ کر اخبار چینل یا سوشل میڈیا سیٹ اپ رواں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ سیاسی قائدین اور اداروں کے سربراہان کو ادراک کرنا چاہیے کہ سیاست اور صحافت میں normalcy سے سب کا بھلا ہے۔
معروف اینکرپرسن عاصمہ شیرازی کے خیال میں الیکٹرانک میڈیا کے آنے کے بعد میڈیا میں کرپشن میں اضافہ نہیں ہوابلکہ پرنٹ کے زمانے سے یہ سلسلہ جاری ہے ،ڈوئچے ویلے سے گفتگوکرتے ہوئے عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک میڈیا کے آنے پرپرنٹ میڈیا میں کام کرنے والوں بہترمواقع میسرآئے،صحافی معاشی طور پرمستحکم ہوئے کیونکہ پرنٹ میڈیا کی نسبت الیکٹرانک میڈیا میں معاوضہ بہترتھے۔ لہٰذا ان کے خیال میں میڈیا میں کرپشن میں کمی واقع ہوئی،انکاکہنا ہے کہ میڈی اکے کچھ لوگوں پرالزام ہے کہ وہ مبینہ طورپرمالی کرپشن میں ملوث ہیں مگر یہ محض الزام ہے، ثبوت نہیں ہیں۔اسٹیبلشمنٹ کی میڈیا میں مداخلت پرعاصمہ شیرازی نے کہا کہ مداخلت ضرورہے کیونکہ یہ عناصربعض غیرصحافی شخصیات کو ٹیلی ویژن اسکرین پربٹھاکرمالی فوائد پہنچاکرمیڈیا کی طاقت کا بے جااستعمال کرتے ہیں،جس کی وجہ سے جہاں میڈیا کامعیارکم ہواوہیں عام آدمی میڈیا پراعتماد نہیں کرتااوریہ ایک بڑانقصان ہے۔
میڈیا میں بڑھتی ہوئی مداخلت
تجزیہ نگاراوراینکرپرسن منیزہ جہانگیرنے ڈوئچے ویلے سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی میڈیا اداروں میں مداخلت بڑھتی جارہی ہے ۔ اب یہ عناصر صحافتی تنظیموں میں بھی اپنا اثرونفوذاستعمال کررہے ہیں، جوصحافیوں میں خرابی اورکرپشن کوفروغ دے رہا ہے۔منیزہ جہانگیر کا کہنا تھاکہ آپ صرف ورکنگ جرنلسٹ (عامل صحافیوں) میں کرپشن کو نہ دیکھییں،چینل کے مالکان کی کرپشن پرکوئی بات نہیں کرنا، زیادہ ترمالکان بلیک منی کو وائٹ کرنے کیلئے نیوزچینل خریدرہے ہیں ۔ان مالکان میں پراپرٹی ڈیلرززیادہ ہیں۔ ٹاک شوزکے اینکرزکے سیاست میں بڑھتے ہوئے اثرونفوذ پرپوچھے گئے سوال پرانکا کہنا تھاکہ چینل مالکان اورفوج کو خوش کرنے والے اینکرزکا گٹھ جوڑہے،وہی صحافی اور اینکرز نمایاں مقام پاتے ہیں جو اس نیٹ ورک میں کام کرتے ہیں۔
شکریہ ڈی ڈبلیو نیوز