پاکستان

شیخ ایاز؛ وادیٔ مہران کی گونج دار مزاحمتی آواز

سحر حسن

جدید سندھی شاعری کا معتبر حوالہ، سندھ دھرتی کی بھرپور مزاحمتی آواز معروف انقلابی شاعر، شیخ ایاز… جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے کچلے ہوئے طبقات کی ترجمانی کی اور اپنے لفظوں کے گونج دار کمالِ فن سے ایک جہان کو تسخیر کرگئے۔ شیخ ایاز کو اپنے چاہنے والوں سے بچھڑے 25 برس بیت گئے۔ مگر ان کا منفرد کلام جب بھی قارئین تک پہنچتا ہے دل و دماغ پر بھرپور طریقے سے دستک دیتا ہے اور بہت کچھ سوچنے اور کھوجنے پر مجبور کردیتا ہے۔

ان کی مقبول سندھی شاعری سے انتخاب:

ھن سر جے گدلے سینور میں ۔ ھی نیل کنول بہ تہ ڈوھی آ
ائین کو بہ چکور اندھیرے میں جے اڈڑے تھو تہ دروھی آ
ماں ڈوھی آں، ماں ڈوھی آں
ماں کیئی ڈوھ کئیا آھن

شیخ ایاز کا اصل نام شیخ مبارک علی تھا۔ آپ نے 2 مارچ 1923 کو سندھ کے تاریخی شہر شکارپور میں جنم لیا۔ آپ کے والد کا نام شیخ غلام حسین جبکہ دادا شیخ عبدالحکیم شیخ کہلاتے تھے، جن کا شمار شکارپور کے معززین میں ہوتا تھا۔

شیخ ایاز نے 1950 میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت کے پیشے کو اپنایا۔ سکھر سے فوج داری مقدمات میں مہارت حاصل کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک بڑے وکیل بن گئے۔ 1976 تک وکالت کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر 13 جنوری 1976 میں اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا۔ شیخ ایاز نے سندھ یونیورسٹی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی کی ترقی کےلیے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔

جدید سندھی شاعری کے افق پر شیخ ایاز ایک ایسا روشن استعارہ ہیں، جن کے بنا سندھی شاعری کا وجود بے نور سا لگتا ہے۔ ایاز اپنے لفظوں کی بنت کاری سے ایسا جادو جگاتے ہیں کہ پڑھنے والے ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں۔ شیخ ایاز کی شاعری کے بنا سندھی شاعری ایسے ہی ہے جیسے میر تقی میر اور غالب کے بغیر اردو شاعری۔

شیخ ایاز دنیائے ادب کا گہرا مطالعہ رکھنے والے، ادب شناس شاعر اور تخلیقی نثر نگار تھے۔ شیخ ایاز کو اپنی زندگی ہی میں بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ ان کا یہ طرّہ تھا کہ انہوں نے آمریت کے طویل دور میں تشبیہات و استعارات کا سہارا لینے کے بجائے بلا خوف و خطر ’’بھگت سنگھ تختہ دار‘‘ جیسا منظوم ڈرامہ لکھا۔

شیخ ایاز نفاست، خلوص، ہمدردی، سچائی اور دکھ کی گہرائی سے خوب شناسا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں کا شمار بھی اپنے دور کے بہترین ادبی فن پاروں میں ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں شرابی، ہنس مکھ، چار ایکڑ زمین اور مشیرنامہ سرفہرست ہیں۔ شیخ ایاز کی شاعری فنکارانہ مہارت اور قومی دردمندی کی علامت بن کر ابھری۔ ان کا کلام جہاں اپنی دھرتی اور عالمی ادبی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے وہیں پچھڑے ہوئے طبقات کےلیے ایک آفاقی پیغام بھی ہے۔

جنھن وقت بہ تھیو جنھن تے بہ تھیو، جنڑ موں تے ظلم تھیو آھے
جنھن وقت بہ کنھن جو طوق ٹٹو
موں ایئن سمجھیو جنڑ منھنجی گردن ہلکی تھی

انہوں نے سندھی شاعری میں جو تجربات کیے وہ بے حد کامیاب رہے۔ اس کی اہم ترین وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے خود کو ہمیشہ شاعر کے روپ میں ہی دیکھنا چاہا۔ ان کی شاعری میں اپنی دھرتی سے پیار اور تمام عالم کےلیے امن کا پیغام چھپا ہوا ہے۔ ان کے کلام میں ظلم و جبر کے خلاف بلا کی مزاحمت پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری کا صوفیانہ رنگ اور آفاقی پیغام عوام کے دلوں کی صدائیں ہی نہیں بلکہ سندھ دھرتی میں گونجنے والے نعرے بن گئے۔

ایاز کے دیگر تخلیقی کمالات میں سے ایک کمال عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ کسی شاعر کے کلام کو منظوم ترجمہ کرنا اس قدر آسان نہیں ہوتا مگر ایاز اپنی شاعرانہ بصیرت کے باعث اس کام کو احسن طریقے سے نبھا گئے۔

سُر مارئی کے کچھ بیت:

دن وطن سے الگ جو گزرے ہیں
ان پہ تہمت دھریں گے تھر والے
جیسی آئی تھی ویسی جاؤں گی
ورنہ نفرت کریں گے تھر والے
کس سے پوچھوں یہاں ہے کون اپنا
جانے ان بے کسوں پہ کیا گزری
کل وہاں بجلیوں کی یورش تھی
رات بھر ماروؤں پہ کیا گزری

شیخ ایاز کا سندھی زبان میں ایک اور قابلِ ذکر کام ان کے منظوم ڈرامے بھی ہیں، جن میں ’’بھگت سنگھ کی پھانسی‘‘، ’’شہید دودو سومرو‘‘ اور ’’رنی کوٹ جا دھاڑیل‘‘ شامل ہیں۔

شاعری سے ان کا رشتہ بچپن سے ہی استوار ہوچکا تھا۔ انہوں نے شاعری کی ابتدا اردو میں شعر کہنے سے کی۔ ان کے اردو شعری مجموعوں میں ’’حلقہ میری زنجیر کا‘‘، ’’نیل کنٹھ اور نیم کے پتے‘‘ اور ’’بوئے گل نالۂ دل‘‘ شامل ہیں۔ چوں کہ سندھی ان کی مادری زبان تھی لہٰذا ان کےلیے سندھی میں شعر کہنا قدرے آسان تھا، مگر ان کی اردو شاعری پڑھنے پر بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ سندھی ان کی مادری زبان ہے۔

ان کی اردو میں لکھی گئی نظم ’میرے دیدہ ورو میرے دانشورو‘ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اردو میں کس انداز سے معرکہ آرائی کی ہے:

میرے دیدہ ورو
میرے دانشورو
پاؤں زخمی سہی
ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن
کے ٹکراؤ سے
اپنی زنجیر کو
جگمگاتے چلو
رودکش نیک و بد
کتنے کوتاہ قد
سر میں بادل لیے
ﮨﯿں ﺗﮩﯿﮧ کیے
بارش زہر کا
اک نئے قہر کا
میرے دیدہ ورو
میرے دانشورو
اپنی تحریر سے
اپنی تقدیر سے
نقش کرتے چلو
تھام لو ایک دم
یہ عصائے قلم
ایک فرعون کیا
لاکھ فرعون ہوں
ڈوب ہی جائیں گے

شیخ ایاز نے اس بات کا اعتراف خود بھی کیا ہے کہ ’’میں نے محسوس کیا ہے کہ ہر لفظ کی ایک روح ہوتی ہے جو برسوں کے ارتقا سے گزرتی ہے۔ اور یہ روح فقط مادری زبان کے ذریعے ہی گرفت میں آسکتی ہے۔ اس لیے میں نے اردو شاعری ترک کی۔ کیوں کہ اردو میری مادری زبان نہیں تھی۔ میں اپنے فن کو مادری زبان میں ہی منطقی انجام تک پہنچا سکتا تھا۔‘‘

سندھی میں نظم کی روایت کو اپنانے والے شاعر کشن چند بیوس نے مغربی صنف کو سندھی زبان کے سانچے میں ڈھالا تو وہ سندھی ادب اور ادبی روایت کا حصہ بن گئی۔ اسی تسلسل کو شیخ ایاز نے قائم رکھا۔ اس سے قبل جو سندھی شاعری تخلیق ہورہی تھی وہ فارسی کے زیر اثر تھی۔ الفاظ سے لے کر فنی ترکیبات بھی فارسی زدہ تھیں، مگر ایاز نے ماضی کی تمام شاعری پر ضرب لگا کر اسے سندھی روپ دیا اور یہ ثابت کر دکھایا کہ سندھی زبان میں شاعری کی جائے تو وہ کسی بھی لحاظ سے عالمی ادبی معیار سے کم نہیں ہے۔ پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ ان کے لکھے ہوئے گیت زبان زد عام ہونے لگے۔

ون یونٹ کا زمانہ سندھ پر قہر بن کر ٹوٹا، اسی زمانے میں سندھ کے کئی شعراء محمد خان مجیدی، نیاز ہمایونی، ابراہیم منشی، تنویر عباسی، سرویچ سجاولی اور شیخ ایاز سمیت کئی ایسے نام ہیں جنہوں نے اپنے کلام سے ون یونٹ کی دیوار میں دراڑیں ڈالنا شروع کیں۔ اس زمانے میں شیخ ایاز کے اشعار ہتھیار کا کام کرتے رہے۔

60 اور 70 کی دہائیوں میں سندھی شاعری محبوب کی زلف و ابرو کی جنبش کے حصار سے باہر آئی اور اس میں ترقی پسندی کا عنصر شامل ہونے لگا۔ یہ مزاحمت اتنی شدید تھی کہ اب سندھی میں مزاحمتی شاعری کا ایک الگ حصہ ہے۔ اسی زمانے میں افسانے بھی مزاحمتی طرز پر لکھے جانے لگے۔ اس حوالے سے شیخ ایاز نے خود کہا تھا کہ سندھ میں جو ترقی پسند ادب اس وقت لکھا جارہا ہے وہ برصغیر کے تمام ادب سے جان دار ہے۔

جب کسی شاعر کا کلام عوام کے دلوں کی آواز بن جائے تو وہ شاعری سماج کو بیدار کرنے والا ہتھیار بن جاتی ہے۔ شیخ ایاز یقیناً اپنے گیتوں اور نظموں سے ذہنوں کی آبیاری کررہے تھے، چنانچہ یہ لازمی ہوگیا تھا کہ وہ پابند سلاسل کیے جائیں۔ قید کے ایام میں انہوں نے ’’ساہیوال جیل کی ڈائری‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب تحریر کی، جس میں ایک جگہ انہوں نے لکھا:

’’روز جمعدار مجھے ایک بلیڈ داڑھی بنانے کےلیے صبح کو دے جاتا ہے اور پھر بار بار پوچھنے آتا ہے کہ میں نے داڑھی بنائی ہے یا نہیں۔ آخرکار اس سے تنگ آکر داڑھی بنا لیتا ہوں اور بلیڈ اسے واپس کردیتا ہوں۔ شاید اسے یہ خوف ہے کہ میں بلیڈ سے اپنا گلا نہ کاٹ لوں۔ اسے کیا پتہ کہ اس گلے میں ابھی ہزاروں گیت ہیں، جو کسی زندان کی دیوار کو لرزا کر ڈھیر کرسکتے ہیں۔ میں اسے کاٹنے کو تیار نہیں ہوں۔‘‘

شیخ ایاز کے ہاں شاعری محض شاعری نہیں تھی بلکہ تمام عالم کے مظلوم طبقات کی للکار تھی۔ جس میں بحیثیت شاعر ان کے اپنے رت جگے بھی شامل تھے۔ سندھ کے کئی سیاسی کارکنان اور قائدین ان کے اشعار قیدخانوں میں پڑھا کرتے تھے۔ آج سندھ کا ہر جلسہ، ہر میلہ ایاز کے کلام کے بغیر ادھورا نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری کے جتنے بھی مجموعے شایع ہوئے ان پر نظرثانی کے فرائض سندھ کے نامور دانشور اور ماہر تعلیم محمد ابراہیم جویو کے سپرد ہوا کرتی تھی۔ انہیں اپنی مادری زبان میں شاہکار اشعار لکھنے کےلیے بھی ابراہیم جویو نے ہی آمادہ کیا تھا۔

ان کی کتاب ’’وجون وسن آئیوں‘‘ کے پیش لفظ میں محمد ابراہیم جویو لکھتے ہیں ’’قومیں جب خود کو پہچاننا اور سمجھنا چاہتی ہیں، تب سب سے پہلے وہ اپنی زبان کو جانتی اور سمجھتی ہیں، کیوں کہ زبان ہی ان کی شناخت کا حقیقی نشان ہے۔ ہر قوم کی اپنی پہلی زبان ہوتی ہے۔ ادھار میں لی گئی زبان یا ملی جلی زبان پر چلنے والی قوم کی زندگی بھی کھوکھلی ہوجاتی ہے۔‘‘

شیخ ایاز سندھی ادبی سنگت کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ تقسیم کے بعد ان کا پاکستان رائٹرز گلڈ اور بزم صوفیائے سندھ سے بھی گہرا تعلق رہا۔ شیخ ایاز کے ادبی سفر میں برصغیر کی نامور ادبی شخصیات ساتھ رہیں، جن میں سجاد ظہیر، منشی پریم چند، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی اور فیض احمد فیض شامل تھے۔

شیخ ایاز کی شاعری کے سندھی سے اردو میں منظوم تراجم بھی ہوئے، جن میں ایک نمایاں نام محترمہ فہمیدہ ریاض کا بھی ہے، جنہوں نے ایاز کی شاعری کو اردو میں ترجمہ کیا۔ شیخ ایاز کی شاعری کے مزید تراجم اردو کے علاوہ سرائیکی، پنجابی، فرانسیسی، جرمن اور انگریزی زبانوں میں بھی ہوئے۔

مختلف ادوار میں ان کی کتابیں ’کپر تھو کُن کری‘، ’بھونئر بھری آکاس‘، ’وجون وسن آئیوں‘، ’جے کاک ککوریا کاپڑی‘، اور ’کلھے پاتم کینرو‘ پر پابندی بھی لگا دی گئی، مگر جب طویل عرصے بعد وہ کتابیں منظرِ عام پر آئیں تو انہوں نے پڑھنے والوں کے دلوں کو گرما دیا۔ شیخ ایاز کی پوری زندگی ایک وژن کے تعاقب میں گزری۔ وہ اپنے بین الاقوامی نظریات کے باوجود ایک مظلوم قومیت کے شاعر تھے۔

انہوں نے ایک طویل نظم کراچی کے گرداب لکھی، جس میں انہوں نے صنعتی تہذیب اور اس کے مسائل کو بیان کیا اور مشینی دور میں کچلے ہوئے انسانوں کی تصویر کشی کی ہے۔ شیخ ایاز نے عمر کے آخری ایام میں دعائیں بھی لکھیں۔ 23 مارچ 1994 میں شیخ ایاز کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا، جبکہ 16 اکتوبر 1994 کو انہوں نے فیض احمد فیض ایوارڈ بھی وصول کیا۔

شیخ ایاز 28 دسمبر 1997 کو کراچی میں دل کے عارضے کے باعث 74 برس کی عمر میں وصال کرگئے۔ ان کی وصیت کے مطابق انہیں بھٹ شاہ میں کراڑ جھیل کے قریب سپردِ خاک کیا گیا۔

’’شیخ ایاز نے اپنی شعری زبان کو جو قومی اور عوامی رنگ دیا ہے، وہ سندھی قوم اور اس کے مستقبل کےلیے آب حیات سے کم نہیں ہے۔‘‘

شکریہ ایکسپریکس نیوز

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com