بھکر داستان
پہلا باب
تلوک چند محروم کے کلام سے اقتباس
اے سندھو تری یاد میں جمنا کے کنارے
آنکھوں سے اہل آتے ہیں احساس کے دھارے
وابسته طفلی و جوانی وہ نظارے
موجود تصور کی نگاہوں میں ہیں سارے
آزادی تخیل کا اعجاز عیاں ہے پابندمکاں ہے
نہ محتاج زماں ہے اک گاؤں ترے ساحلِ کرم پہ ہے آباد
ساحل وہ ترا جلوہ کہ ہے حسنِ خداداد
ساٹھ برس پہلے کی اے سندھ ہے روداد
اس عالم پیری میں بھی آتے ہیں مجھے یاد
وہ کھیت، وہ جنگل، وہ جزیرے، وہ سفینے
وہ حسن دلآویز کے جاں بخش قرینے
بھولا نہیں عالم تیری امواج رواں کا
وہ ماضی رقصاں میری عمر گزراں کا
تو اور تلاطم میرے ذوق نہاں کا
افسوس کہاں میں ہوں یہ قصہ ہے کہاں کا
کو رشتہ کناروں سے ترے توڑ کے آیا
طفلی بھی جوانی بھی وہیں چھوڑ کے آیا
میں وہ کہ لڑکپن سے جو تھا تیرا پجاری
ظاہر میں نہ تھا گر عمل سجدہ گزاری
تھا میری نظر میں کرم خالق باری
وہ سیر بر کناروں کی، وہ موجوں کی سواری
چکر تیرے گرداب کے ہیں اب بھی نظر میں
دل میں وہی طوفان ہے سودا وہی سر میں
تقدیس چمن سے مجھے انکار نہیں.ہے
گر پاک نہیں اس سے سروکار نہیں ہے
کیا کیجئے وہ آر نہیں ہے پار نہیں ہے
آسوده کسی طور دل آزار نہیں ہے
ساون وہی گھنگھور گھٹائیں بھی وہی ہیں
دکھن کے سمندر کی ہوائیں بھی وہی ہیں
ایسے میں ترا جوش طرب یاد جو آئے
دل پہلو میں کس طرح نہ طوفان اٹھائے.
دوسرا باب
بھکر
جب منگول خراسان پر حملہ آور ہوئے تو سید محمد مکی اپنے خانوادے کے ساتھ خراسان سے براستہ ہرات، قندھار اور پشین سے ہوتے ہوئے سندھ تشریف لائے۔ روایت میں ہے کہ آپ صبح کے وقت پہنچے تھے۔ آپ نے دریائے سندھ کی وادی پر ابھرتے سورج کو دیکھتے ہوئے عربی میں یہ الفاظ کہے تھے :
جعل الله بكرتى فى البقعة المباركة ترجمہ : اللہ تعالیٰ نے میری صبح کو ایک مبارک علاقے میں منور فرمایا ہے۔“ اور آپ کے پکارے گئے الفاظ کی بنا پر اس جگہ کا نام بکھر مشہور ہو گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اس سرزمین پر پہنچ کر گائے ذبح کر کے خیرات کی ۔ عربی میں گائے کے نام کی بنا پر یہ بقر اور بعد میں بگڑ کر بکھر، مشہور ہوا۔ کتب میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کہاں رہنا پسند کریں گے۔ آپ نے کہا، ‘ اس جگہ جہاں گائیں اور ابھرتا ہوا سورج انہیں نظر آئے گا۔ سید محمد مکی کو اس علاقے میں حکومت وقت کی طرف سے جاگیر عطاء کی گئی جس کے بهکر داستان 29 سید جاوید حسین شاہ بدلے میں ان کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ وہ علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو سنوارنے میں بھر پور ساتھ دیں گے۔ دریائے سندھ اور ساتھ میں پہاڑوں اور مشرق میں صحرا کی وجہ سے یہ علاقہ امن و امان کے حوالہ سے ہمیشہ مسائل سے دو چار رہا تھا۔ سید محمد مکی اور ان کے خاندان نے یہاں بکھر“ کی بنیاد رکھی۔ بلوچ قبائل نے بھی اسی دوران ہی دریائے سندھ کے قریب آبادکاری کی اور انہی بلوچ قبائل نے آپ کو میر بکھر“ کا خطاب دیا۔ بکھر اور روہڑی کے علاقے کی جاگیر آپ کے خانوادے کے پاس آ گئی ۔ کچھ ہی عرصے میں بکھر دریائے سندھ پر ایک اہم دفاعی اور معاشرتی مرکز بن گیا۔ سید محمد مکی کی اولا د بکھر کی نسبت سے باکھری سادات مشہور ہوئی اور برصغیر پاک و ہند میں ان کی اولا دا اپنے نام کے ساتھ آج تک باکھری سید لکھتی ہے۔ ایک برطانوی مصنف ایبٹ نے بکھر کو یوں بیان کیا ہے: بکھر روہڑی اور سکھر کے درمیان ایک پرانا قلعہ نما شہر ہے جس کی صبحیں روشن اور شامیں دل فریب اور پورے برصغیر میں مشہور ہیں۔ دریا، صحرا اور پہاڑوں کے ساتھ قربت نے بکھر کو وادی سندھ کا شاندار مرکز بنا دیا ہے۔ "تحفۃ الکرم کے مصنف نے بکھر کا پرانا نام فرشتہ لکھا ہے اور وضاحت کی ہے کہ سید محمد مکی صبح کے وقت بکھر تشریف لائے اور اس علاقے کو بکھر“ کا نام انہوں نے ہی دیا گیارہویں صدی عیسوی سے جب بھنجور اور منصورہ زوال پذیر ہوئے تو بکھر اپنے محل وقوع اور جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے نمایاں ہوا اور تقریبا چھ سو سال تک بکھر سندھ کی دفاعی ریڑھ کی ہڈی رہا ہے۔ بهکر داستان 30 سید جاوید حسین شاہ سندھ کے مشہور جرنیل دریا خان لاشاری نے جام فیروز کی طرف سے ٹھٹھہ کے حکمرانوں سے جنگ صرف بکھر کے ناقابل تسخیر ہونے کی وجہ سے جیتی۔ تاریخی حوالوں میں ہے کہ بکھر کے ارد گرد ایک میل تک دریائے سندھ کا پھیلاؤ تھا اور سکندر اعظم بھی کسی زمانے میں اس کے قریب سے گزرا تھا۔
کچھ تاریخ دان اسے عرب منصورہ بھی کہتے ہیں کیونکہ منصور عربی میں دفاع یا فاتح کو کہتے ہیں ۔ ناصر الدین قباچہ کے دور میں بکھر میں دو قلعے تھے۔ شاہ حسین اراغون نے 1528ء میں قلعہ نما جزیرہ کے ارد گر د فصیل تعمیر کرائی جس کے بل بوتے پر وہ اسے نصیر الدین ہمایوں کے حملے سے بچانے میں کامیاب ہوا۔ 1572ء کے بعد سے سکھر کا تذکرہ اس وجہ سے شروع ہوا کیونکہ بکھر اور موجودہ سکھر کے درمیان دریائے سندھ حائل ہو گی اور نہ شروع میں ایسا نہیں تھا۔ ہنری پوٹینگر کے مطابق بکھر سکھر سے قدیم ہے اور پرانے سندھ کا دارالحکومت ہے۔ ابوالفضل اپنی کتاب میں سندھ کا منصورہ بکھر کو گردانتا ہے اور آئین اکبری میں اس کی تفصیل درج ہے۔ ابن بطوطہ نے بکھر کو ایک پھلتا پھولتا شہر لکھا ہے اور اس کی جغرافیائی اہمیت بھی بیان کی 1658ء میں منوچی جس نے دارا شکوہ کی آرمی کی آرٹلری کولیڈ کیا تھا، اس نے بھی بکھر کی تفصیل بیان کی ہے۔ میر سید محمد معصوم شاہ باکھری کا تعلق بھی بکھر سے تھا۔ آپ نے تاریخ سندھ اور تاریخ معصومی لکھیں۔ آپ نے 1595ء میں مغل افواج کے ساتھ سہبی اور پشین کے علاقے فتح بهکردستان 31 سید جاوید حسین شاہ کیے۔ 1598ء میں اکبر بادشاہ نے آپ کو سندھ کا گورنر مقرر کیا۔ آپ کے نام سے سکھر میں معصوم شاہ مینار آج بھی موجود ہے جو کہ 1607ء میں سرخ اینٹوں سے تعمیر کیا گیا تھا۔ اسی مینار کے قریب آپ دفن ہیں۔
حوالہ جات:
1. Memories on Syuds of Roree of Bukkur
2. Tuhfatul Kiram Mir Qane Thathavi
3. Manba Al-Ansab by Syed Moin-ul-Haque
4. Sindh by Abbot
5. History of India by its own historians
6. The Musalman Role Sind, Baluchistan of Afghanistan by Sheikh Sadiq Ali Ansari
7. The land of five rivers of Sindh
8. Gazetteer of the province of Sindh (Sukkur District) by J.W.Smyth
تیسر ا باب
میر بکھر اور ان کا خاندان
جاوید حسین شاہ
امام علی نقی علیہ السلام کے ایک فرزند سید جعفر ثانی جن کو سید جعفر تو اب بھی کہا جاتا ہے، ان کی نسل ان کے فرزند سید علی اکبر سے جاری ہوئی۔ سید علی اکبر کی کنیت سید علی اصغرا اور لقب جعفر ہے۔ سید علی اصغر کی ولادت 220ھ میں مدینہ منورہ میں ہوئی اور آپ کا وصال330 ھ میں ہوا۔سید علی اصغر کے ایک صاحبزادے کا نام سید اسماعیل تھا۔ ان کا اصل نام زید، کنیت ابو نصر اور لقب اسماعیل بن جعفر بن الھادی تھا۔ اور ان کی والدہ حضرت امام حسن مجتبی کے خاندان سے سیدہ تھیں۔ حضرت اسماعیل کی وفات 360ھ میں ہوئی اور آپ یمن میں مدفون ہوئے۔
سید اسماعیل کے دوفرزند تھے۔
1 – سید نصر الله
2- سید ابوالبقا
سید نصر اللہ کا نام سید عقیل تھا۔ کنیت حسین اور لقب ناصر تھا۔ سید عقیل کی ولادت بهکردستان 35 سید جاوید حسین شاہ 310ھ میں ہوئی اور وصال 400 ھ میں ہوا۔ سید عقیل کا مزار مشہد مقدس میں سیدنا معروف کرخی کی چلہ گاہ سے متصل ہے جبکہ سید ابوالبقا کی نسل مصر میں ہے۔ سید عقیل کے دو صاحبزادے تھے۔
1۔ سیدا شریف
2 سیدا کرم
سید اشرف کی کنیت سید ابو اشرف احمد اور لقب سید ہارون سرمست ہے۔ آپ کی ولا دت 340 ھ میں ہوئی ۔ آپ کی وفات 430 ھ میں ہوئی۔ آپ کی قبر مبارک بغداد میں سید ہارون سرمست کے تین صاحبزادے تھے۔
1 – سید محمد شریف (سید حمزه)
2- سید عبداللطیف
3۔ سید محمد شجاع
سید محمد شریف کی کنیت ابو ا کرم اور لقب سید حمزہ تھا۔ ولادت 360ھ میں ہوئی اور وفات 410 ھ میں ہوئی ۔ آپ بغداد میں مدفون ہوئے۔آپ کے ایک صاحبزادے کا لقب سید زید اور کنیت ابوالقاسم تھی۔ آپ کے ایک صاحبزادے سید منور تھے جن کی کنیت ابوابراہیم اور لقب سید ابو القاسم تھا۔ سید ابوالقاسم کی ولادت 400 ھ میں ہوئی جبکہ وصال 480 ھ میں ہوا ۔ آپ بغداد میں مدفون ہوئے۔ سید ابوالقاسم کے ایک صاحبزادے کا نام سید انور کنیت علی اکبر اور لقب سیدابرا ہیم تھا۔ سید ابراہیم کی ولادت 420 ھ میں ہوئی اور وصال 500ھ میں ہوا ۔ سید ابراہیم مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔ سید ابراہیم کے ایک فرزند کا نام سید امجد ، کنیت ابواحمد اور لقب سید محمد شجاع تھا۔ آپ کی ولادت 440 ھ میں ہوئی اور وصال 480 ھ میں ہوا ۔ آپ مکہ معظمہ میں دفن ہوئے۔ سید محمد شجاع طوسی مشہد مقدس سید ابراہیم جوادی کے گھر پیدا ہوئے ۔سیدا براہیم جوادی مشہد مقدس کی عالم دین شخصیت تھی۔ آپ کے زمانے میں سلجوق ترک حکمران تھے۔ طغرل بیگ کی حکومت میں حسن بن صباح اور اس کے فدائین نے بہت غارت گری بر پا کر رکھی تھی۔ طغرل بیگ نے سیدابراہیم جوادی سے دعا کی درخواست کی ۔ سید ابراہیم جوادی نے امام رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس میں نماز ادا کی اور اللہ سے دعا کی جس کے طفیل فدائین کی غارت گری میں کمی آگئی۔ سید ابراہیم جوادی کے فرزند سید محمد شجاع علم حدیث اور فقہ میں ماہر تھے۔ فنون جنگ و حرب میں مہارت کی بنا پر آپ کو شجاع کا لقب عطاء کیا گیا۔ 1132ء میں ایران اور ترکی کی جنگ میں سید محمد شجاع طوسی خراسان کے گورنر تھے۔ اس جنگ میں آپ نے خراسان کے پہاڑی علاقے میں اپنی فتوحات کے جو ہر دکھائے۔سید محمد شجاع طوسی ایک مرتبہ سفر حج کے دوران بغداد میں رکے۔ وہاں آپ کی ملاقات ابو حفص عمر سهروردی سے ہوئی ۔ مذہبی اور فقہی گفتگو اور باہمی احترام کی بدولت آپ دونوں میں ایک تعلق قائم ہو گیا۔ ابو حفص عمر سہروردی نے اپنی بیٹی آپ کے عقد میں دے دی اور یوں آپ نے نقوی سادات کی قرابت داری کا آغاز سلسلہ طریقت سہروردیہ سے کیا۔ ابو حفص عمر سہر وردی ایک ایرانی صوفی اور سلسلہ طریقت سہروردیہ کے بانی ابو نجیب سہروردی کے بھتیجے تھے۔ ابو حفص عمر سہروردی نے سلسلہ سہروردیہ پر ایک کتاب عوارف المعارف بھی لکھی جو کہ صوفیانہ طریقت کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی کی شاگردی کے سبب آپ دنیائے صوفیاء میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ سید محمد شجاع کو اللہ تعالیٰ نے 1145ء میں ایک فرزند عطا فرمایا۔ آپ نے اپنے فرزند کا نام محمد رکھا اور مکہ میں پیدائش کے سبب ان کو سید محد مکی ‘پکارا جانے لگا۔ سید محمد مکی سید محمد مکی نے دینی تعلیمات اپنے دادا سید ابراہیم جوادی، والد محترم سید محمد شجاع سے حاصل کیں ۔ آپ نے یمن میں بھی عسکری خدمات سرانجام دیں۔1174ء میں جب صلاح الدین ایوبی کے بھائی طور ان شاہ نے یمن فتح کیا اور عباسی حکمرانوں سے الحاق کیا، اس وقت سید محمد مکی نے یمن کے علویوں کی سربراہی کی اور عباسی فوج کے ساتھ جنگ کی۔ سید محمد مکی نے 10 سال یمن میں گزارے۔ یمن سے آپ مکہ اور مدینہ سے ہوتے ہوئے کربلا آئے۔ کربلا سے بغداد اور مشہد میں تشریف لے گئے ۔ مشہد سے براستہ ہرات اور قندھار آپ کے سندھ آنے کے متعلق تین تاریخی روایات ہیں۔
پہلی روایت :
جب منگول اور تا تا رافواج نے خراسان کے علاقے پر یلغار کی تو سید محمد مکی نے اپنے اہل وعیال کے ساتھ خراسان سے ہجرت کی ۔ آپ ہرات سے براستہ قندھار، شالکوٹ،پشین کے راستے سرزمین سندھ میں آئے ۔آپ صبح کے وقت سندھ کے علاقے میں وارد ہوئے ۔ ابھر تے سورج کے دلکشن نظارے، دریائے سندھ کے پانی کی فراوانی اور سرزمین سندھ کی زرخیزی کو دیکھتے ہوئے آپ نے یہ الفاظ کہے:
جعل اللہ بکرتی فی البقعة المباركة
ترجمہ: اللہ نے مجھے پر امن صبح عنایت فرمائی ہے۔“
جب آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ کہاں رہنا پسند کریں گے تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مجھے گائے کی گھنٹی کی آواز سنائی دے گی اور میں سورج کو طلوع ہوتے دیکھ سکوں گا،میں وہاں قیام کروں گا۔ عربی زبان میں گائے کے لیے مخصوص لفظ ”بقر“ ہے اور سید محمد مکی کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میں سے لفظ ” بکر کی نسبت سے آپ نے اس سرزمین کا نام ” بکھر رکھا۔
دوسری روایت :
دوسری روایت یہ ہے کہ آپ جب مشہد سے براستہ ہرات ، قندھارے ہوتے ہوئے سندھ آئے تو آپ کے ہمراہ 30 ہزار افراد کا لشکر تھا اور آپ نے جزیرہ بکھر کو اپنا مسکن بنایاجس کا پرانا نام فرشتہ تھا۔
تیسری روایت:
تیسری روایت یہ ہے کہ جب آپ ہرات میں تھے اور خراسان کے معاملات دیکھ رہے تھے، جب علاؤ الدین خلجی جو کہ ہندوستان کے حکمران تھے، ان کی طرف سے سندھ میں جاگیر عطا کی گئی اور آپ نے اپنے اہل و عیال سمیت ہات سے سندھ کی طرف ہجرت کی اور بھکر کو آباد کیا۔ آس پاس کے بلوچ قبائل نے آپ کو میر بکھر کا خطاب دیا اور یوں آپ نے اس علاقے میں سادات نقویہ کی بنیاد رکھی ۔” بکھر ایک جزیرہ کی شکل میں دریائے سندھ کے پانیوں میں گھرا ہوا علاقہ ہے۔ یہ ایک چٹان پر مشتمل علاقہ ہے جو کہ روہڑی اور سکھر کے درمیان دریائے سندھ میں موجود سید محمد مکی کو علاقے میں امن و امان میں مدد کے عوض روہڑی میں جاگیر عطا کی گئی۔ سید محمد مکی نے بکھر میں قیام کے دوران اسلامی تعلیمات کی ترویج میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ سید محمد مکی 1246ء میں 101 سال کی عمر میں وفات پاگئے ۔ آپ قلعہ اراک میں جو سکھر اور بکھر کے درمیان ہے، مدفون ہیں۔ سید محمد مکی کی اولاد کو بکھر میں رہنے کی وجہ سے باکھری“ یا ”بھا کری“ سادات کہا جاتا ہے۔ آپ کی اولاد میں مندرجہ ذیل فرزند مشہورہیں۔
1 ۔ سید بدرالدین بھا کری:
آپ کی پیدائش 1205ء میں سے 1210ء کے درمیان ہوئی۔ فقہ میں عبور اور روحانی خوبیوں کی بدولت آپ نے بہت نام کمایا۔ روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ سید بدرالدین بھا کرمی نے خواب میں حضرت محمد سالن انا اسلام کی زیارت کی جس میں رسول پاک سلینا کہ تم نے آپ کو اپنی بیٹی کو سید جلال الدین بخاری کے عقد میں دینے کا حکم صادرفرما یا تھا۔جب سید جلال الدین بخاری بکھر تشریف لائے اور آپ نے سید بدرالدین سے ان کی بیٹی کا رشتہ طلب کیا تو سید بدرالدین کے بھائیوں سید صدرالدین ، سید ماہ اور سید شمس الدین نے اس رشتہ پر اعتراض کیا۔ ان کو اعتراض تھا کہ ایک گمنام سید جو اپنے آپ کو بخارا سے بتا تا ہے، اس کو رشتہ دینا درست نہیں ہے۔ جب سید بدرالدین نے رشتہ کی ہاں کر دی تو سید بدرالدین کے بھائیوں نے شرط رکھ دی کہ اگر آپ سید جلال الدین بخاری کو رشتہ دیتے ہیں تو آپ کو بکھر چھوڑ کر جانا ہوگا۔ سید بدر الدین نے سید جلال الدین بخاری کے ساتھ بکھر سے اُچ کی طرف ہجرت کی اور یوں باکھری اور بخاری سادات کا نسل در نسل تعلق کا سلسلہ چل پڑا۔سید بدرالدین کی ایک شادی ہندوستان کے حکمران علاؤ الدین خلجی کی بیٹی سے بھی ہوئی جس سے آپ کے دو فرزند پیدا ہوئے ۔
1 – سید محمد مهدی
2۔ سید سعد اللہ
2۔ سید صدرالدین باکھری (خطیب سندھ ):
سید محمد مکی کے دوسرے فرزند سید صدر الدین کی پیدائش 1204ء میں بکھر میں ہوئی۔ آپ علوم فقہ وتصوف میں اعلیٰ پائے کے عالم دین تھے اور سکھر میں جامع مسجد میں خطیب تھے۔ اسی وجہ سے آپ کو خطیب سکھر بھی کہا جاتا ہے۔سید صدر الدین باکھری کے فرزند سید علی بدر الدین کی اولاد میں سے سید مرتضیٰ شعبان الملت بہت مشہور ہوئے ۔ آپ کی اولاد نے الہ آباد کی طرف ہجرت کی۔3۔ سید ماہ سید محمد مکی کے تیسرے فرزند سید ماہ تھے۔ آپ یمن میں پیدا ہوئے۔ روایات میں آپ کی اولا د کا ذکر نہیں ملتا ۔
4۔سید شمس سید محمد مکی کے چوتھے فرزند تھے۔ آپ کی پیدائش یمن میں ہوئی ۔ آپ نے اپنے والد کے ہمراہ سندھ میں ہجرت کی ۔ آپ سے کوئی اولا د منسوب نہیں ہے۔
حوالہ جات:
1- Manba Al Ansab by Syed Moeen ul Haq
2- The land of five rivers of Sindh by Chapman of
3 – تاریخ جاگیر بکھر ، باکھری سادات
4 – تاریخ فرشتہ
5- Memories of Syuds of Roree of Bukkur Hall
6- A Gazetteer of Province of Sindh
7- History of India by its own historians
8- The musalman Races found in Sindh, Baluchistan and Afghanistan
9- تاریخ معصومی – از سید محمد معصوم با کھری
10 – تحفتہ الکرم، از سید میر علی شیر قانع ٹھٹھوی
11- Sind a re-interpretation of unhappy valley by J.Abbot i.c.s 1924 Bomba
چوتھا باب
اُچ
بھکر سے سادات کی اچ شریف میں آمد سید جلال الدین سرخ پوش کے ساتھ ہوئی ۔برصغیر کا قدیم ترین شہر اُچ شریف ہے۔روایات میں ہے کہ سکندراعظم نے اسکندریہ کے نام سے یہ شہر دو دریاؤں کے سنگم پر آبا د کیا۔شاه محمود غزنوی نے جب اسے فتح کیا تو اس وقت اس کا نام بھاریہ تھا۔ سید جلال الدین سرخ پوش کی آمد کے بعد یہ اُچ بخاری مشہور ہوا اور سید جلال الدین سرخ پوش بخاری نے یہاں سلسلہ جلالیہ کی بنیاد رکھی۔ آپ کے ہاتھوں سندھ کے ڈاہر، چدھڑ، ورڑ، سیال اور راجپوت قبائل نے اسلام قبول کیا۔سندھ کے ہر حکمران نے اُچ پر قبضہ کرنا ضروری سمجھا کیونکہ اس کی جغرافیائی حیثیت اسے ایک مرکزی شہر کا درجہ دیتی تھی۔ سومرہ خاندان کے زوال کے وقت ناصر الدین قباچہ کو مملوک دہلی کی طرف سے اُچ کا گورنر بنایا گیا۔ قباچہ نے اُچ ، بکھر اور ملتان پر حکومت کی اور کچھ روایات کے مطابق اس بھکر داستان46سید جاوید حسین شاہ نے دہلی کے حکمرانوں سے بغاوت بھی کی۔ سندھ سے قبائل کی ہجرت اُچ کے راستے ہی پنجاب کی طرف ہوئی۔ایک ایسے وقت میں جب پانی ہی زندگی کی بنیادی ضرورت تھا، جنوب ، مشرق اور مغرب سے لوگ اُچ کی طرف ہجرت کر کے آئے اور اسی شہر کو اپنا وطن بنایا۔ اچ کے مقابر میں موجود فن تعمیر کبھی ٹھٹھہ کی یاد دلاتا ہے تو کبھی اس میں بخارا اور ایرانی اور ترک فن تعمیر کی جھلک نظر آتی ہے۔1245ء میں اچ پر منگولوں نے قبضہ کیا ۔ 1305ء میں غیاث الدین تغلق نے اُچ پر قبضہ کر لیا۔ 1398 ء میں اچ پر امیر تیمور کے پوتے پیر محمد نے قبضہ کر لیا اور اُچ کے علاقے کو خاندان سادات کے خضر خان کے حوالے کر دیا۔پندھرویں صدی عیسوی کے اوائل میں اُچ پر ملتان کے لنگاہ خاندان نے قبضہ کر لیا۔ سندھ کے حکمران سمہ خاندان کے کچھ افراد اپنے جام نظام الدین (جام نندہ) کے عتاب کا شکار ہوئے اور جان بچا کر ملتان کے لنگاہ خاندان کے پاس پناہ لی۔ان میں سےجام بایزید اور جام ابراہیم بہت مشہور ہیں۔لنگاہوں نے جام بایزید کو اُچ کی جاگیر کا گورنر بنا یا اور جام ابرا ہیم کو شورکوٹ کی جاگیرعطا کی۔ اس زمانے میں بعض مورخین نے شورکوٹ کو صرف شور لکھا ہے۔ ان سمہ گورنروں نے سندھ سے آنے والے قبائل کی پذیرائی کی اور انہیں اپنے علاقوں میں آباد ہونے میں مدد دی۔اسی زمانے میں میر چاکر خان رند بھی سبی سے اپنے قبائل کے ساتھ اُچ شریف تشریف لائے ۔ جام بایزید نے اُچ کے دفاعی معاملات کو میر چاکر اور ان بلوچ قبائل کے حوالے کر دیا اور یہیں سے ایک نئی معاشرتی کہانی کی ابتدا ہوئی۔ سندھ سے آنے والے لوگوں اور بلوچستان کے قبائل نے یہاں رسم و رواج اور ثقافت کے نئے مشترکہ پہلوؤں کو جنم دیا۔ میر چاکر اعظم کے دوفرزند تھے ۔
1 ۔ میر شاہ داد
2۔ میر شہک تاریخ فرشتہ کے مطابق میر شاہ داد نے ہی اپنے بلوچ قبائل میں سب سے پہلے شیعیت فرقے کو اپنا یا اور یقیناً ایسا اُچ شریف میں بخاری سادات کی عقیدت میں ہوا ہوگا۔ اُچ شریف شہر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1 ۔ اُچ بخاری
2 – اچ گیلانی
3۔ اُچ مغلاںاُچ کے مندرجہ بالا حصوں کی کچھ تفصیل بیان کی جاتی ہے۔
1 – اُچ بخاری :اچ بخاری میں مندرجہ ذیل شخصیات کے مزارات واقع ہیں۔سید صفی الدین گازرونی سید جلال الدین سرخ پوش بخاری سید احمد کبیر بخاری سید مخدوم جہانیاں جہاں گشت سید صدرالدین را جن قتال سیدبدرالدین با کھری بی بی جیوندی-
2۔ اُچ گیلانی:اچ گیلانی اُچ بخاری کے قریب ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل شخصیات کے مزارات واقع ہیں۔حضرت سید شاہ محمد غوث بندگی گیلانی سید عبدالقادر گیلانی ثانی سید مبارک شاہ حقانی گیلانی سید حامد گنج بخش گیلانی قطب الدین لنگاہ والی، ملتان واچ کبیر الدین حسن دریا-
3۔ اُچ مغلاں :اُچ مغلاں میں مندرجہ ذیل شخصیات کے مقابر واقع ہیں۔جمال الدین خنداں رو خجندی رضی الدین گنج علم ان کے علاوہ جامع مسجد اُچ مغلاں بھی یہاں واقع ہے۔بهکر داستان49 سید جاوید حسین شاہ سید جلال الدین بخاری سرخ پوش آپ امام علی نقی علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں ۔ آپ کا اصل نام سید جلال الدین حیدر رکھا گیا تھا۔ سرخ لباس پہننے کی وجہ سے آپ سرخ پوش اور بخارا کی نسبت سے بخاری مشہور ہوئے۔ آپ کے دیگر القابات میں سے میر بزرگ ، مخدوم الاعظم ، شیر شاہ اور عظیم اللہ بھی شامل ہیں۔منگولوں کے حملوں سے تنگ آکر آپ نے بخارا سے برصغیر کی طرف ہجرت کی اور کروڑ، ملتان ، اچ شریف سے ہوئے آپ بکھر تشریف لے گئے ۔ بکھر میں آپ کی شادی سید بدرالدین باکھری کی بیٹی سے ہوئی۔ وہاں سے آپ پھر اچ شریف تشریف لے گئے اور اُچ میں ہی آپ نے سلسلہ جلالیہ کے تصوف کی بنیاد رکھی ۔ کچھ روایات اسے خانقاہ بخار یہ بھی بتاتی ہیں۔ اُچ شریف میں قیام کے دوران آپ نے قابل قدر تبلیغی اور علمی خدمات سرانجام دیں اور آپ کی ہی وجہ سے اُچ شریف کا نام اُچ بخاری میں تبدیل ہو گیا۔ آپ کے ہاتھوں سندھ کے ڈاہر، ورڈ ، چدھڑ، سیال اور راجپوت قبائل نے اسلام قبول کیا۔ سیال قبائل نے آپ کے کہنے پر ہی جھنگ شہر کو آباد کیا اور جھنگ میں اُچ نوری گل امام اور شاہ جیونہ میں آپ کی اولاد میں سے کچھ بزرگ دفن ہوئے ہیں۔ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کی وفات 95 برس کی عمر میں اچ شریف میں ہوئی ۔ روایت میں آپ کی وفات کی تاریخ 19 جمادی الثانی 690ھ ہے جو کہ 1295 عیسوی سال بنتا ہے۔ آپ کے مقبرہ کی موجودہ عمارت نواب آف بہاولپور (بہاول خان ثالث )نے تعمیر کروائی۔
بهکر داستان50 سید جاوید حسین شاہ کتاب الانساب کے مطابق آپ کے پانچ فرزند ہیں۔سید علی بخاری سید شاہ محمد غوث بخاری سید احمد کبیر بخاری سید جعفر بخاری سید بہاؤالدین معصوم بخاری
1۔ سید علی بخاری:
آپ کی پیدائش 7 شوال 622ھ میں ہوئی اور وفات 670ھ میں ہوئی۔
2۔سید شاہ محمد غوث بخاری:
آپ کی پیدائش 26 شعبان 645ھ میں ہوئی۔ آپ کی وفات 17 محرم 710 ھ میں ہوئی اور آپ سید جلال الدین بخاری کی قبر کے دائیں طرف مدفون ہیں ۔ آپ کی شادی سید سعید اللہ بن سید بدرالدین باکھری کی بیٹی سے ہوئی جن سے آپ کے چار فرزند اور ایک بیٹی پیدا ہوئی جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں:سید عبد الغيث سید ابوسعیدسیدابوالکریم سید شمس الدین بهکر داستان51 سید جاوید حسین شاہ سیدہ عائشہ بی بی.
3 – سید احمد کبیر بخاری :
سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے تیسرے فرزند سید احمد کبیر بخاری تھے۔ آپ کی والدی ماجدہ بکھر کے معروف بزرگ سید بدرالدین پا کھری کی صاحبزادی تھیں جن کا نام فاطمہ سیدہ تھا۔ آپ اپنے والد گرامی کے مجاز خلیفہ اور مرید تھے۔ روایات کے مطابق آپ نے 750 ھ میں وفات پائی اور آپ کا مزار درگاہ جلال الدین سرخ پوش کے اندر واقع ہے۔ آپ کے دو فرزند تھے۔ ایک کا نام حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت اور دوسرے فرزند کا نام سید صدرالدین راجن قتال تھا۔
4۔ سید جعفر بخاری
آپ چوتھے فرزند ہیں اور آپ کی پیدائش 626 ھ میں ہوئی۔ آپ کی وفات 700 ھ میں ہوئی اور آپ بخارا میں دفن ہیں ۔
5- سید بہاء الدین معصوم :
آپ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کے وہ فرزند ہیں جو چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے۔
حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت
آپ 14 شعبان 707 ھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید احمد کبیر بخاری تھا۔ بهکر آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد گرامی سید احمد کبیر بخاری اور چچا سید صدرالدین محمد غوث اور شیخ جمال درویش خنداں رو کے زیر سایہ ہوئی۔ اور آپ نے فقہ اور اصول فقہ کی کتب / تعلیم شیخ بہاءالدین اچوی سے حاصل کیں ۔ اپنے استاد محترم شیخ بہاء الدین اچوی کی وفات کے بعد آپ ملتان تشریف لے گئے اور ملتان میں شاہ رکن عالم ملتانی کی محفل میں درس و تدریس حاصل کی۔ اس کے بعد آپ مکہ معظمہ تشریف لے گئے اور وہاں شیخ عبداللہ یافعی اور شیخ عبداللہ مطری سے تصوف کی کتب کا درس لیا۔ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد آپ نے مولانا شہاب الدین سہروردی کی کتاب ” عوارف المعارف‘ کا درس بھی شیخ عبد اللہ مصری سے حاصل کیا۔ سلطان محمد تغلق نے حضرت جہانیاں جہاں گشت کو شیخ الاسلام مقرر کیا تھا۔ لیکن آپ کو سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا اور اسی وجہ سے آپ کو جہاں گشت کہا جاتا تھا۔
سید بہاول حلیم بخاری
آپ سید جلال الدین سرخ پوش کے پوتے تھے اور آپ کا زیادہ تر وقت اپنے دادا اور جہانیاں جہاں گشت کے ساتھ گزرتا تھا۔ آپ کی پہلی شادی خراسان کے والی سلطان محمد دلشاد کی بیٹی سے ہوئی جس کا نام خدیجہ تھا۔ بی بی خدیجہ دختر سلطان محمد دلشاد سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بیٹی عطا کی جس کا نام آپ نے بی بی جندوڈی رکھا اور جو بعد میں بی بی جیوندی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ بی بی جیوندی کے انتقال کے بعد ان کے نانا والی خراسان نے 1494ء میں ان کا مقبرہ تعمیر کروایا جس پر وسط ایشیا، ترک اور ایرانی فن تعمیر کے اثرات نمایاں ہیں۔ بی بی جیوندی کے مزار اور ساتھ والے مقابر کو یونیسکو نے عالمی ورثہ میں شامل کر رکھا ہے۔ جس ماہر آرکیٹیکٹ نے یہ مقبرے تعمیر کیے، اس کا اپنا مقبرہ بھی بی بی جیوندی اور مقبرہ بہاول حلیم کے پاس موجود ہے۔ فن تعمیر میں یہ مقابر اپنی مثال آپ ہیں ۔ بہاول حلیم بخاری کی دوسری شادی دختر سید احمد بن سید محمد مہدی بن سید مرتضیٰ بن سید بدرالدین باکھری سے ہوئی جن سے آپ کے تین بچے ، سید مبارک شاہ، سید سراجالدین شاہ اور بی بی ہاجرہ پیدا ہوئےہیں۔سید بہاول حلیم بخاری نے 771ھ میں وفات پائی اور آپ اُچ شریف میں ہی دفن
سید صدرالدین راجن قتال بخاری
آپ سید احمد کبیر بخاری کے چھوٹے فرزند اور حضرت جہانیاں جہاں گشت کے بھائی تھے۔ آپ کی پیدائش 26 شعبان 730 ھ کو ہوئی اور آپ کا نام سید صدرالدین با کھری کی نسبت سے سید صدر الدین رکھا گیا۔ آپ کی طبیعت میں جلال کی وجہ سے آپ کو قتال کا لقب دیا گیا۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ ترکی زبان میں کتال بزرگ کو کہتے ہیں جبکہ برصغیر میں یہ کتال“ سے ” قال بن گیا۔
سید صفی الدین گازرونی
اُچ شریف کے اولین اولیا اور سادات میں آپ کا نام آتا ہے۔ آپ 370ھ میں اس علاقے میں آئے اور آپ 398ھ میں 97 برس کی عمر پا کر خالق حقیقی سے جاملے ۔ اس وقت اُچ کا نام ارور تھا۔ آپ کا شجرہ نسب یوں ہے:سید صفی الدین بن سید محمد بن سید علی بن سید ابی محمد بن سید جعفر بن سید علی بن عبد الشمس الدین بن سید ہارون بن سید عقیل بن سید اسماعیل بن سید علی اصغر بن سید جعفر ثانی بن حضرت سید امام علی نقی ۔
علی بن حامد بن ابوبکر کوفی
ناصر الدین قباچہ کے دور میں اُچ کی علمی شخصیت علی بن حامد بن ابو بکر کوئی اُچ میں آکر آباد ہو گئے ۔ یہیں اُچ شریف میں ہی آپ نے الہند والسنه و منهاج المسالک نامی کتاب جسے قاضی اسماعیل بن علی ثقفی نے مرتب کیا تھا، اس کو آپ نے فارسی میں ترجمہ کیا اور یہ کتاب ” پنچ نامہ کے نام سے مشہور ہوئی۔چچ نامہ“ شروع میں عربی میں لکھی گئی تھی اور بعد ازاں یہ کتاب نایاب ہو گئی تھی ۔ علی بن حامد کوفی نے یہ نایاب کتاب بکھر کے ثقفی خاندان سے حاصل کی اور اس کو فارسی میں ترجمہ کیا۔علی بن حامد کوفی کا انتقال بھی اُچ شریف میں ہوالیکن آپ کی قبر کا کسی بھی نہیں پتہ کہ کہاں ، کس محلہ میں واقع ہے اور نہ ہی کسی کے پاس اس کی تفصیل وشواہد موجود ہیں ۔قاضی منهاج السراج طبقات ناصری کے مصنف قاضی منہاج السراج کے والد قاضی سراج الدین محمد دہلوی تھے جو شہاب الدین غوری کے زمانہ میں قاضی وقت تھے ۔ ان کو لاہور کے گورنر حسام الدین علی کرمان نے 1186ء میں لاہور کا قاضی مقرر کیا تھا۔ منهاج السراج ناصر الدین قباچہ کے عہد میں اُچ شرایف آئے اور ناصر الدین قباچہ نے آپ کو اُچ شریف کی درس گاہ فیروز یہ کا انچارج مقرر کیا۔ آپ نے طبقات ناصریبهکر داستان 55 سید جاوید حسین شاہ میں اپنی اچ میں آمد اور رہائش کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ آپ نے طبقات ناصری لکھنے کا آغاز 645ھ میں کیا اور 658ھ میں اس کو مکمل کر دیا ۔ ناصر الدین نام کے تین بادشاہوں سے آپ متاثر تھے۔
1 ۔ ناصر الدین ابوبکر والیء ہرات
2 – ناصر الدین قباچہ
3 ۔ ناصر الدین محمودناصر الدین محمود کی پارسائی سے آپ بہت متاثر تھے اور اسی وجہ سے آپ نے اپنی
کتاب کا نام ” طبقات ناصری رکھا تھا۔
حوالہ جات:
1. Imperial Gazetteer of India 1908
2. Uch Monuments by UNESCO
3. The Maeedonian Empire by James R. Ashley 4. Maclean, Derryl N. Religion and Society in Arab Sind 1989
5. Wink, Andre 1997 Alhind the making of the Indo-Islamic world. The slave king of Islamic conquest
6. Glossary of Tribes and Castes of Punjab and NWFP
7 – جدید تاریخ اُوچ
8 ۔ اُوچ آثار وقدامت
9 تاریخ اورچ
10 – مدینۃ الاولیاء اوچ شریف
پانچواں باب:
لنگاہ خاندان
رائے سہرہ لنگاہ کا تعلق سبی سے تھا۔ کچھ مصنفین اسے بلوچ قبیلہ بتاتے ہیں جبکہ بعض نے انہیں راجپوت لکھا ہے۔ رائے سہرو نے ملتان پر قبضہ کرنے کے بعد قطب الدین لنگاہ کا لقب اختیار کیا ۔ قطب الدین لنگاہ نے 1454 ء سے لے کر 1470 ء تک ملتان پر حکومت کی۔1470ء میں آپ کا انتقال ہو گیا۔قطب الدین لنگاہ کے فوت ہونے کے بعد اس کا ایک بیٹا سلطان حسین لنگاہ کے نام سے تخت پر براجمان ہوا اور اس کی ذہانت اور قابلیت کا چرچا ہونے لگا۔ سلطان حسین لنگاہ علماء اور صوفیاء کا بہت قدر دان تھا۔ آپ نے اچی اور ملتان کے سادات کو جاگیریں عطا کیں اور اچ کے سادات خانوادے میں لنگاہ شہزادیوں کی شادیاں بھی ہو ئیں۔انہی دنوں ملتان کے سرحدی علاقوں میں تجارتی قافلوں کو لوٹ لیا جاتا تھا۔ لنگاہ حکمرانوں نے بلوچ قبائل کی آباد کاری اپنے سرحدی علاقوں میں کروائی اور میر سہراب خان کی سر پرستی میں بلوچ قبائل کو دھن کوٹ سے لے کر کوٹ کروڑ تک دریائے سندھ کے دونوں طرف آبا د کیا گیا۔میر سہراب کی اولاد میں سے جام اسماعیل خان نے ڈیرہ اسماعیل خان کے نام سے دریائے سندھ کے کنارے شہر بسایا۔ گودار سے حاجی خان میرانی بھی اپنے بیٹے غازی خان میرانی کے ساتھ ملتان آیا اور اسے بھی ڈیرہ جات میں دریائے سندھ کے آس پاس جاگیریں دی گئیں۔ غازی خان نے اپنے نام سے ڈیرہ غازی خان شہر بسا یا اور اسی غازی خان میرانی کی اولاد میں سے ایک بلوچ کمال خان میرانی نے پہلے کوٹ کمال“ بسایا جو کہ بعد میں کوٹ کمال سے لیہ مشہور ہو گیا۔ انہی میرانی سرداروں نے میر چاکر اعظم کی اولا د میں بھکر ، منکیرہ اور تھل کے علاقے تقسیم کیے تھے اور جہان خان نام کا قصبہ غازی خان دوئم کے نام پر بسایا گیا۔ غازی خان دوئم کا اصل نام جہان خان تھا۔سید محمد راجن شاہ بخاری آپ سید جلال الدین سرخ پوش بخاری کی اولاد میں سے ہیں ۔ آپ کے والد کا نام سید حامد کبیر ثانی تھا۔ آپ کے والد نے اپنے خانوادے کے ساتھ ہجرت کی اور بلوٹ شرایف میں رہائش پذیر ہوئے۔ سید محمد راجن شاہ بخاری برصغیر میں فقہ جعفریہ کے مجتہد قاضی نور اللہ شوستری کے ہم عصر ہیں۔ آپ شرعی علوم میں بہت فاضل شخصیت تھے ۔ آپ کو سدا بھاگ بھی کہا جاتا ہے۔ سید محمد راجن شاہ بخاری کی اولاد مبارک خان لنگاہ کی بیٹی سے ہوئی۔ جس سے آپ کا ایک بیٹا سید زین العابدین پیدا ہوا۔تاریخ دانوں کے مطابق جب نصیر الدین ہمایوں مغل بادشاہ کو ایرانی صفوی خاندان نے دہلی کا تخت واپس حاصل کرنے میں مدد دی تو اس وقت مغل بادشاہ کو برصغیر میں اہل تشیع کی سر پرستی کرنے کی بھی درخواست کی گئی۔ نصیر الدین ہمایوں اپنے زمانے میں اہلِ تشیع علماء اور بالخصوص سادات کو بہت ادب اور احترام سے نواز نے لگا۔ راجن شاہ کا موجودہ مقبرہ بھی انہی مغل بادشاہوں کی طرف سے عقیدت کا منہ بولتاثبوت ہے۔کیونکہ ان دنوں دریائے سندھ کے راستے کشتی کے ذریعے سفر ہوتا تھا، اس لیے اُچ شرایف سے سادات براستہ دریائے سندھ بلوٹ شریف اور عیسیٰ خیل کی طرف گئے۔ انہی دریائی سفر کے دوران انہوں نے موجودہ بھکر کو دریائے سندھ کے کنارے دیکھا اور شنید ہے کہ سندھ کے بکھر کی نسبت سے اسے بھکر کا نام دیا۔ اس وقت بھکر کے تین اطراف پانی تھا اور اس کی ہیئت پرانے بکھر سے مشابہت رکھتی تھی ۔ سید محمد راجن شاہ بخاری اور سادات خاندانوں کو اس علاقے میں بلوچ اور جاٹ اقوام نے بہت عزت دی اور انہیں روحانی پیشوا کا درجہ دیا۔ ہر آباد ہونے والے علاقے میں سادات کو بسایا گیا تا کہ وہ اپنے مریدین کے لیے باعث روحانیت بنیں اور ان کی اسلامی عقائد کی پیروی میں معاونت کریں۔ سید محمد راجن شاہ بخاری کا شجرہ یوں ہے:مخدوم سید محمد راجن شاہ بخاری بن سید حامد کبیر ثانی بن سید کیمیا نظر بخاری بن سید رکن الدین بخاری بن سید حامد کبیر بخاری بن سید ناصر الدین محمود بخاری بن سید جلال الدین حسین جہانیاں جہاں گشت بن سید احمد کبیر بخاری بن سید جلال الدین سرخ پوش بخاری۔ سید محمد راجن شاہ بخاری کے فرزند کا نام سید زین العابدین بخاری تھا۔سید زین العابدین بخاری کے فرزند سید حسن جہانیاں ہیں جو کہ پرانے بھکر کے محلہ ملکا نوالہ میں دفن ہیں۔ سید حسن جہانیاں اپنے مریدین کی جماعت بنا کر اُچ شریف میں جا کر اپنے اجداد کی خانقاہوں کو واپس لیا اور آپ سید جلال الدین سرخ پوش کے مزار کے سجادہ نشین بنے۔ سیدحسن جہانیاں نے قاضی نور اللہ شوستری سے بھی کسب فیض حاصل کیا اور ان کی صحبت میں بھی رہے۔
حوالہ جات:
1۔ اولیائے لیہ
2- تاریخ لیہ
3- انوار تجلی در احوال محمد راجن سدا بھاگ
4- تاریخ ملتان
5۔ مدینتہ الاولیاء اُچ شریف
چھٹا باب
بھکر دار بلوچ اقوام
بلوچ اقوم کے متعلق ماہرین کی مندرجہ ذیل اراء ہیں۔
1 – عرب النسل
2 – تركمن النسل
3۔ ایرانی النسل
1۔ عرب نسل :
بلوچ روایات کے مطابق ان کے آباء و اجداد ملک شام کے شہر حلب سے تھے اور میر نصیر کے مطابق واقعہ کربلا کے بعد یہ لوگ ان علاقوں سے بے دخل کیے گئے تھے اور یہ لوگ سیستان اور کرمان میں ہجرت کر کے آباد ہو گئے۔برطانوی مصنف ٹی ایچ ہولڈچ بھی بلوچ اقوام کے عرب ہونے کے نظریے کی حمایت کرتا ہے۔ایک اور برطانوی مصنف کرنل ای موکر اپنے ریسرچ پیپر اوریجن آف بلوچ( 1895ء میں انہیں عرب نسل سے بتاتا تھا۔ اس کے مطابق رند قبیلہ مکمل طور پر عرب النسل ہے۔اس کے مطابق عرب کے ایلاف قبیلہ (Alafi Tribe) نے حجاج بن یوسف کے خلاف بغاوت کی تھی اور اس قبیلہ کو حجاج بن یوسف نے عرب سے نکال باہر کر وایا تھا۔ پنچ نامہ کے مصنف کے مطابق ایلا فی قبائل کو راجہ داہر نے اپنے علاقے مکر ان کے ارد گرد جاگیریں دیں اور ان سے بہتر تعلقات بھی بنائے۔بلوچ قبائل شروع سے ہی سخت جان اور مشکل حالات میں رہنے کے عادی تھے۔
2_ تركمن النسل:
بولینگر اور مانیکوف کے مطابق بلوچ اقوام ترکمن قبائل سے ہیں جو کہ کیسپین سے کرمان، سیستان اور پھر بلوچستان میں آباد ہیں۔ اپنی ریسرچ میں یہ مصنفین ان اقوام کارہن سہن اور کلچر ان ترکمن قبائل سے جوڑتا ہے۔
3۔ ایرانی نسل :
آر برٹن اپنی تحقیق میں بلوچ قبائل کو ایرانی نسل بتاتا ہے جو کہ صدیوں کے سیاسی، معاشی اور معاشرتی ارتقاء کی بنیاد پر ایرانی علاقوں سے کرمان ، سیستان اور پھر برصغیر میں بلوچستان میں آباد ہوئے ہیں۔ ان تمام مصنفین نے بلوچ اقوام کو پیدائشی خانہ بدوش ، بہادر اور سخت جان لکھا ہے۔ یہ ایک ایسی قوم رہی ہے جو شروع سے ہی مختلف سلطنتوں کے زیر عتاب رہی ہے۔ ان اقوام نے معاشی خود مختاری اپنے اونٹ، بھیڑ اور بکریوں کے ریوڑوں سے حاصل کی اور ان کی قالین بافی کی مہارت نے انہیں پوری دنیا میں روشناس کرایا۔ان اقوام کی خانہ بدوشی انہیں ایران کے بختیاری قبائل جیسا بناتی ہے جبکہ ان کا قبائلی نظم ونسق اور روایات انہیں ترکمن قبائل سے ملاتے ہیں۔قبائل میں نام جیسا کہ چاکر ہنجر، گزان اور زندگی بھی ان کی ترک سے نسبت جوڑتے ہیں جبکہ تمن، بولک اور اولس بھی ترکمن اثرات دکھاتے ہیں۔تاریخ دانوں نے بلوچ قبائل کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
1 – مکرانی بلوچ
2 _سلیمانی بلوچ
1 – مکرانی بلوچ:مکران دو الفاظ سے مل کر بنا ہے۔
1 ۔ ماہ یعنی قصبہ
2 کیران یعنی سمندر کا ساحل ایک اور روایت میں ہے کہ مکران فارسی کے الفاظ ماہی خوران سے بنا ہے۔ ماہی کے معنی مچھلی اور خوران کے معنی ہیں کھانے والے ۔ یعنی مچھلی کھانے والا ے ۔ مکر ان کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
1 کیچ مکران
2 ایرانی مکران مکران کا علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جن میں یہ علاقے بہت مشہور ہیں۔
2 کلانچ
1 – گزدان
3 – گوادر
4 ۔ دشت
5 – کچک وادی 6 گش کورندی
7 ۔ درہ ٹانک جو کہ کچھی اور پنجگور کے راستوں میں آتا ہے۔ 8 ٹانک دریا جو کہ کچک اور ر اگائی ندی کے آس پاس بہتا ہے۔بلوچی زبان میں ٹانک پہاڑوں کے بیچ ایسی وادی ہوتی ہے جہاں سے پہاڑی ندی نالے گزرتے ہیں۔ مکران مشرق وسطی اور برصغیر کے درمیان ایک مرکزی گیٹ وے ہے۔ اس کا ذکر شاہنامہ فردوسی میں بھی تفصیل سے درج ہے۔بلوچ اقوام کے دوسرے مراکز میں سراواں اور جھلاواں بھی شامل ہیں ۔ بلوچ زبان میں سر کا مطلب او پر یا شمال کے ہیں اور جھل کا مطلب نیچے یا جنوب ہے۔ جھلاواں کے علاقے میں کلاچی نام کا پہاڑی نالہ بھی موجود ہے۔ اور آس پاس پہاڑی نالوں کو اس علاقے میں کندھی کہا جاتا ہے۔سکران، سراواں اور جھلاواں کے علاوہ کچھی کا علاقہ بلوچ تاریخ کا مرکز رہا ہے۔ تاریخی طور پر یہ علاقہ سیوستان کہا جاتا تھا۔ اس کے دو شہر سبی اور گنداوہ بہت مشہور ہیں ۔ سہی اور گنداوہ سے بلوچ قبائل دریائے سندھ کے قریب ترین علاقوں میں ہجرت کر کے آئے۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ کے مطابق چودھویں صدی عیسوی میں شمال مغربی بلوچستان میں بہت زیادہ سردی آئی اور برف باری بھی ہوئی جس کی وجہ سے بلوچ قبائل نے پہاڑوں سے دریائی سرزمین سندھ کا رخ کیا۔ ٹھٹھہ، حیدر آباد، بکھر ، ڈیرہ جات اور ملتان میں بلوچ اقوام کی ہجرت شروع ہوئی۔
2_سلیمانی بلوچ:
کو ہ سلیمان پر آباد بلوچ قبائل جو کہ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان آباد ہیں ، ان کو سلیمانی بلوچ کہا جاتا ہے۔بهکر داستان لانگ ورتھ ڈیمز کے مطابق بلوچ قبائل کے بزرگ کا نام میر جلال خان تھا اور ان کے
مندرجہ ذیل چار بیٹھے اور ایک بیٹی تھی۔
1 – رند
2 – لاشار
3۔ ہوت
4 – کورائی جتو (بیٹی)کچھ تاریخ دان میر جلال خان کے کچھ اور بیٹوں کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔
علی: اس کے دو بیٹے تھے۔
1 – عمر ( عمرانی)
2 – گزان (گزان مری)
جب میر جلال خان فوت ہوئے تو رند کو ان کا وارث بنایا گیا لیکن رند کے تمام بھائیوں نے اس کی مخالفت کی اور ہر بھائی نے علیحدہ سے اپنی سرداری کا اعلان کر دیا۔رند سے آگے مندرجہ ذیل قبائل بنے۔
1 – مری
2 – بگٹی
3- مزاری
4- دریشک
5- لنڈ
6- لغاری
7- کھوسہ
8۔ تکانی
9- بزدار
لا شار قبائل سے مندرجہ ذیل قبائل آگے آئے۔— جن کا نی/ جسکانی Jiskaniمگسی Magsi کچھ بلوچ قبائل کے نام مکران اور بلوچستان کی وادیوں سے بھی منسوب ہیں ۔
1 کلاچی
2 – دشتی
3- گمش کور
4 – گچکی
1-کلاچی
کلاچی قبائل کا نام مکر ان کی وادی کلانچ سے آیا ہے اور اسی وادی کی نسبت سے انہیں کلاچی کہا جاتا ہے اور اس قبیلے کے لوگ بھکر میں حسین خان اور کنیری کے علاقوں میں آباد ہیں ۔ حسین خان کلاچی وہی بلوچ سردار تھے جن کے نام پر ڈیرہ اسماعیل خان کے مغرب میں کلاچی بسایا گیا اور ان بھی کے نام پر بھکر میں مختلف دیہات کے نام ھیں۔
2- دشتی
مکران کے علاقے دشت کی وجہ سے ان قبائل کو "دشتی” یا "دستی قبائل کہا جاتا ہے۔ ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ کے علاقوں میں ان قبائل کو دستی قبائل کہتے ہیں۔
3 – گشکور :
مکران میں ”گش کور نام کی ندی موجود ہے اور اسی نام سے ”گشکوری قبیلہ بھی ایک بلوچ قبیلہ ہے جس کے افراد ضلع لیہ اور ضلع بھکر میں آباد ہیں۔
4۔ گچکی:
تیکی قبائل بلوچستان میں آباد ہیں۔
حوالہ جات:
1. The Baloch Race by Long Worth Dames, 1904.
2. Shahnama-e-Firdousi
3. District Gazetteer of Sarawan, Kachhi and Jhalawan, by C.F Michin Major
Makran District Gazetteer by Ralf Buller. 4
5. Gazetteer of Dera Ghazi Khan
6. Gazetteer of Muzaffargarh District
Gazetteer of Dera Ismaeel Khan .7.
ساتواں باب
آٹھواں باب
بھکر
بھکر نام کے متعلق تین روایات ملتی ہیں ۔
1۔ بکھر سندھ سے سومرہ خاندان کے کچھ لوگ سندھ میں اپنے اقتدار کے خاتمے کے
بعد موجود بجکر میں آبسے اور انہوں نے اسے جگر کا نام دیا۔
2۔ اُچ شریف سے جب سادات نے بلوٹ شریف اور عیسی خیل کے لیے براستہ دریائے سندھ سفر کیا تو انہی سادات میں سے کچھ باکھری سادات اس بھکر میں آباد ہوئے اور انہوں نے اپنے بزرگوں کے وطن ” بکھر“ کے نام پر اس جگہ کا نام ” بکھر رکھا جو بکھر سے جکڑ کہلایا جانے لگا۔ اس بھکر کے قدیم محلہ ملکانوالہ میں مخدوم سید محمد راجن شاہ بخاری کے پوتے سید حسن جہانیاں بخاری دفن ہیں۔ بھکر کے علاقے میں سادات گھرانوں کی پذیرائی تمام بلوچ قبائل نے کی اور انہیں اپنے روحانی پیشوا کا درجہ دیا۔ اس علاقے کی زرخیز زمینیں بھی سادات گھرانوں کو عقیدت کے لیے انہی قبائل نے دیں اور سکھر بکھر سے لے کراچ شریف اور پھر بھکر تک کی تاریخ میں یہی قبائل ایک دوسرے کے شانہ بشانہ رہے
ہیں۔
3 ۔ میر چاکر اعظم کی اولاد میں سے ایک سردار میر بلوچ خان تھے جنہوں نے مغل بادشاہ شاہ جہان کے دور حکومت میں علاقہ بھکر و منکیر ہ پر حکومت کی تھی۔ میر بلوچ خان کے ایک فرزند کا نام بھکر خان تھا جن کے نام پر بلوچ خان نے بھکر شہر آباد کیا تھا۔ اور رفتہ رفتہ یہ شہر منکیرہ اور دریا خان سے بھی بڑا شہر بن گیا اور دریائے سندھ کے ساتھ موجود زرخیز زمینوں کی وجہ سے یہ اس علاقے کا مشہور تجارتی مرکز بن گیا۔
جسکانی خاندان :
ملتان میں جب لنگاہ حکومت کمزور ہوئی تو ہر علاقے کے گورنر نے اپنی عملداری کا اعلان کرنا شروع کر دیا۔
اس وقت غازی خان دوم نے جن کا نام جہان خان تھا، نے تمام تھل پر اپنا قبضہ کر لیا اور بجکر و ھل کا علاقہ امیر رند بلوچ کو دے دیا۔ امیر رند بلوچ میر چاکر اعظم رند کی تیسری پشت میں سے تھا۔امیر رند بلوچ کی وفات کے بعد غازی خان نے علاقہ بھکر و پھل کو امیر رند بلوچ کے خاندان کی بجائے کسی اور سردار کو دے دیا۔ امیر رند بلوچ کے بھائی داؤدخان نے بغاوت کردی۔ داؤد خان نے بہل اور کروڑ کے آس پاس کے بلوچ قبائل کو ملا کر واڑہ مشکوری کے جنگل کو اپنا مستقر بنایا اور گوریلا جنگ کے ذریعے ڈیرہ غازیخان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے دونوں صوبہ داروں کو تنگ کیا۔دونوں صوبہ داروں نے مغل بادشاہ اکبر کے پاس وفد بھیجے اور مغل افواج کی مدد سے داؤ دخان کو شکست دی گئی ۔داؤد خان اور مغلیہ فوج کے درمیان مڑھا نوالی میں جنگ ہوئی اور داؤد خان کے مارے جانے کے بعد انہیں وصیت کے مطابق مقبرہ راجن شاہ سے متصل قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔
بلوچ خان امیر رند کا بیٹا تھا اور تاریخ دانوں کے مطابق اس نے مغل بادشاہ شاہ جہاں کے دور حکومت میں 1634ء میں قندھار کی فتح میں کردار ادا کیا تھا۔ اس کے بعد 1649ء، 1652ء اور 1653ء کے مغل حملوں میں جو قندھار پر کیے گئے تھے، میں بھی بلوچ خان اپنے قبائل کے ساتھ شامل ہوا تھا۔
بلوچ خان کی نسل ان بیٹوں سے چلی جن کے نام سے قبائل اب بھی موجود ہیں۔ بلوچ خان کی سب سے بڑی اولا د میں بیٹی تھی جس کا نام ملائم بی بی تھا۔ بلوچ خان کے بیٹوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
1 ۔ جسکت خان جسک خان۔ جسکانی نسل کا بانی
2 لشکر خان ۔
شکرافی خان ۔
3 – مده خان نوراخان – مند رانی اور نورانی بلوچ
4 – کندن خان
کندانی بلوچ
5 کو بیچ خان۔
کچانی بلوچ
6 – محمد خان ۔
ممدانی بلوچ
7۔ شہانہ خان ۔
شہانی بلوچ
8 ۔مورخان۔
مورانی بلوچ
تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان کے مصنفین نے سرگانی قبیلہ کو بھی بلوچ خان کی اولا دلکھا ہے جبکہ بعض تاریخ دان سرگانی قبائل کو دریشک قبیلے کا حصہ مانتے ہیں جو کہ راجن پور میں بھی
آباد ہیں۔
بلوچ خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں میں دستار پر تکرار ہوئی اور پھر قبائل کےبڑوں نے ملائم بی بی کے شوہر عبد اللہ خان میرانی کو سردار چنا ۔ اسی عبداللہ خان میرانی نے بھکر کے شمال مشرق میں ایک قلعہ بنوایا جو کہ اب دلیوالہ کے نام سے مشہور ہے ۔ عبداللہ خان میرانی نے یہ قلعہ 1670ء میں بنوایا اور اس کا نام کوٹ عبد اللہ خان رکھا تھا۔ بعد میں
وقت کے ساتھ ساتھ یہ کوٹ عبد اللہ خان سے دلے والا میں تبدیل ہو گیا۔ عبداللہ خان میرانی کی وفات کے بعد جسک خان (جسکت خان جسکانی) سردار چنے گئے۔ جسک خان اور ان کی اولاد نے یکے بعد دیگرے اس ترتیب میں بھکر اور تھل پر
حکومت کی ۔
1 ۔ جسکت خان جسکانی
2۔سلطان خان جسکانی
3 نواب لدھوخان
4 ۔ نواب محمود خان
5۔ نواب احمد خان
6 نواب شہباز خان
,1713, 1700
1724 1713
,1730, 1724
,1739 1730
1747 1739
1757 1747
7 نواب بلوچ خان ثانی
,1768 1757
بلوچ خان ثانی کے بعد ان کے بھتیجے فتح خان جسکانی کو سردار بنایا گیا۔ فتح خان جسکانی نے بھکر اپنے بیٹے نصرت خان کے حوالے کیا اور خود منکیرہ میں رہنے لگا۔
فتح خان جسکانی کی وفات کے بعد اس کے دونوں بیٹے بہت چھوٹے تھے۔ اس لیے فتح خان جسکانی کے وزیر حسن خان لکانی نے زمام اقتدار خود سنبھال لی۔ حسن خان اسکانی بلوچ خان کے لڑکے لشکر خان کی اولاد میں سے تھا۔
لشکر خان کی اولا د شکرانی السکرانی کہلاتی تھی ۔ ضلع لیہ میں اب بھی اسکانی والا علاقہ اسی آپ ہی کی سر پرستی میں اُچ گل امام کے آس پاس تین قلعے بنائے گئے جن کے نام درج ذیل ہیں۔
چاندنه
ہزارہ
سونی
آپ نے دریائے چناب سے تھل کے علاقے میں نہریں بھی بنوائیں۔اس نئی ریاست کی اطلاع جب والی کابل تیمور شاہ کو ملی تو اس نے حیات خان جسکانی کے نام ایک پیغام بھیجا کہ وہ فوراً گل امام پر لشکر کشی کرے اور سید گل محمد کو قید کر کے کابل بھیجوائے۔حیات خان جسکانی نے والی کابل کے کہنے پر گل امام پر لشکر کشی کی ۔ حیات خان جسکانی کی فوج کی اکثریت بلوچ قبائل پر مشتمل تھی جنہوں نے گل امام کے سادات سےجنگ کرنے کو گناہ کہا اور حیات خان جسکانی کو چھوڑ کر سادات گل امام سے جاملے۔ حیات خان جسکانی نے منکیرہ واپس آکر دوبارہ لشکر کشی کی تیاریاں شروع کر دیں کیونکہ
اس پر شہنشاہ کا بل کا دباؤ تھا۔
قلعہ منکیرہ میں ہی ایک بلوچ سردار گولہ خان سرگانی نے اسے ساتھیوں کی مدد سے قتل کر دیا اور سرگانیوں نے قلعہ منکیرہ پر قبضہ کر لیا۔
محمد خان جسکانی:
حیات خان جسکانی کے قتل کے بعد بھکر میں ان کے بھائی محمد خان جسکانی کی دستار بندی کروائی گئی ۔ محمد خان جسکانی نے ایک لشکر کے ساتھ دیوان لدھا رام کو منکیرہ پر حملے کےآپ ہی کی سر پرستی میں اُچ گل امام کے آس پاس تین قلعے بنائے گئے جن کے نام
درج ذیل ہیں۔
چاندنه
ہزارہ
سونی
آپ نے دریائے چناب سے تھل کے علاقے میں نہریں بھی بنوائیں۔
اس نئی ریاست کی اطلاع جب والی کابل تیمور شاہ کو ملی تو اس نے حیات خان جسکانی کے نام ایک پیغام بھیجا کہ وہ فوراً گل امام پر لشکر کشی کرے اور سید گل محمد کو قید کر کے کابل
بھیجوائے۔
حیات خان جسکانی نے والی کابل کے کہنے پر گل امام پر لشکر کشی کی ۔ حیات خان جسکانی کی فوج کی اکثریت بلوچ قبائل پر مشتمل تھی جنہوں نے گل امام کے سادات سے
جنگ کرنے کو گناہ کہا اور حیات خان جسکانی کو چھوڑ کر سادات گل امام سے جاملے۔ حیات خان جسکانی نے منکیرہ واپس آکر دوبارہ لشکر کشی کی تیاریاں شروع کر دیں کیونکہ
اس پر شہنشاہ کا بل کا دباؤ تھا۔
قلعہ منکیرہ میں ہی ایک بلوچ سردار گولہ خان سرگانی نے اسے ساتھیوں کی مدد سے قتل کر دیا اور سرگانیوں نے قلعہ منکیرہ پر قبضہ کر لیا۔
محمد خان جسکانی:
حیات خان جسکانی کے قتل کے بعد بھکر میں ان کے بھائی محمد خان جسکانی کی دستار بندی کروائی گئی ۔ محمد خان جسکانی نے ایک لشکر کے ساتھ دیوان لدھا رام کو منکیرہ پر حملے کےلیے بھیجا کیونکہ سرگانیوں کے پاس فوج کی کمی تھی ، اس لیے وہ منکیرہ سے بھاگ کر نواں کوٹ کے قلعے پر قابض ہو گئے اور وہاں سے قلعہ منڈا میں جاہے۔ دیوان لدھا رام نے قلعہ منڈا پر حملہ کیا اور یہاں سرگانی اقوام نے قلعہ سے باہر نکل کر جسکانی افواج کا مقابلہ کیا۔ گوله خان سرگانی اس لڑائی میں مارا گیا۔
سرگانی اقوام کو شکست ہوئی اور اس کے بعد محمد خان جسکانی نے انہیں منڈا اور شیر گڑھ کے علاقے بطور جاگیر د یے تا کہ وہ بھکر اور منکیرہ میں کوئی بغاوت نہ کر سکیں۔
حوالہ جات:
4 ۔ تاریخ لیہ 5- تاریخ منکیرہ
1. Gazetteer of Dera Ismaeel Khan
2. Gazetteer of Mianwali District
3. Gazetteer Jhang District
6. Gazetteer of Dera Ghazi Khan
تاریخ معصومی ( سیدمحمد معصوم با کھری)
8 – تحفتہ الکرم از سید میر علی قانع ٹھٹھوی
نواں باب
کلہوڑا حاندان
سندھ کے کلہوڑا خاندان کے آخری حکمران میاں عبدالنبی کو تالپوروں نے 1782ء کی جنگ بہالانی میں شکست دے کر سندھ کے تخت و تاج سے محروم کر دیا۔ میاں عبدالنبی نے خاں قلات اور کاہل کی امداد سے سندھ پر قبضہ کرنے کی بڑی کوششیں کیں لیکن تالپورون نے انہیں ہر جگہ شکست فاش دی۔
1787ء میں نصرت خان سرگانی نے میاں عبدالنبی سرائی کولیہ، منکیر ہ اور بھکر پر حملے کی دعوت دی کیونکہ سرگانی قبائل جسکانیوں سے شکست کا بدلہ چکانا چاہتا تھا کیونکہ جسکانیوں نے گولہ خان سرگانی کو مارا تھا۔ کچھ تاریخ دانوں کے مطابق 1767ء میں ہی ڈیرہ جات کے علاقے احمد شاہ درانی نے حاکم سندھ غلام شاہ کلہوڑا کو دے دیے تھے اور میاں غلام شاہ کلہوڑا نے ڈیرہ اسماعیل خان ، ڈیرہ غازی خان ، لیہ اور بھکر و منکیرہ کو ریاست سندھ میں شامل کر رکھا تھا۔ اور میاں غلام شاہ کلہوڑا نے ہی محمود خان گجر کو ڈیرہ غازی خان میں اپنا وزیر مقرر کیا تھا۔ ای محمود خان گجر نے نادر شاہ ایرانی کے حملے کے وقت تک اس علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کر رکھا تھا۔ اس محمود خان گجر نے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر اپنے نام کاشہر بسایا اور اسے محمود کوٹ“ کا نام دیا۔ میاں عبدالنبی کا ہوڑا کو عید النبی سرائی بھی کہا جاتا ہے۔ ان کا لیہ دبجکر میں اقتدار 1787ء سے لے کر 1793 ء تک کا ہے۔ سندھ میں شمال کے علاقے جہاں سرائیکی بولی جاتی ہے، انہیں سرا کہتے ہیں اور یہاں کے رہنے والے سرائی مشہور ہوئے ہیں کیونکہ ڈیرہ جات کی حکومت کے دوران عبدالنبی سرائی یہاں رہے۔ اس لیے انہیں عبدالنبی کلہوڑا کی بجائے عبدالنبی سرائی لکھا جاتا رہا ہے ۔ 1793ء میں والی کابل تیمور شاہ فوت ہو گیا اور اس کا بیٹا زمان شاہ تخت نشین ہوا ۔ زمان شاہ نے عبدالنبی کلہوڑا کو ڈیرہ جات کی گورنری سےمعزول کر کے محمد خان سدوزئی کولیہ بھکر کی سند عطا کی۔ لیہ میں ہوئی جنگ میں میاں عبدالنبی کلہوڑا کے فرزند میاں عارف کالہوڑا افغان سپاہیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ ان کا مزار یہ شہر میں موجود ہے جو کا ہوڑا دور کے فن تعمیر کو ظاہر کرتا ہے۔ میاں عبدالنبی کلہوڑا نے اپنی زندگی کے آخری ایام راجن پور کے علاقے حاجی پور میں گزارے اور آپ وہیں اپنی جاگیر میں دفن ہوئے ہیں۔
حوالہ جات:
1 ۔ تاریخ سندھ عہد کلہوڑا 2 تحفة الكرم
تاریخ ملتان از مولانا نور احمد فریدی
4. Gazetteer of Dera Ghazi Khan District 5. Gazetteer of Muzaffargarh District 6. Gazetteer of Dera Ismaeel Khan District 7. Gazetteer of Mianwali District
8- تاریخ لیہ
9 تاریخ ریاست منکیرہ
دسواں باب
سدوزئی حکومت
1793ء میں تیمور شاہ کی وفات کے بعد ان کا بیٹا زمان شاہ قندھار پر بادشاہ بنا اور 1796ء میں زمان شاہ نے ایک شاہی سند کے ذریعے محمد خان سدوزئی کو سندھ ساگر دو آب کلورکوٹ سے لے کر محمود کوٹ اور چناب سے لے کر سندھ دریا تک کا گورنر بنادیا۔ زمان شاہ کے بھائی ہمایوں نے بھائی کے خلاف بغاوت کی اور جنگ میں ہمایوں کو شکست ہوئی اور وہ درہ گومل کے راستے ڈیرہ اسماعیل خان آیا۔ نتکانی قبیلہ کے ایک سردار مسوخان مکانی نے اسے ڈیرہ فتح خان کے راستے سے دریائے سندھ پار کروایا اور لیہ کے پاس بھجوا دیا۔ لیہ سے پندرہ میل مشرق میں فتح پور کے قریب ہمایون کو نواب محمد خان سروز کی نے گرفتار کر لیا۔ نواب محمد خان سدوز کی ہمایوں کو گرفتار کر کے لیہ آیا اور زمان شاہ کواطلاع دی۔
زمان شاہ نے فرمان جاری کیا کہ ہمایوں کی آنکھیں نکال دی جائیں اور اس کے ساتھیوں کو قتل کر دیا جائے۔
محمد خان سدوزئی نے ہمایوں کی آنکھیں نکال کر اسے منکیرہ کے قلعے میں قید کر دیا۔ اسی قلعے میں قید میں ہی ہمایوں کا انتقال ہوا اور یوں تاج کابل کا ایک دعوے دار سرزمین تھل میں دفن ہوا۔
والی کابل نے نواب محمد خان سدوزئی کو نواب سر بلند خان کا لقب دیا اور دریائے سندھ کے مغربی علاقہ کو ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ان کی عمل داری میں دے دیا۔ یوں خیسور پہاڑ سے سانگھڑ ( تونسہ ) تک کا علاقہ آپ کے پاس آ گیا۔نواب محمد خان سدوزئی نے دیوان مانک رائے کو ڈیرہ اسماعیل خان اور دامان کا گورنر بنایا اور بھکر اور لیہ کا انتظام خود سنبھالا اور منکیرہ کو اپنا صدر مقام بنایا۔ دامان میں گنڈہ پوروں اور میاں خیل قبائل نے سروز کی کی اطاعت سے انکار کردیا اور مالیہ دینے سے انکار کر دیا۔ نواب آف ٹانک سرور خان کئی نبیل بھی ان باغیوں میں شامل ہو گئے۔ 1813ء میں نواب محمد خان سدوز کی نے دیوان مانک رائے کی قیادت میں لشکر بھیجا اور مانک رائے نے میاں خیل علاقے پر بھی قبضہ کر لیا اور گنڈہ پوروں کو بھی مڈی کے مقام پر شکست دی۔ اور کلاچی شہر کو آگ لگوا دی گئی ۔ مانک رائے نے عیسیٰ خیل اور کالا باغ تک کے علاقوں کو اپنے تصرف میں لے لیا اور یوں منکیرہ ڈیرہ جات کا مرکزی صدر مقام بن گیا۔ 1815ء میں نواب محمد خان (سربلند خان) کا انتقال ہوا اور انہیں قلعہ منکیرہ میں دفن کیا گیا۔
نواب حافظ احمد خان سدوزئی:
نواب محمد خان سدوزئی کی وفات کے بعد ان کا داماد نواب احمد خان سدوز کی منکیرہ کا نیا والی بنا۔والی بننے کے بعد ان سے سکھوں نے خراج کا مطالبہ کیا اور انکار پر سکھوں کی فوج نے دیوان مانک رائے کی ملی بھگت سے ڈیرہ اسماعیل خان پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد سکھ افواج نے بجکر ، لیہ، خان گڑھ اور محمود کوٹ کے قلعوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ 1818ء کی خون ریز جنگ کے بعد سکھوں نے ملتان پر بھی قبضہ کر لیا۔ نواب احمد خان سدوزئی نے اس موقع پر نواب مظفر خان سدوزئی کی کوئی امداد نہ کی اور 1821ء میں سکھ افواج نے منکیرہ قلعے کا محاصرہ کر لیا۔
نواب احمد خان سدوزئی حاکم منکیرہ کے فوج میں شامل ایک کمانڈ رسردار خان با دوز کی نے قلعہ سے باہر نکل کر دو بدو جنگ کا مشورہ دیا مگر نواب نے قلعے کے اندر محصور رہ کر ہی حفاظتی جنگ لڑنے کو ترجیح دی۔ سکھ فوج نے تھل کے بعض لوگوں کی امداد کے بل بوتے پر منکیرہ کے آس پاس موج گڑھ کے ریگ زار میں کنویں کھود کر پانی کا بندوبست کر لیا اور اونٹوں کے ذریعے یہ پانی سکھ فوج تک پہنچایا جانے لگا۔ سکھ فوج نے قلعے پر گولہ باری کی جس کی وجہ سے قلعہ کی جامع مسجد کے مینار گر گئے۔ کچھ ابن الوقتوں نے یہ پھیلا دیا کہ مسجد کے میناروں کا گرنا ایک بدشگونی ہے اور سکھ افواج کو کوئی بھی نہیں ہرا سکتا۔ آخر نواب احمد خان سدوز کی نے ڈیرہ اسماعیل خان کی جاگیر کے بدلے منکیر و قلعہ کو سکھوں کے حوالے کر دیا اور یوں یہ علاقے سکھوں کی عملداری میں آگئے ۔ سکھوں سے یہ علاقے انگریزوں نے اپنے قبضے میں لیے اور پھر ان کی سیٹلمنٹ ( بندوبست) کیا گیا اور مختلف موضع جات بنائے گئے۔
قلعہ حیدر آباد پر سکھوں کا حملہ :
رنجیت سنگھ کے جرنیل ہری سنگھ نلوہ نے جب حیدر آباد تھل پر حملہ کیا تو ان دنوں یہ قلعہ نورنگ خان بلوچ کے پوتے اور خوشحال خان بلوچ کے بیٹے حیدر خان بلوچ کے پاس تھا.جس نے اس کا نام حیدر آبا در کھا تھا۔ یہاں بلوچ اقوام نے سکھ لشکر کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قریب تھا کہ سکھ لشکر شکست کھا کرپسپا ہو جاتا لیکن کچھ مقامی قبائل نے رنجیت سنگھ کی فوج کی امداد کی اور قلعہ کے خفیہ راستوں تک سکھ فوج کو رسائی دی۔ اسی وجہ سے حیدر خان بلوچ اس جنگ میں مزاحمت کرتا ہوا مارا گیا اور سکھوں نے تھل میں آخری مزاحمت بھی کچل کر کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ پورے پنجاب پر سکھ راج قائم ہو گیا۔ حیدر خان بلوچ سے پہلے اس قلعہ کو اموانی قلعہ کہا جاتا تھا۔ حیدر آباد تھل میں لگسی ہمرہ اور چھینہ قبائل آباد ہیں۔
حوالہ جات:
1 – تاریخ پنجاب از کنبیا لال
2- تاریخ ملتان
5 تاریخ سرزمین گومل 6 – تاریخ ریاست منکیرہ 7- تاریخ لیہ
3. Gazetteer of Dear Ismaeel Khan
4. Gazaetteer of Mianwali District
8 ۔ تاریخ جھنگ
9. Gazetteer of Jhang District
گیارہواں باب
انگریز اور ٹکر کی
بند و بست رپورٹ 1879ء
شروع میں انگریزوں نے بھکر کو ڈیرہ اسماعیل خان میں شامل کیا۔ 1879ء کی ٹکر کی بند و بستی رپورٹ میں دریائے سندھ کے ساتھ والے علاقوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔
1 ۔ ٹرانس انڈس Trans Indus :
ان میں ڈیرہ اسماعیل خان ، ٹانک اور کلاچی کے علاقوں کو شامل کیا گیا۔
2 کس انڈس Cis Indus
اس میں بھکر اور لیہ کو شامل کیا گیا۔ ٹکر کی بندوبستی رپورٹ میں ہے کہ کسی زمانے میں تجارتی کشتیاں ڈیرہ اسماعیل خان سے سکھر کے درمیان چلتی تھیں جن سے اچھی خاصی علاقائی تجارت ہوتی تھی۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کلاچی کسی زمانے میں پاؤندہ قبائل کی تجارت کا مرکز تھے۔ ان کے قافلے خراسان سے سامان تجارت ہندوستان لاتے تھے اور ہندوستان سے اشیاء خراسان کے شہروں میں جاتی تھیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور دریا خان کے درمیان کشتیوں کا پل 1873ء میں بنایا گیا جس سے مقامی آبادی کو بہت آسانی ہوئی اور پاؤندہ تجارتی قافلوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہو گیا۔ تجارتی سامان سے لدے ہوئے اونٹ اسی کشتیوں کے پل سے دریا کے آر پار جاتے تھے۔ انگریزوں نے ڈیرہ اسماعیل خان سے جھنگ کے لیے میل کارٹ بھی شروع کی جو براستہ کوٹلہ جام بھکر ، جہان خان،
سرائے کرشنا، منگیر اور حیدر آباد سے جھنگ جایا کرتی تھی۔ان وقتوں میں جو پتین دریا کے کنارے مشہور تھے ، ان میں مور جھنگی ، ڈیرہ فتح خان اورکا نجن پتن شامل تھے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے جہلم کے لیے میل کارٹ براستہ کوٹلہ جام، دریا خان، تھلہ سریں، نواں جنڈ انوالہ اور مٹھہ ٹوانہ سے ہوتے ہوئے جہلم تک چلاتی تھی اور اس طرح ان
خطوں کے بیچ ایک روابط کا جدید نظام قائم ہوا۔
قدرتی طور پر ضلع بھکر دو حصوں میں تقسیم کیا جتا ہے۔
1 – کچھی ( کچہ علاقہ )
2 تھل
سرائیکی میں بغل کو کچھ کہتے ہیں اور اس علاقے کو دریائے سندھ کے قریب ترین ہونے کی وجہ سے” کچھی کہا جاتا ہے۔ کچھ مصنفین کے خیال میں کچھی کا نام ان بلوچ قبائل نے اسے دیا جو بلوچستان کے علاقے "سبی Sibi سے یہاں آئے تھے کیونکہ سبی اور آس پاس کے علاقے کچھی کہلاتے تھے۔انگریزوں نے کچھی کے علاقے کی حد بندی کی اور اس کے جیولوجیکل سروے بھی کیے۔ بندوبستی رپورٹ کے مطابق کچھی کا علاقہ کلورکوٹ سے لے کر مظفر گڑھ کے ان علاقے تک ہے جو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ہیں۔ تاریخ میانوالی کے مصنف نے میانوالی کا پرانا نام بھی کبھی بتایا ہے جو کہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہوا تھا۔ کچھی کے تمام علاقے میں فصلوں اور کاشت کاری کا انحصار دریائے سندھ سے نکلنے والے دریائی ندی نالوں اور وہیروں پر تھا۔ ان کو مقامی زبان میں کندھی کہتے ہیں اور ان کے آثار آج بھی کچھی کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان کندھیوں کے کنارے کی زمین ہزاروں سالوں سے لائی دریائی اور پہاڑی زرخیز مٹی سے بنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لیہ کے پہلے ڈپٹی کمشنر نے 1849ء میں اس علاقے کو ہندوستان کا کیلی فورنیا کہا تھا۔ انگریز بستی رپورٹ میں اس وقت کی کندھیوں کی
تفصیل ان ناموں سے ملتی ہے۔
یوزل:
دریائے سندھ سے نکلتی سب سے بڑی کندھی کا نام پوزل تھا جو سب کندھیوں سے حجم میں بڑی تھی اور اس کا پانی پورا سال بہتا تھا۔ پوزل اکثر تین یا چارشاخوں میں تقسیم ہو کرلیہ کی حدود میں دوبارہ دریائے سندھ میں شامل ہو جایا کرتی تھی۔ پوزل کے دوسرے علاقائی ناموں میں اسے لالہ اور بود و بھی کہا جاتا تھا۔
لیہ کے علاقے کوٹ سلطان میں اس لالہ نام کی کندھی پر بند باندھ کر نہریں بھی نکالی گئی تھیں جن سے کاشت کاری کی جاتی تھی ۔ ان کندھیوں کے کنارے جھلاروں کے ذریعے
پانی نکال کر کاشت کاری کی جاتی تھی۔ کچھی کا علاقہ بہت زرخیز اور سرسبز ہوا کرتا تھا۔ اس کے آدھے علاقے پر کاشت کاری اور آدھے پر جنگلی نباتات تھیں اور دریائی کندھیوں کے آس پاس لیاٹ کے جنگل تھے
جنہیں لائی بھی کہتے ہیں اور اسی نام سے لیہ مشہور ہوا۔
کچھی میں کھجور کے درخت بہت زیادہ بہتات میں ان علاقوں میں ہیں۔
کوئلہ جام
در یا خان
بھکرنوتک
بارہواں باب
باکھری سادات بکھر سندھ کے وہ سادات خانوادے جو پہلے بکھر سے اُچ شریف میں آباد ہوئے اور وہاں سے بھکر آئے ، ان کو باکھری سادات کہا جاتا ہے۔گو کہ یہ نقوی سادات سلسلہ کے ہیں لیکن بکھر کی نسبت سے انہیں باکھری سادات کا نام دیا گیا ہے۔ ضلع بھکر کے اکثر زرخیز علاقوں میں ان سادات کو بخاری سادات کے ساتھ جاگیریں دی گئیں۔محکمہ مال کی کتابوں میں ان سادات کو بھا کری سادات لکھا جاتا ہے۔ ان باکھری سادات کو بھکر اور لیہ کی حدود کے اتصال کے مقام بیٹ ہوگھا میں جاگیر عطا کی گئی۔ برٹش آفیسر جارج فکر کی بندوبستی رپورٹ کے مطابق بیٹ بوگھا میں موجود سادات کی زمینوں سے ٹیکس اور مالیہ کی وصولی بھی نہیں کی جاتی تھی۔ان سادات میں سے ایک بزرگ کا نام سید نور عالم شاہ باکھری تھا جن کے نام پر بستی نورشاہ بہائی گئی۔ اور کچھ بزرگوں کے مطابق انہیں سادات میں سے ایک سید کو بوگھا شاہ کہا جاتا تھا جن کے نام سے یہ علاقہ بیٹ بوگھا مشہور ہوا۔
سید نور عالم شاہ :
آپ بیٹ ہوگھا کے سادات کے مورث اعلیٰ ہیں۔ آپ تین بھائی تھے جو کہ بھکر کے مختلف علاقوں میں آباد ہوئے۔
سیدنور عالم شاہ سید رضا علی شاہ المعروف رضائی شاہ سید سکھا شاہ کچھ سادات بزرگ یہ بتاتے ہیں کہ سید نور عالم ، سید رضا علی اور سید سکھا شاہ آپس میں چا زاد بھائی تھے لیکن بلوٹ شریف اور اُچ میں موجود ملفوضات میں یہ تین بھائی درج ہیں ۔ سید نور عالم شاہ کے دوفرزند تھے جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔
سید قائم دین شاہ باکھری سید یوسف شاہ باکھری سید نور عالم شاہ کے فرزند سید قائم دین شاہ کے نام پر بیٹ ہوگھا کے مغرب میں ایک قصبہ آباد ہوا جس کو دین پور کہا جاتا ہے۔ دین پور میں بھی باکھری سادات آباد ہیں۔ سید نور عالم شاہ کے دوسرے فرزند سید یوسف شاہ کے نام پر دو قصبے آباد ہیں جن کے نام یوسف شاہ شرقی اور یوسف شاہ غربی ہیں اور ان علاقوں میں سادات کی زمینیں ہیں۔ سید نور عالم شاہ وفات کے بعد راجن شاہ مقبرہ کے شمال میں موجود باکھری قبرستان میں دفن ہوئے تھے۔ ان کے فرزند اور اولاد میں سے باقی بھی افراد کی قبریں اسی قبرستان میں موجود ہیں ۔سید نور عالم کی والدہ بلوٹ کے بخاری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور شاہ عیسی بلوٹی کی ہوتی تھیں۔
سید رضا علی المعروف رضائی شاہ:
سیدرضا علی شاہ بھی بھکر کے سادات کے بزرگ تھے ۔ آپ سید نور عالم کے بھائی تھے۔ آپ رضائی شاہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام سید حاجی شاہ تھا۔ سید رضا علی کے ننہال بلوٹ شریف کے بخاری سادات تھے۔ آپ کی والدہ سید علیم شاہ بخاری آف بلوٹ شریف کی صاحبزادی اور سید شاہ عیسی بلوٹی کی پوتی تھیں۔ بخاری خاندان سے باکھری سادات کی نسل در نسل رشتہ داری بکھر سندھ سے شروع ہوئی اور آج بھی بھکر اور آس پاس کے علاقوں میں باکھری اور بخاری ایک دوسرے کے قریبی رشتہ دار ہیں ۔ بلوٹ کے ایک بزرگ کے مطابق اچ شریف سے لے کر بھکر اور اچ گل امام سے بلوٹ شریف تک یہ
دونوں خانوادے ایک دوسرے کے ساتھ رہے ہیں۔سید رضا علی شاہ کی زمینیں کچھ کے زرخیز علاقوں میں بھی تھیں اور انہیں جہان خان کے آس پاس بھی زمینیں دی گئی تھیں۔ جہان خان کے علاوہ تھل میں خان پور، تنگے والا ، جیون شاہ والا فضل شاہ والا میں بھی ان کی اولاد کی زمینیں ہیں۔سید رضا علی شاہ نے نو تک سے دوکلومیٹر مغرب میں اپنے ڈیرے کی بنیاد رکھی جس کا نام رضائی شاہ انہی کے نام پر رکھا گیا۔
دریائے سندھ کی کندھی کے کنارے پر قصبہ آباد ہوا اور مشہور ہے کہ کسی زمانے میں مغرب سے آنے والی کشتیاں اور مشرق سے مغرب کی طرف جانے والی کشتیاں اسی رضائی شاہ سے گزر کر جاتی تھیں۔ رضائی شاہ کے مغرب میں کندانی بلوچ قبیلہ آباد ہے۔ جنوب مغرب میں خنانی اور نہرے والا ہے۔ نہرے والا میں بھی بلوچ قبائل آباد ہیں جن میں سے جمالی اور کچانی زیادہ تعداد میں ہیں۔ یہاں پر طیب خان کچانی کے ڈیرہ گرہ طیب خان سے گریلی بلوچ مشہور ہوئے اور عمر خان کچانی کے نام سے عمریلی مشہور ہیں۔رضائی شاہ کے جنوب میں بھر گل اور موضع چورڑ ہے۔ یہاں بھی بلوچ اقوام کے قبائل آباد ہیں ۔مشرق میں نو تک کا مشہور قصبہ ہے۔ مغرب میں جام، بستی پیراں اور پھلمانہ آباد ہیں ۔ کچھ کے علاقے میں جب سیلاب آتے تھے تو سید رضا علی اپنے کچے کے علاقے سے بھکر کے قریب جا کر رہتے تھے ۔ جہاں ان کی زمینیں کچھ اور تھل میں تھیں ۔ ان کے رہنے کی نسبت سے وہ علاقہ رضائی شاہ شمالی کہلاتا ہے اور وہاں بھی ان کی اولا د کثیر تعداد میں آباد سید رضا علی المعروف رضائی شاہ کا شجرہ نسب یوں ہے۔سید رضا علی شاہ المعروف رضائی شاہ بن سید حاجی شاہ بن سید عبدالغفور شاہ بن سید محمد شاہ بن سید نظام الدین شاہ بن سید محمد شاہ بن سید محمود شاہ بن سید حسن شاہ بن سید شیخ فرید بن سید کمال الدین بن سید ظہور الدین بن سید درویش محمد بن سید فخر الدین بن سید علاؤ الدین بن سید صدرالدین (خطیب سکھر ) بن سید محمد کی( پیر بکھر) سید رضا علی شاہ اپنی وفات کے بعد بلوٹ شریف میں دفن ہوئے ۔ ان کے ایک بھائی سید سکھا شاہ تھے۔ تحصیل دریا خان میں ان کے نام پر ایک موضع سکھا شاہ ہے جہاں حسن شاہ اور جگر اسمیں کے آس پاس ان کی اولا در بہتی ہے ۔ سید سکھا شاہ بھی اپنی وفات کے بعد بلوٹ شریف میں دفن ہوئے تھے۔
تیرہواں باب
در یا خان
یہ بھی دریائے سندھ کے کنارے آباد ہوا شہر ہے۔ تاریخ ریاست منکیرہ کے مصنف کے مطابق یہ شہر مغل بادشاہ بابر کے ایک جرنیل دریا خان نے آباد کیا تھا۔ جب ظہیر الدین بار نے بھیرہ کے علاقے پر قبضہ کیا تو اس کے ایک جرنیل نے ٹوانوں کے علاقہ کو برباد کر دیا تھا۔ اور اسی جرنیل دریا خان نے دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر اپنے نام سے اس شہر کو بسایا تھا۔ لیکن غالب امکان یہ ہے کہ اس کا نام بلوچ قبائل نے اپنے ہیرو دریا خان لاشاری کے نام پر رکھا ہو۔ کیونکہ ٹوانوں کا علاقہ مسلمہ ٹوانا دریا خان سے کافی فاصلے پر واقع ہے اور اتنے فاصلے پر ایک شہر کی آباد کاری اور مغل افواج کی مصروفیت اسے ناممکن بناتی سندھ کی تاریخ کے ہیرو دریا خان لاشاری کا اصل نام قبول خان لاشاری تھا۔ دریا خان کو سندھ کے سمہ خاندان کے حکمران جام نظام الدین سمہ نے اپنا وزیر اعظم بنایا تھا اور جام نظام الدین سمہ اسے اپنا منہ بولا بیٹا کہتے تھے۔ اسی دریا خان نے اراغون لشکر کو درہ بولان کے قریب شکست دی تھی۔ جام نظام الدین نے اپنی وفات کے وقت دریا خان کو اپنی سلطنت کا نگران مقرر کیا تھا اور جام فیروز کو اسی کے حوالے کیا تھا۔دریائے سندھ کے آر پار کے بلوچ اور سندھی قبائل میں دریا خان بہت مقبول ہوا اور اپنی دلیری اور شجاعت کے بل بوتے پر اس نے سمہ سلطنت کے دفاع کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔21 دسمبر 1521ء کو دریا خان لاشاری فتح پور کی جنگ میں مارا گیا تھا۔ در یا خان لاشاری کو ٹھٹھہ میں دفن کیا گیا۔ ٹھٹھہ میں آپ مبارک خان کے لقب سے مشہور تھے۔سندھ میں آج ان کو دولھا دریا خان کہا جاتا ہے۔ ڈیرہ جات میں بلوچ قبائل کی آباد کاری کے وقت بلوچوں نے اپنے اس بہادر جرنیل کے نام پر دریا خان شہر کی بنیا درکھی۔ جو ڈیرہ اسماعیل خان کے سیدھ میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر آباد ہوا اور اب ضلع بھکر کی تحصیل ہے۔
حوالہ جات:
1 – تاریخ ریاست منکیرہ
2. The Indus delta country, by K.Paul Trench, Trubner
3. Makli the Necropolis at Thatha, by Ihsan H. Nadeem
4. Gazetteer of Dera Ismaeel Khan
5. Gazetteer of Dera Ghazi Khan
چودھواں باب
صوفیانہ کلام اورسرائیکی
ادب پر سب سے زیادہ اثر سندھی ادب نے ڈالا ہے۔ حتی کہ سرائیکی کی اکثر لوک داستانیں اور ادبی قصے بھی سندھی ادب سے جڑے ہوئے ہیں۔ سندھی برصغیر کی پہلی زبان ہے جس میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا گیا تھا۔ پیر نورالدین جو کہ ایک اسماعیلی مبلغ تھے، نے 1079ء میں سندھی میں صوفیانہ کلام لکھا تھا۔ پیرنس سبز واری ملتانی نے بھی سندھی میں صوفیانہ کلام لکھا۔ جسے ان کے مریدین نے خوب شہرت دی۔سمہ سلطنت کے دوران 1351 ء سے لے کر 1521 ء تک پورے سندھ میں صوفیاء اور صوفیانہ شاعری کی سر پرستی کی گئی۔ اسی سمہ حکومت کے دوران اُچشریف سے قاضی سعید ابن زین الدین بکھر میں آباد ہوئے ۔ ان کے بیٹے قاضی قران کو بکھر میں قاضی بنایا گیا۔قاضی قران کو بکھر کی نسبت سے قاضی قدان با کھری بھی کہا جاتا ہے۔قاضی قدان سید محمد جونپوری کے پیروکار تھے۔ سندھی ادب میں سب سے پہلے دوہا ( دوہرا ) قاضی قران نے ہی تخلیق کیا۔ ان کے صوفیانہ کلام میں قرآنی تعلیمات اور اسلامی پہلو کود و با اور سورٹھا شاعری کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے۔
شاہ کریم
شاہ کریم کے صوفیانہ کلام کو سب سے پہلے بیان العارفین میں میر دریائی ٹھٹھوی نے 1630ء میں لکھا ہے۔ بیان العارفین میں شاہ عبدالکریم نے اپنے مریدین کی ہدایت کے لیے سات ابواب میں کلام لکھا ہے۔
شاہ کریم 1536 ء میں مٹیاری میں ایک سادات خانوادے میں پیدا ہوئے۔ مٹیاری کا اصل نام مٹ علوی تھا جو بعد میں میاری بن گیا۔ آپ کے آباؤ اجداد ہرات سے امیر تیمور کے ساتھ آئے تھے اور شاہ کریم ساتویں پشت میں سید حیدر کی اولاد میں سے تھے۔ شاہ کریم جو کلام کے مصنف نے ان کا شجرہ نسب یوں بیان کیا ہے۔
شاہ کریم بن سید لعل محمد بن سید عبد المومن بن سید ہاشم بن سید جلال محمد بن سید شرف الدین بن سید میر علی بن سید حیدر ۔سید حیدر 1398 ء میں سندھ میں آباد ہوئے تھے۔شاہ کریم فقیرانہ محفلوں میں بیٹھنے کے دلدادہ تھے اور صوفیانہ کلام کے دلدادہ تھے۔ آپ مخدوم زین الدین آف ٹھٹھہ سے بہت متاثر تھے اور مخدوم نوح کے پیروکار تھے۔ مخدوم نوح وہی صوفی بزرگ ہیں جنہوں نےسندھ میں سب سے پہلے قرآن پاک کا فارسیمیں ترجمہ کیا تھا ۔شاہ کریم نے صوفیانہ کلام بھی ذکر اور سماع کی ان محفلوں سے شروع کیا جن کے وہ شروع ہی سے عاشق تھے۔ شاہ کریم سندھ کے وہ پہلے صوفی شاعر ہیں جنہوں نے لوک روایات کے کردار کا سب سے پہلے ذکر کیا تھا۔ان لوک کردارں میں کسی سوہنی اور ماروی قابل ذکر ہیں۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی :
شاہ عبد اللطیف بھٹائی شاہ کریم کے پوتے تھے ۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ہالہ کے علاقے بھٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش کا سال 1689ء درج ہے ۔ آپ 13 یا 14 سال کی عمر میں سندھ کے صوفی شاعر شاہ عنایت سے ملے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی کو سندھ کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹاآئی مولانا جلال الدین رومی اور ابن العربی سے متاثر تھے۔ اسی وجہ سے کچھ دانشوران کی شاعری کو سندھ کی مثنوی کہتے ہیں ۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی نے صوفیانہ کلام کو میوزک کے ساتھ بیان کرنے کی ابتدا کی۔ان کے صوفیانہ کلام کا نام شاہ جو رسالو ہے۔ شاہ جو رسالو میں سرسوراٹھ کے نام سے ایک باب موجود ہے جو موسیقی کے آلات پر پڑھا اور سنایا جاتا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی کو بر صغیر کا پہلا ذاکر کہا جاتا ہے جنہوں نے کربلا کے واقعات کو سر کے ساتھ پڑھا اور شاہ جو رسالو میں کربلا کے واقعات کے متعلق ایک مکمل تفصیل درج ہے۔ شاہ جو رسالو میں بھٹائی نے سر کیدارو کے نام سے واقعات کربلا کو بیان کیا ہے۔ کیدار و — سندھی میں میدانِ جنگ کو کہتے ہیں۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے سندھی میں سب سے پہلے مرثیہ لکھا اور ان کے کلام کو اور بہت سے لوگوں نے اپنایا اور مرثیے کا رواج برصغیر میں مقبول ہوا۔سر کیدارو میں شاہ عبداللطیف بھٹائی نے واقعات کربلا کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ان حصوں کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1 – محرم کی آمد :
سر کیدارو میں پہلا حصہ محرم کی آمد کے متعلق ہے اور اس میں امام حسین کا مدینہ سے مکہ اور کر بلا میں آمد کا تفصیل سے ذکر ہے۔
2 ۔ مظلومیت امام حسین :
سر کیدارو کے دوسرے حصے میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی مظلومیت کا ذکر ہے کہ کیسے ان غریب الوطن مسافروں کو کربلا کے بے آب و گیاہ صحرا میں بے دردی سے شہید
کر دیا گیا۔
3۔ امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شجاعت :
سر کیدارو کے تیسرے حصے میں امام حسین اور ان کے ساتھیوں کی شجاعت اور بہادری کا ذکر ہے کہ کیسے انہوں نے تعداد میں کم ہونے کے باوجود دشمن کے سامنے بہادری اورشجاعت کی داستانیں رقم کیں۔
4 ملکوتی مهمان :
شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سر کیدارو کے چوتھے حصے میں شہدائے کربلا کا اللہ تعالیٰ سے تعلق اور ان کا ملکوتی مہمان ہونے کا ذکر ہے۔ شاعرانہ اور صوفیانہ انداز میں شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ان تمام واقعات کربلا کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ سندھی اور سرائیکی کے شعراء اور ذاکرین واقعات کربلا کو ہر سال محرم میں اسی تفصیل سے بیان کرتے ہیں جس تفصیل سے بھٹائی نے سر کیدارو میں درج کیا ہے۔ محرم کے شروع کے دنوں میں ذاکرین مدینہ سے روانگی ، مکہ میں حج کی نیت اور پھر کر بلا میں آمد پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد تمام شہداء کے بہادری اور شجاعت اور شہادت اور ان کا الہی وعدوں کو پورا کرنے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ یہ کہنا بالکل ثابت ہے کہ شاہ عبد اللطیف بھٹائی سندھی شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک و ہند میں وہ پہلے روایتی ذاکر ہیں جنہوں نے واقعات کربلا کو سندھی زبان میں سر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ شاہ جو رسالو میں سر کیدارو ان کی اسی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاہ عبد اللطیف بھٹائی 1752ء کو فوت ہوئے اور بھٹ شاہ میں دفن ہوئے تھے۔ غلام شاہ کلہوڑو نے آپ کا مقبرہ تعمیر کروایا جو 1754ء میں مکمل ہوا تھا۔
سچل سرمست :
سچل سرمست سندھ کے ایک اور صوفی شاعر ہیں جنہوں نے سندھی اور سرائیکی میں صوفیانہ کلام تخلیق کیا۔ آپ 1739ء میں پیدا ہوئے اور آپ کا پیدائشی نام خواجہ صلاح الدین حافظ عبدالوھاب تھا۔ آپ کا لقب سچل سرمست آپ کی سچائی اور راست گوئی کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ سندھی صوفیانہ ادب میں سچل سرمست کو منصور ثانی کہا جاتا ہے جب سیچل سرمست سات برس کے تھے تو شاہ عبداللطیف بھٹائی سے ان کی ملاقات ہوئی تھی ۔ ملاقات کے دوران عبداللطیف بھٹائی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تخلیق ہوا یہ بچہ ایسے ایسے روحانی را ز آشکار کرے گا جو آج تک میں نے نہیں کیسے تھے ۔ سچل سرمست کے پاس ایک عصا، ایک طنبورا اور ایک کشتی نما پیالہ ہوا کرتا تھا جو آج بھی درویش اور فقیر ملنگ لوگ لیے پھرتے ہیں۔ سچل سرمست طنبورا بجا کر وجد میں آکر صوفیانہ کلام پڑھتے رہتے تھے۔ سچل سرمست کو سندھی اور سرائیکی غزل کا پہلا شاعر مانا جاتا ہے۔ ان کی سرائیکی شاعری تین حصوں پر مشتمل ہے۔ سی حرفی ڈوہڑا کافی سرائیکی شعراء نے ان کے دو ہڑا اور کافی کے اثرات کو بڑی حد تک اپنایا ہے اور دریائے سندھ کے ساتھ اس طریقہ کی شاعری کے اثرات آج تک نمایاں ہیں ۔
سید ثابت علی شاہ:
آپ 1740ء میں سیہون شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید امداد علی شاہ تھا۔ آپ نے سندھی اور سرائیکی زبان میں کربلا کے واقعات پر مریے لکھے ۔ جنہیں آج بھی سندھ اور سرائیکی علاقہ جات میں ایام عزا اور مجالس میں پڑھا جاتا ہے۔ سید ثابت علی شاہ نے لعل شہباز قلندر کی مدح میں بھی شاعری کی ہے۔ سید ثابت علی شاہ 1810ء کو فوت ہوئے ۔ آپ کو سہون شریف میں ہی کر بلا قصبہ میں دفن کیا گیا ہے۔ سمہ حکمران کے بعد کلہوڑا اور ان کے بعد تالپور حکمرانوں نے سندھ کے ان صوفی شعراء اور ذکر کی ان محفلوں کو جاری رکھا اور حکومتی سطح پر بھی ان کو پذیرائی دی گئی جس کا اثر موجودہ سندھ کے ساتھ ساتھ سرائیکی وسیب پر بھی نمایاں ہے۔ خطہ ملتان، سرائیکی بیلٹ ، وادی سندھ کے جغرافیائی مرکز اور تاریخی امین کی صورت ابد سے آباد ہے۔ دیگر خطوں کی طرح یہاں بھی روایات واقدار نے معاشرت سے جنم لیا اور نمو پائی مگر دیگر تہذیبی مراکز کے برعکس یہاں کی روایات و اقدار نے صرف الہیات ہی سے پرورش نہیں پائی۔ وادی سندھ میں بالعموم اور ملتان اور آس پاس کے سرائیکی علاقوں میں بالخصوص پروان چڑھنے والے تصور الم کی خالصتاً انسانی صورتِ حال سے ایک قدر انسانی کی تشکیل ہوئی۔
روما و فارس کی تہذ یہیں بیک وقت غالب و مغلوب کے تجربے کی حامل نظر آتی ہیں جبکہ سندھ کی وادی تاریخ امن باطن کی حامل نظر آتی ہے جہاں کے مراکز موہن جودڑ و، ہڑپہ اور ٹیکسلا آج بھی آلات حرب کی بجائے سامان لطف سے مزین نظر آتے ہیں اور جہاں بمطابق انسائیکلو پیڈیا برٹین کا تاریخ انسانی کا پہلا شعر بصورت وید” ضبط تحریر ہوا۔ وادی سندھ کے تصور الم کی صورت بھی یہی ہے کہ غضب و جبر کے غیر حامل باشندگانِ وادی ہی نے اسے اپنے حب الوطنی کے جذبات اور اپنے خون شہداء کے احترام سے سینچا۔ شہادت امام حسین ایک ایسا المیہ ثابت ہوئی کہ جس نے ایک قدر مشترکہ کی حیثیت سے یہاں نہ صرف پذیرائی حاصل کی بلکہ یہاں کے تاریخی الم میں اور یہاں کی شعریات میں مرثیہ حسینی کے نام سے ایک حقیقت بن گئی ۔ جب لوگ عرب دنیا سے جائے امن کی تلاش میں اس سرزمین میں آبسے تو اسی وادی سندھ کے دامن میں ہر کسی کو امن و آتشی سے رہنے کا موقع ملا۔
حوالہ جات:
1. Historical Dictionary of Sufi Culture of Sindh in Pakistan and India
2. Sufis of Sindh by Dr. Motilal Jotwani
3. The Shias of Pakistan by Andreas T. Rieck
4. Shah Abdul Latif of Bhit
5. Tuhfat UI Kiram
6 ۔ وادیء، سندھ کا تصور الم اور مرثیہ گوئی از شمیم عارف قریشی
پندھرواں باب
ذکر امام حسین اور سرائیکی ادب
سرائیکی بیلٹ میں بالعموم اور بھکر کے علاقوں میں بالخصوص ایام محرم اور عزاداری؛ امام حسین لازم و ملزوم ہیں۔ سندھ سے چلی ذکر کی روایت اُچ شریف اور ملتان کے راستے ڈیرہ جات اور بھکر کے علاقوں میں مقبول ہوئی اور نسل در نسل سے ان علاقوں میں جاری وساری ہے۔ سندھ اور سرائیکی بیلٹ میں پروان چڑھا ذاکری کا طریقہ ایک منفرد روایت ہے جس میں ذاکر کربلا میں امام حسین اور ان کے رفقاء کی شہادت کی تفصیلات اور کرداروں کے جذبات بتانے کے لیے مخصوص الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں اور نظم کی شکل میں پڑھے جانے والے ڈو ہے اور رباعیاں لوگوں کو فلم میں شامل کر دیتے ہیں۔
وقت کے ساتھ جیسے جیسے ٹیکنالوجی میں جدت آئی تو مقبول ذاکروں اور نوحہ خوانوں کے آڈیو اور وڈیوریکارڈنگ بھی مقبول ہوتی گئیں اور یوں ذاکری نے سرائیکی ادب کے ارتقاء میں اپنا ایک منفرد کردار ادا کیا ہے۔ ذکر امام حسین میں ہر مکتبہ فکر سے لوگ آتے تھے اور کر بلا والوں کی یاد مناتے تھے۔ اس زمانے میں فرقہ واریت بھی نہیں تھی۔ اہل سنت بھی ذاکری کیا کرتے تھے۔ بھکر کےعلاقے کوندرانوالی سے ایک ذاکر مولوی محمد بخش آف کوندرانوالی تھے جن کے متعلق ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ وہ نو تک نشیب اور تھل میں مجالس عزا میں ذاکری کیا کرتے تھے اور ہر فرقہ سے لوگ ان کو سننے کے لیے آیا کرتے تھے۔
ضلع بھکر کے علاقے بہل سے سید امیر حسین شاہ کر بلائی بہت مشہور ومعروف ذاکر تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے بھائی سید خادم حسین شاہ سے حاصل کی تھی ۔ سید خادم حسین شاہ لکھنو سے پڑھے ہوئے تھے۔پاکستان بننے سے پہلے سید خادم حسین شاہ سندھ میں ریاست خیر پور میرس کے چیف
جسٹس تھے۔سید امیرحسین کربلائی نے سندھ اور کچھی کی ذاکری کوخوب پروان چڑھایا اور کچھی
میں سرائیکی کے ساتھ ساتھ اردو قصیدے گوئی اور رباعیات کو بھی شروع کیا۔
پہل ہی سے ایک اور ذاکر سید صابر حسین شاہ نے بھی سرائیکی ذاکری میں نام کمایا اور وہ سندھ اور پنجاب کے مقبول ترین ذاکر بنے ۔ بھکر کے علاقہ شہانی کا لنگاہ خاندان بھی اس علاقے میں ذاکری روایت کے بانی گھرانوں میں سے ایک ہے۔ لنگاہ خاندان سے پہلے ذاکر با با محب علی لنگاہ تھے جنہوں نے شہانی اور آس پاس کے علاقوں میں اس روایت کو پھیلایا۔ ان کے بیٹے بختاور علی لنگاہ نے بھی خوب نام کمایا۔ بختاور علی لنگاہ کے دو بیٹے غلام علی لنگاہ اور احمد علی لنگاہ بھی ذاکری کے بہت بڑے نام ہیں۔احمد علی لنگاہ نے اس روایت کو خوب شہرت دی اور ان کے بہت سارے شاگر داب اس روایت سے وابستہ ہیں۔ مولوی مرید عباس لنگاہ بھی مشہور ذاکر تھے اور اب ان کے پوتے عون عباس لنگاہ اپنے بزرگوں کا نام روشن کیے ہوئے ہیں۔ اسی لنگاہ خاندان کی رشتہ داری کوٹ ادو کے جھنڈیر خاندان سے ہے اور جھنڈیر خاندان سے بابا نذر حسین جھنڈیر سرائیکی کے مشہور شاعر اور ذاکر تھے جنہیں فردوسی ، پاکستان کہا جاتا ہے۔ نذر حسین جھنڈیر کے بھائی فدا حسین جھنڈیر بھی مشہور ذاکر تھے اور اب بھی جھنڈیر فیملی
میں یہ روایت نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔ بجکر کا ترک خاندان نے بھی ذاکری کی روایت کو پھیلایا اور چھینہ کے سید علی شاہ بھی کچھی کے مایہ ناز اور مشہور ذاکر تھے۔
سرائیکی زبان کے چند مشہور ذاکرین مندرجہ ذیل ہیں۔
با با سید مداح حسین شاہ ، دائرہ دین پناہ ۔
سید خادم حسین شاہ گھاگھری
سید امیر حسین کربلائی ، پہل
سید صابر حسین ، بہل
سید علی حسین تھی ،بھکر
ناصر عباس نوتک
غلام عباس نوتک
سید نجم الحسن شاہ، جام
نصرت عباس چانڈیہ
سید عامر عباس ریانی حافظ محمد علی خان بلوچ ، لیہ
سید ریاض حسین شاہ ، موچھ
علامه محمد ثقلین گھلو
عون عباس لنگاہ
تو قیر خان کر بلائی
یاسین خان کندانی
نصرت عباس خان چانڈیو
سید تصور عباس شاہ نوتک
سولہواں باب
سرائیکی ادب
سندھی میں شمالی علاقے کو سرو کہتے ہیں اور اس سے مراد وادی سندھ کا شمالی علاقہ ہے جہاں سرائیکی بولی جاتی ہے۔ ضلع بھکر میں سرائیکی کثرت سے بولی جاتی ہے۔ اس زبان کو جھکر کے علاقے کی تمام اقوام چاہے وہ کسی بھی علاقے سے ہجرت کر کے آئے تھے، بولتی ہیں ۔ سندھی میں ”سرو“، ”سرا اور سرائی کے لفظ شمال کے لوگوں کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں اور سرائیکی لفظ انہی الفاظ سے بنا ہے۔ اس زبان کی مٹھاس نے ہر علاقہ پر اپنا اثر چھوڑا ہے۔ اسی زبان کے زیر اثر مغرب سے جتنے بھی پشتون قبائل بھکر اور میانوالی میں آباد ہوئے ہیں انہوں نے پشتو کی جگہ سرائیکی کو اپنایا ہے۔ نیازی قبائل کی اکثریت اب یہی زبان بولتی ہے۔ ماہرین تاریخ کے نزدیک جب آرین اس علاقے میں وارد ہوئے تو وادی سندھ میں اس وقت آسوری قوم آباد تھی اور ان کی زبان سرائیکی تھی ۔ اس حوالے سے وادی سندھ میں سرائیکی ایک قدیم زبان ہے۔ او برائن کے مطابق سرائیکی زبان کو سب سے زیادہ جو چیز نمایاں کرتی ہے، وہ اس کا ذخیرہ الفاظ ہے اور اس میں سندھی اور پنجابی زبان کے الفاظ کی کثرت ہے۔ او برائن کے نزدیک ملتانی لہجہ کی مٹھاس اس زبان کو دلکش بناتی ہے۔ یہ ایک ایسی زبان ہے جو اپنی خار دار رہگزاروں سے محبت کرتی ہے۔ اس زبان میں شعر و غزل، قصہ کہانیوں، بجھارتوں اور محاوروں کا بہت وسیع ذخیرہ موجود ہے جسے اب اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے سرائیکی شعبہ جات نے محفوظ کرنا شروع کر دیا ہے۔
سرائیکی ضرب الامثال:
1 ۔ لڑھ کندھی لگو
2۔ آپ نہ جوگی گوانڈھولائے
3۔ ابا ہلی کئی انھے گلہر جیندی اے
4 بکھا تھیا کر اڑ پرانے لانے پڑے
5۔ منجھیں جھنگ بہن مندھانڑ چوے کھڑے ہن
6۔ اسپغول تے کچھ نہ پھرول
7۔ ہک واری چھٹوں ہا بیٹھے مٹی کٹوں ہا
سرا ئیکی لوک گیت :
چڑے پدھر تے بہہ کے دل لٹوائی ہم وے
ایں سانگھے اتھ آئی ہم وے
آمیڈا دلدارا میڈے سینگھیاں دا سردارا
دل لٹ نال گیا او جگ سارا تے میں نہ پرائی ہم وے
ایں سا لکھے ہاتھ آئی ہم دے
اڈ پڑ گئیاں کونجاں میں کیندا در ونج ڈھونڈاں
میڈیاں اللہ لہیسی مونجھاں تے سنجڑی رہی ہم وے
ایس سانگھے اتھے آئی ہم وے
تڑنگ پئی جو چولے اساں ہات کملے بھولے
تیڈے عشق دے پھڑ پھڑ کو لے تے بھاہ بھڑکائی ہم وے
ایس سانگھے ہاتھ آئی ہم وے
آمیڈا دل جانی ، جند جان کراں قربانی
گل پائی ہم عشق دی گانی، تے کھڑ تھمکائی ہم وے
ایں سانگھے اتھ آئی ہم وے
حوالہ جات:
1. A Glossary of Multani Language
2 – سرائیکی زبان کا ارتقاء
3. District Gazetteer of Multan
4. District Gazetteer of Bahawalpur
5. District Gazetteer of Dera Ismaeel Khan
ستر ہواں باب
بھکر اور قدیم تاریخ
رحمن ڈھیری:
رحمان ڈھیری کے آثار ڈیرہ اسماعیل خان سے 22 کلومیٹر شمال میں ہیں۔ رحمان ڈھیری برصغیر پاک و ہند میں ازمنہء قدیم کا ایک شہر تھا جس کے آثا راب بھی موجود ہیں ۔ رحمن ڈھیری دریائے گومل اور دریائے سندھ کے میدانوں پر مشتمل ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ پانچ ہزار سال پرانا شہر تھا جو موہنجودڑو اور ہڑپہ سے بھی پرانا تھا۔ رحمان ڈھیری کا یہ تیلہ آج بھی اپنے ارد گرد کی سطح سے 20 فٹ بلند ہے۔ اور اس کا پھیلا ؤ ایک مستطیل کی شکل میں ہے۔ اس شہر کے لوگ ایسے مکانات میں رہتے تھے جو کہ کچی مٹی کے ڈھیلوں یا اینٹوں سے بنے تھے۔ جو اس عہد کی آب و ہوا اور موسم سے موافق تھے۔ رحمان ڈھیری کے آثار کی تحقیق محکمہ آثار قدیمہ پاکستان اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی نے کی جو کہ پروفیسر فرزند علی درانی کی زیر نگرانی 23 جنوری 1976 ء سے شروع ہوئی اور اس کے بعد متعدد ماہرین آثار قدیمہ اس پر تحقیق کر رہے ہیں ۔ کھدائی کے دوران اس جگہ سے مرچوں کے بیچ ، سرسوں، جنی، گندم اور چنے کے دانے اس زمانے کی فصلوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔ بھکر سے قریب ترین آثار قدیمہ میں سے رحمان ڈھیری اور کا فرکوٹ ہیں۔۔
کھدائی کے دوران رحمان ڈھیری سے مختلف مویشیوں، بھیڑ، بکری ، ہرن کی ہڈیاں بھی برآمد ہوئی تھیں جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس دور میں بھی پالتو جانوروں کا گوشت ان لوگوں کی خوراک کا اہم جزو تھا۔ کھدائی میں حاصل کی گئی چوڑیوں، منکوں اور زیورات کے نمونوں سے اس زمانے کی عورت کے بناؤ سنگھار کو ظاہر کیا گیا ہے۔ برآمد ہونے والے برتنوں پر ڈیزائن شدہ تیر، دائرے اور دوسرے نقش ان کو ہٹر یہ اور موہنجودڑو سے ملاتے ہیں اور یہی نقش و نگار والے آثار وادی سندھ کی تمام تاریخی جگہوں پر ملتے ہیں۔
ماہرین آثار قدیمہ نے ان باقیات سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ رحمن ڈھیری کے آثار وادی ء سندھ کے قدیم ترین آثار میں سے ایک ہیں ۔ اس علاقے میں عام گھر یلو استعمال کے برتنوں پر متوازی اور لہرے دار لکیریں ڈالی جاتی تھیں اور ان کی خوبصورتی کے لیے ان پر پالش بھی کی جاتی تھی ۔برآمد ہونے والے آلات میں مٹی کی پکی ہوئی مورتیاں بھی شامل ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ بیل کی مورتیاں اور ناگ دیوی کی مورتی بھی شامل ہیں جو اس قدیم زمانے کے مذاہب کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ رحمن ڈھیری کے آثار بھکر سے صرف 50 کلومیٹر کی دوری پر ہیں اور ان آثار پر تحقیق سے ہمیں اس علاقے کی قدیم تاریخ اور رسم و رواج کا پتہ چلتا ہے۔ مغرب سے آنے والے تمام قبائل اور قومیں چاہے وہ آریہ ہوں، کشان ہوں یا کوئی اور، انہوں نے انہی راستوں سے مشرق کی طرف پیش قدمی کی اور اس خطے کی تاریخ و ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ماہر ین تاریخ کے مطابق آریہ سب سے پہلے انہی علاقوں سے مشرق کی طرف گئے۔ ان کی ابتدائی آباد کاری دریائے گول اور دریائے سندھ کے آس پاس ہوئی ۔ کیونکہ یہاں پانی کی فراوانی تھی اور دریائی زمین کی زرخیزی مویشیوں کے لیے نہایت موزوں تھی۔ آریوں کے ان علاقوں میں آباد ہونے کے ذکر ان کی کتاب رگ وید میں ملتے ہیں۔ اس میں اس علاقے کے دریاؤں کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ اس میں دریائے کرم ، گومل اور دریائے کابل کا بھی ذکر ہے۔
ایک نظم رگ وید میں کچھ ایسے ہے:
”اے آبی رو!شاعر اپنے معبد میں تمہاری شکتی کے گیت گا تا ہے۔ تین سلسلوں میں بہنے والے دریاؤں میں ہر ایک میں سات سات رود میں آکر ملتی ہیں ۔کیکن سندھ سب سے زور آور ہے۔اے سندھ ! جب تم میدانوں کی طرف آتے ہو جہاں وافر اناج اگتا ہے تو وہ زمیں تمہاری راہ میں بانہیں کھول کر تمہارا استقبال کرتی ہے۔ سندھ کی صدائیں فضاؤں میں اٹھتی ہیں ۔ وہ گرجتے بادلوں سے برستے پانیوں کی آواز ہے۔ اس کے بہاؤ میں طاقت ہے۔چمک ہے۔جیسے گاؤ ماتا اپنے بچوں کے لیے دودھ نیچے لاتی ہے۔ اسی طرح دیگر ندیوں کا گنگناتا پانی تیرے پاس آتا ہے۔۔۔ اے گنگا! اے جمنا ! اے سرسوتی ! میری تعریفیں آپس میں بانٹو۔ لیکن اے دریا و! جو ان میں شامل ہوتے ہو، سوسامہ (سندھ) میں، میرے الفاظ سنو! اے سندھ ! پہلے تم ترسنامہ کے ساتھ بہتے ہو۔ پھر سوسار تو اور پھر رسا اور پھر سوہنی (دریائے سوات ) کے ساتھ پھر تم ملتے ہو کر مو ( دریائے کرم ) گنتی (دریائے گومل ) ، کھبا ( دریائے کابل —- اور تم چلتے ہو ان سے مل کر اپنی شاہانہ چال ۔ اے سندھ ! تیرا رو کنا مشکل ہے۔ تیرے شفاف پانی کی چمک دمک اور شوکت جو بھر دیتی ہے سارے اطرفا۔ تمام بہتے دریاؤں میں تیری روانی کی ہم سری کوئی نہیں کر سکتا۔ تیری روانی میں جنگلی گھوڑی کی شان ہے اور تیرے حسن میں بھر پور جوان دوشیزہ کا گداز ۔ سندھ ہمیشہ سے جوان ہے اور حسین ہے ۔ گھوڑوں ، رتھوں ، کپڑوں اور سونے کی دولت سے معمور ہے۔ یہاں گالیوں اور اون کی بہتات ہے اور سنہرے اور خوب صورت پھولوں سے ہر دم ہرا بھرا ہوا ہے۔
دریائے گومل :
افغان علاقے غزنی کے شمال مشرق سے شروع ہونے والا یہ دریا 400 کلومیٹر کا سفر طے کر کے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ جس مقام پر دریائے سندھ میں شامل ہوتا ہے، وہیں اس کے کنارے پر تعمیر کی گئی یونیورسٹی کا نام اسی دریا کی نسبت سے گومل یونیورسٹی ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد دریائے گومل دریائے شروب کے ساتھ مل جاتا ہے اور ان دونوں دریاؤں کا سنگم ” کھجوری کچھ کہلاتا ہے۔
دریائے کرم :
دریائے کرم کا منبع وادی کرم کا کوہِ سفید ہے۔ کوہ سفید سے نکل کر یہ دریا شمالی وز میرستان سے ہوتا ہوا عیسی خیل کے قریب دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسی دریا کی نسبت کی وجہ سے وادی و کرم کے علاقے کو کرم ایجنسی اور اب ڈسٹرکٹ کرم کا نام دیا گیا ہے۔
دریائے کابل:
دریائے کابل افغانستان کے علاقے میدان وردگ سے ہندو کش کی پہاڑیوں سے نکلتا ہے اور افغان شہروں کا مل ، سر ولی اور جلال آباد سے ہوتا ہوا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ پشاور، چارسدہ اور نوشہرہ سے ہوتے ہوئے یہ اٹک کے قریب دریائے سند میں شامل ہو جاتا ہے۔ قدیم زمانہ سے جتنے بھی قبائل نے مغرب سے مشرق کی طرف ہجرت کی ، وہ انہی دریاؤں کے کناروں سے اس علاقے میں آباد ہوئے اور اس علاقے کی تہذیب و تمدن پرانمٹ اثرات چھوڑے۔
کافرکوٹ :
مانسرور جھیل سے لے کر ڈیرہ جات تک دریائے سندھ کے کناروں پر صرف دو ہی قلعوں کے آثار آج تک موجود ہیں۔ ان کو کا فرکوٹ کے قلعہ جات کہا جاتا ہے۔ بھکر کی تحصیل کلورکوٹ کے بالکل مغرب میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر یہ دونوں قلعے موجود ہیں اور دونوں ہی کو سلیمان کی چوٹیوں پر بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک کو شمالی کا فرکوٹ کہا جاتا ہے اور دوسرے کو جنوبی کا فرکوٹ کہتے ہیں۔
شمالی کا فرکوٹ :
شمالی کا فرکوٹ کے آثار چشمہ بیراج کے مغربی سرے سے چھ کلو میٹر شمال میں ہیں۔ شمالی کا فرکوٹ کوئل کوٹ بھی کہا جاتا ہے اور تاریخ دان بتاتے ہیں کہ اس قلعے اور اس میں موجود مندروں کو را جیل نے بنوایا تھا۔مل کوٹ کا قلعہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر کوہ سلیمان کی چوٹی پر بنایا گیا ہے۔ اس قلعے کی فصیل آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور مندروں کی باقیات بھی اب تک باقی ہیں ۔ شمالی کا فرکوٹ (ٹل کوٹ ) کا قلعہ دریائے کرم اور دریائے سندھ کے سنگم پر واقع ہے اور ہزاروں سال سے مغرب سے مشرق کی طرف جانے والے قافلے انہی راستوں سے گزرتے تھے۔ قلعے کی ساخت اسے ایک نا قابل تسخیر قلعہ بناتی ہے۔ اس کے تین اطراف گہری گہری کھائیاں ہیں جنہیں عبور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ قلعہ کا اندرونی رقبہ تقر بیا162 ایکٹر پر مشتمل ہے اور اس کے اندر چار مندروں کے معبد اب بھی موجود ہیں۔ ان چار میں سے دو کے آثار اب خستہ حالت میں ہیں۔ قلعہ کے شمالی اطراف کی فصیل اور گیٹ آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں اور شمالی طرف اس فصیل کی اونچائی 26 فٹ ہے۔
قلعہ کے جنوب مغرب کی طرف سے ٹیمپل سے نظارہ بہت دلفریب اور پر اثر ہے۔ شمالی کا فرکوٹ سے دریائے سندھ اور پنجاب کے میدان صاف نظر آتے ہیں۔ ان قاموں کا سب سے پہلے معائنہ برطانوی میجر جنرل ھم نے 1882ء میں کیا۔ ان قاموں میں مندروں کی موجودگی یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہ ہندوشاہی دور میں تعمیر کیے گئے ۔ ان مندروں اور ٹیمپل کا ڈیزائن وادی سون کے میلوٹ ، کٹاس راج اور سرنہ کے قاموں سے ملتا ہے۔ شمالی کا فرکوٹ (ٹلکوٹ) سے 38 کلومیٹر جنوب میں جنوبی کا فرکوٹ واقع ہے۔جنوبی کافرکوٹ : اس کو بلوٹ بھی کہتے ہیں۔ تاریخ دانوں کے مطابق اسے راجہ مل کے بھائی راجہ بل نے تعمیر کرایا تھا اور اس کے نام پر اس کا نام بلوٹ مشہور ہوا۔ ہے۔ اس قلعے کے آثار آج بھی اصل حالت میں موجود ہیں ۔ قلعے کے جنوب کی فصیل اور اس پر گولائی میں واچ ٹاورز کے آثار بھی واضح ہیں ۔ اس قلعہ کے درمیان تین مندروں کی باقیات ہیں اور پر کیا گیا کام ان کو مایان دور سے ملاتا ہے۔ انہیں رنگ آمیز پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس قلعے کے اندر ایک چھوٹا سا تالاب بھی موجود ہے اور دریائے سندھ کی ڈھلوان کی طرف پانچ تالابوں کے آثار بھی موجود ہیں۔ اس قلعہ میں جس قسم کا پتھر استعمال کیا گیا ہے، وہ آس پاس کی پہاڑیوں پر نہیں پایا جاتا بلکہ میانوالی کے علاقے میں سالٹ رینج کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔ جنوبی کا فرکوٹ ( بلوٹ قلعہ ) بھی شمالی کا فرکوٹ کی طرح ایک پہاڑی چوٹی پر بنایا گیا ہے اور اس کی دفاعی پوزیشن بہت مضبوط رہی ہوں گی ۔اس قلعہ میں موجود ہندو مندر اور ٹیمپل اسے بھی وادی سون کے ان ہندوشاہی مندروں سے ملاتے ہیں جن کے آثار آج بھی اصل حالت میں سیلوٹ ، کٹاس راج اور نندا نہ میں موجود ہیں۔ مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر نے ان دونوں قلموں کا ذکر اپنی کتاب ” تزک بابری میں کیا ہے۔ جب بابر نے مثل کوٹ اور بل کوٹ فتح کیا تو اس نے بلوٹ قلعے میں جس کو اس نے بلوت لکھا ہے، پڑاؤ کیا اور جشن منایا۔ بابر لکھتا ہے کہ خواجہ کلاں عزنی سے شراب کے کئی منکے اونٹوں پر لاد کر بلوٹ آیا اور یہیں فتح کی خوشی میں جشنِ مے نوشی منعقد کیا گیا۔ دریائے سندھ کے مشرق میں ماڑی انڈس سے شروع ہو تا سالٹ رینج کا پہاڑی سلسلہ بھی اپنے اندر ازمنہ قدیم کی تہذیب لیے کھڑا ہے۔ اس علاقے کی تہذیب اور معاشرتی ارتقاء میں ان علاقوں کے قدیم باشندوں نے اپنا اثر ڈالا جو آج تک محسوس کیا جاسکتا ہے۔اس علاقے میں پائے جانے والے مندر اور قلعے تقریبا ہزار سال پرانے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جب سمندر خشک ہوا تو دریائے سندھ کے میدانوں اور سطح مرتفع پوٹھو ہار کے مابین سلسلہ کوہ نمک حائل ہوا جسے سالٹ رینج کہتے ہیں۔ بلوٹ اور کا فرکوٹ کے قلعہ اور ان میں موجود مندروں کا ڈیزائن سالٹ رینج کے قلعوں اور مندروں سے ملتا جلتا۔
دیپال گڑھ :
بھکر اور ارد گرد کی قدیم تاریخ جاننے کے لیے دیپال گڑھ بھی ایک اہم قدیمی شہر ہے۔ موجودہ کروڑ لعل عیسن شہر کا پرانا نام دیپال گڑھ تھا جو کہ اس وقت کے راجہ دیو پال کے نام سے مشہور ہوتا تھا۔ یہ قلعہ ملتان اور کا فرکوٹ کے مراکز کے درمیان ایک اہم دفاعی مرکز تھا اور ہندوشاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ 395ھ میں افغانی حملہ آور شاہ محمد غزنوی نے کا فرکوٹ کے قاموں کو فتح کرنے کے بعد دیپال گڑھ کا رخ کیا اور قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ قلعہ کی فتح کے بعد محمود غزنوی نے اپنے ساتھ آئے سلطان حسین قریشی کو اس قلعہ میں تبلیغ کے لیے ٹھہر نے کی درخواست کی۔ سلطان حسین قریشی نے اس قلعہ میں مسجد کی بنیاد رکھی اور قلعہ کا نام کوٹ کروڑ رکھا۔ کروڑ کی وجہ تسمیہ کے بارے میں دور وایات ملتی ہیں۔
1 ۔ پہلی روایت یہ ہے کہ سلطان حسین قریشی نے ایک کروڑ مرتبہ سورۃ مزمل کا ورد کیا جس کی وجہ سے اس جگہ کا نام کوٹ کروڑ مشہور ہوا۔
2- آئین اکبری میں روایت ہے کہ حکومت کی طرف سے جولوگ مالیہ کی وصولی پر مامور ہوتے تھے ، انہیں کروڑی“ کہا جاتا تھا۔انہیں سلطان حسین قریشی کی اولاد میں سے سلسلہ سہروردیہ کے صوفیاء پیدا ہوئے جن میں بہاء الدین زکریا ملتانی ، شاہ رکن عالم ملتانی لعل عیسن کروڑا اور مخدوم رشید مشہور ہوئے دیپال گڑھ کا قلعہ اس علاقے میں دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر سب سے قدیم کاری تھی اور یہ شہر بھکر ، لیہ اور دیرہ اسماعیل خان سے بھی قدیم شہر تھا۔ شاہ محمود غزنوی نے دریائے کرم سے ہوکر کا فرکوٹ، دیپال گڑھ اور پھر ملتان اور اُچ شریف کو فتح کیا۔ دریائے کرم اور دریائے سندھ کے کنارے پر آباد یہ قلعہ جات مغرب سے آنے والے حملہ آوروں کے لیے ایک اہم دفاعی مراکز سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ محمد غزنوی کے بعد جب شہاب الدین غوری نے ان علاقوں پر حملہ کیا تو ان کی فتوحات کے بعد اس علاقے پر علی بن کر ماخ کو اپنا گورنر مقرر کیا اور پھر اس علاقے میں مسلمانوں کے اثر ورسوخ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور دیپال گڑھ برصغیر میں سلسلہ سہروردیہ کا مرکز بنا۔اس زمانے میں اس شہر کا شمار برصغیر کے مشہور شہروں میں ہوا کرتا تھا۔
سالٹ رینج :
کالا باغ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ جہلم تک چلا جاتا ہے جو سمندر کے خشک ہونے کے بعد سطح مرتفع پوٹھوہار اور وادی و سندھ کے میدانوں کے بیچ حائل ہے۔ یہ سلسلہ پہلی قدرتی رکاوٹ ہے جو برصغیر کو یوریشین پلیٹس سے جدا کرتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے میں موجود چٹانیں اور فوسلز زمین کی پوری تاریخ بتاتے ہیں۔ چٹانوں کی تہیں اس علاقے میں عمودی ہیں۔ سکندر مقدونی اس علاقے کے شہر مند نہ سے گزر کر راجہ پورس سے جنگ کرنے دریائے جہلم کے کنارے پہنچا تھا۔ سکندر اعظم کے بعد اس علاقے پر بدھ مت حکومت بنی۔ چھٹی اور ساتویں صدی عیسوی میں اس علاقے میں سہا پورہ (سنگھا پورہ ) کے نام کی سلطنت کا ذکر ملتا ہے۔ جس کا مرکزی شہر کٹاس راج تھا۔ اس کے بعد یہ علاقہ ہندوشاہی سلطنت کا حصہ بنا جس میں بلوٹ اور کاب لٹک کے علاقے شامل تھے ۔ گیارہویں صدی عیسوی میں شاہ محمود غزنوی نے اس علاقے پر قبضہ کر لیا اور اس علاقے کے جنجوعہ قبائل نے اسلام قبول کر لیا۔ اس علاقے میں مشہور ہندو قلعے اور مندر مندرجہ ذیل ہیں۔
1 میلوٹ
2۔ کٹاس راج
3 نندنہ
میلوٹ مندر Malot Temple:
میلوٹ کے آثار سالٹ رینج کی ایک اونچی چوٹی پر ہیں جس کے تین اطراف گہری کھائیاں ہیں۔ اس کے تعمیراتی ڈیزائن اور بلوٹ کے مندروں کے ڈیزائن میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ میلوٹ کا مندرنل کوٹ اور بلوٹ کے مندروں سے پرانا ہے۔ اس کے تعمیراتی آرکیٹیکچر پر کشمیری مندروں کی تعمیر کا اثر نمایاں ہے۔ یہ انتہائی نفیس سرخ پتھروں سے بنایا گیا ہے اور چاروں اطراف ساخت ایک جیسی ہے جو اس پر گندھارا تہذیب کا اثردکھاتی ہے۔
کٹاس راج Katas Raj:
سالٹ رینج کے پہاڑوں میں بنایا گیا یہ مندر کسی زمانے میں ہندوؤں کی بہت اہم عبادت گاہ تھا۔ اس میں ٹیمپل، قلعہ اور رہائش گاہوں کی تعمیرات اس تالاب کے گرد کی گئی ہیں جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ہندو دیوتا شیو کا ہے۔ لوک روایات میں ہے کہ جب شیو د یوتا نے اپنی بیوی کی موت پر آنسو بہائے تو ان سے یہ تالاب بن گیا جو ایک کٹاس راج میں بنا اور دوسرا راجستھان میں ۔ ہندی میں کٹاس روتی ہوئی آنکھ کو کہا جاتا ہے۔
نند نه Nandna:
سالٹ رینج کے مشرق میں بند نہ قلعہ کو سلسلہ کوہ نمک کا گیٹ وے قلعہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اس راستے پر ہے جس کو مغرب سے آنے والے اکثر فاتحین نے استعمال کیا ہے۔ ہندو شاہی حکمران جب شاہ محمود غزنوی سے جنگ ہارے تو انہوں نے اسی نند نہ میں پناہ لی اور اسے اپنا نیا دار الحکومت بنایا۔ البیرونی نے اسی نندنہ کے آس پاس قیام کیا اور زمین کی پیمائش کی۔تیرھویں صدی عیسوی میں جلال الدین خوارزم شاہ جنگیز خان سے شکست کھا جانے کے بعد کالا باغ اور تھل سے ہوتا ہوا اسی نندنہ میں پناہ گزین ہو گیا اور یہیں سے جلال الدین خوارزم شاہ نے تھل اور سالٹ رینج کے علاقوں پر اپنی حکمرانی قائم کی اور آس پاس کے علاقوں میانوالی ، کلورکوٹ اور موجودہ بھکر کے علاقوں کو اپنے تصرف میں لے لیا۔ جلال الدین خوارزم شاہ نے سلاطین دہلی سے بھی امداد طلب کی تاکہ منگولوں سے بدلہ لے سکیں لیکن دہلی کے سلاطین نے منگولوں سے دشمنی لینے میں پس و پیش کیا۔جلال الدین خوارزم شاہ نا امید ہو کر اس علاقے سے اچ شریف پر حملہ آور ہوا۔ بھکر اور تھل کے علاقوں پر کچھ عرصہ جلال الدین خوارزم شاہ کے مصاحبین نے اپنا تسلط قائم رکھا۔
امب Amb :
امب ایک ویران ہندو ٹیمپل ہے جو کہ سالٹ رینج میں سکیسر کی چوٹی سے آٹھ کلو میٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ اس کے ٹیمپل کو بھی تاریخ دان ہندو شاہی راج سے جوڑتے ہیں اور اسے بلوٹ اور ٹل کوٹ کا ہم عصر مانتے ہیں ۔
حوالہ جات:
1 . Gazetteer of Dera Ismaeel Khan
2 . Story of Civilization by Will Durant
3 . Imperial Gazetteer of N.W.F.P
4 . Ancient Pakistan, Vol-vi, Rahman Dheri Excaution Report by Dr. Farzand Ali Durrani
5 . Stein, on Alexandar "s track ti Indus
6 . Wheeler, Sir M. Civilization of Indus Valley &Beyond
7 . Pakistan Handbook by Isobel Shaw
8 . Notes on Afghanistan & Balochistan, by H.G.Raverty Vol-ll
9 . تاریخ سرزمین گومل
10 . تاریخ لیہ
11 . تزک بابری
12 . ہمایوں نامہ
13 . District Gazetteer of Mianwali 1918.
اٹھارواں باب
بھکر اور اس کا مستقبل پاکستان
بننے سے لے کر اب تک بھکر نے کچھ حوالوں میں خوب ترقی کی ہے اور بعض حوالی جات میں یہ باقی حوالہ جات میں یہ دیگر علاقوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد 1948 ء کے ریونیو ایکٹ کے تحت ادارہ ترقیات تھل تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (TDA) قائم کیا گیا۔ اس ادارہ کے تحت تھل کے زمینداروں سے رقبے لے کر آباد کاروں میں تقسیم کیے گئے تھے۔ ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ، ڈپٹی کمشنر سرگودھا اور ڈپٹی کمشنر میانوالی تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ممبرز تھے۔ 1950ء میں تھل کینال میں دریائے سندھ سے پانی چھوڑا گیا۔ بھکر کی خوش قسمتی میں سب سے بڑا عمل دخل اسی تھل کینال کا ہے جس کے پانی سے تھل کا ریگستان نخلستان بننا شروع ہوا۔ گورنمنٹ آف پنجاب نے 1954ء میں اعلان کیا کہ تھل کینال کی حدود کے اندر تھل کے مالکان سے مارجنل ایڈ جسٹمنٹ فارمولا کے تحت رقبہ حاصل کیا جائے گا۔ مارجنل ایڈ جسٹمنٹ فارمولMarginal Adjustment Formulal:
اس فارمولے کی اہم دفعات مندرجہ ذیل تھیں:
1 – وہ مالکان اراضی جن کا رقبہ 15 ایکڑ سے کم ہے، ان سے رقبہ نہ لیا جائے۔ بهکر داستان 155] سید جاوید حسین شاہ
2- 16ایکڑ سے 100 ایکڑ تک کی اراضی کے مالکان سے 50 فیصد اراضی کی جائے۔
3 – رقبہ ملکیتی اونی اور مزروعہ راج 1951 ء اس فارمولا سے متمنی ہو گا۔ 1955ء میں گورنمنت نے ترمیمی ایکٹ نافذ کیا جسے سلیب سسٹم فارمولا کہتے ہیں۔
سلیب سسٹم فارمولا :اس فارمولے کے نکات مندرجہ ذیل تھے۔
1 ۔ نہری حدود میں 15 ایکڑ اراضی سے کوئی رقبہ نہ لیا جائے گا۔
2۔ ایک صدا یکڑ سے زائد رقبہ کے مالکان کو اول پندرہ ایکڑ تک رقبہ چھوڑ کر باقی رقبہ کا
نصف بحق سرکا رچھوڑ نا ہوگا۔
3۔ اول 115 ایکٹر محفوظ رکھ کر 16 سے 100 ایکڑ تک کل رقبہ کا نصف اور باقی رقبہ کا
چوتھائی حصہ حاصل کیا جائے گا۔ سکیم برائے کاشتکاری Peasant Grant Scheme: 1 ۔ اس سکیم کے تحت فی خاندان ان بے زمین مہاجرین کو زمین دی گئی جو کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔
2 ۔ وہ لوگ جو تھل کے اضلاع کے علاوہ تیم ، خشک سالی یا دریا کے کٹاؤ کے متاثرہ تھے ، ان کو زمینیں الاٹ کی گئیں ۔
3 فوج کے ریٹائرڈ ہونے والے افسران کو زمینیں الاٹ کی گئیں۔
1951 ء سے 1963 ء تک اس سکیم کے تحت 78642ایکڑ نہری زمین 5270 افراد کو الاٹ کی گئی تھی ۔یہ زمینیں 150 روپے فی ایکڑ دی گئی تھیں اور یہ رقم بھی 70 اقساط میں ہر چھ ماہ بعد وصول ہونا قرار پائی تھی ۔
کنواں ٹیوب ویل اسکیم 1952ء:
یه تیم 1952ء میں ڈھنگانہ، جنڈا نوالہ، مہوٹہ، خانسر اور صبینو کے علاقوں میں شروع کی گئی۔ اس سکیم کے تحت ٹیوب ویل پر 150 ایکڑ اور کنواں لگانے پر 125 ایکٹر فی کس زمین الاٹ کی گئی۔ 9 روپے فی ایکڑ ایڈوانس اور بقایا 80 شش ماہی اقساط میں کل رقم وصول ہونا تھی۔ ٹیوب ویل سکیم کے تحت 196700 ایکڑ رقبہ 1308 افراد کو الاٹ کیا گیا جبکہ 119450ایکڑ رقبہ 778 افراد کو الاٹ کیا گیا۔ٹیوب ویل سکیم 1963-64ء: اس سکیم کے تحت 150 ایکڑ فی فرد کے حوالے سے لیز پر 10 سال کے لیے اراضی دی گئی اور اس میں 20 سال کا اضافہ بھی کیا گیا۔ اس سکیم کے تحت بھکر میں 115200 میٹر رقبہ101 افراد میں تقسیم کیا گیا۔
بھیٹر پال سکیم:
اس سکیم کے تحت 1952ء سے 1976 ء تک مختلف چکوک میں 40 افراد کو 15 ایکٹر فی کس کے حساب سے زمین 15 سالوں کے لیے الاٹ کی گئی۔
اٹامک انرجی کمیشن سکیم :
میانوالی کے اٹامک انرجی کے متاثرین کے لیے 2880 ایکڑ زمین مختص کی گئی۔چشمہ بیراج فیز 2 چشمہ بیراج کے متاثرین کے لیے فیز 2 میں 111552 ایکڑ زمین مختص کی گئی ۔
زراعت:
ضلع بھکر میں اکثر آبادی کا ذریعہ معاش کا شتکاری ہے ۔ بھکر میں اگائی جانے والی چنے کی فصل اسے پورے پاکستان میں ممتاز کرتی ہے۔۔ چنے کا شمار اہم غذائی اجناس میں ہوتا ہے اور پاکستان چنے کی برآمدات میں تیسرے نمبر پر ہے۔ محکمہ زراعت کے اندازوں کے مطابق بھکر میں سالانہ تقریباً 8000 من چنا پیدا ہوتا ہے۔ چنے کے بعد زیادہ اگائی جانے والی نسل مونگ کی ہے اور اس کی درجہ بندی میں بھی بھکر پنجاب اور پورے پاکستان میں نمایاں ہے۔دھنیا کی فصل بھی بہت زیادہ کاشت کی جاتی ہے اور گنا، گندم، جو اور ہاجرہ بھی کاشت کیا جاتا ہے۔ گورا کی پیداوار کے حوالے سے بھی بھکر بہت مشہور ہے۔ 03-2002ء میں بھکر میں 12 لاکھ من گوارا پیدا ہوا جو پورے ملک کا نصف حصہ پھلوں میں جو پھل بھکر میں زیادہ پیدا ہوتا ہے، وہ کھجور ہے ۔ صوبہ پنجاب کے بڑے پانچ اضلاع جو کھجور کے حوالے سے مشہور ہیں، بھکر ان میں سے ایک ہے۔منگیر و اور تھل کے خربوزے بھی پورے پاکستان میں اپنی مثال آپ ہیں۔ بجکر بارانی رقبے کے لحاظ سے صوبہ پنجاب کا سب سے بڑا ضلع ہے جس کی نصف سے زائد زرعی اراضی پر کاشت کاری بارشوں کے پانی سے ہوتی ہے۔ ضلع بھکر میں کاشت کار گھرانوں میں سے 42 فیصد چھوٹے کسان ہیں جن میں سے ہر ایک کے پاس صرف دو ایکٹر زمین ہے۔58 فیصد زرعی زمین والے درمیا نے کسان ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس رقبہ اوسطاً دس ایکٹر فی کسان ہے۔ضلع میں بڑے زمیندار تعداد میں تو تمام کا شتکاروں کا 5 فیصد ہیں لیکن یہاں کی 31 فیصد سے زائد زمینیں ان کے پاس ہیں اور اوسطا ہر ایک کے پاس رقبہ 163 ایکڑ ہے۔
تعلیم:
ضلع بھکر کی چاروں تحصیلوں میں بھکر میں لٹریسی ریٹ سب سے زیادہ یعنی 55 فیصد ہے اور تحصیل دریا خان میں سب سے کم 47 فیصد ہے۔ ضلع کے شہری علاقوں میں 67 فیصد آبادی خواندہ ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 46 فیصد آبادی خواندہ ہے۔ مردوں میں خواندگی کی شرح کے حوالے سے بھکر پنجاب میں 25 ویں نمبر پر ہے جبکہ عورتوں میں خواندی کے لحاظ سے بجکر 30 ویں نمبر پر ہے۔ CPEC اور بھکر پاکستان کے جغرافیہ کو دیکھا جائے تو ضلع بھکر اس کے بالکل وسط میں ملتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ گورنمنٹ آف پاکستان اور چائنا کے بیچ طے پائے جانے والے معاہدہ ، چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (CPEC) کے تحت بھکر کی تحصیل کلورکوٹ کو دریائے سندھ پر ایک پل کے ذریعے سی پیک کے مغربی روٹ سے ملایا جا رہا ہے ۔ کلورکوٹ سے براستہ ڈھکی یہ روڈ پنیالہ سے لنک ہوگا اور وہاں سے جنوب مغرب میں بلوچستان اور شمال میں شمالی علاقہ جات تک رسائی میں آسانی ہو گی۔ اسی لنک کی بدولت بھکر کے دو شہر نواں جنڈا نوالہ اور کلورکوٹ تیزی سے ترقی پذیر ہوں گے کیونکہ وسطی پنجاب کا رابطہ سی پیک کے مغربی کوریڈور سے اسی راستے سے ہوگا اور ایک نیا معاشرتی ارتقا اس علاقے کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔ ڈیرہ اسماعیل خان ، ژوب ڈویژن اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ سابقہ فاٹا کےاضلاع کا سفر بھی اس لنک کی وجہ سے کم ہو گا اور ان خطوں کی آپس کی دوریاں ختم ہوں گی۔ اور یوں بھکر کا یہ علاقہ مستقبل کے لیے ایک شاندار امید رکھتا ہے جو انشاء اللہ اس علاقے کی عوام کے لیے بہت مفید ہوگا۔
CPEC ریلوے لنک :
سی پیک کے تحت ریلوے لائن کے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ کو ہستان ژوب سے کوٹلہ جام ریلوے لائن کا ہے۔ کو ہستان ژوب سے 560 کلومیٹر کا ریلوے ٹریک براستہ ڈیرہ اسماعیل خان کوٹلہ جام سے لنک ہو گا اور اسی ریلوے ٹریک کے ذریعے چائنا ہے گوادر تک مستقبل کی ریل کی نقل و حرکت ہوگی ۔ سی پیک کی تفصیلات کے مطابق کوٹلہ جام میں ریلوے جنکشن بنایا جائے گا اور سی پیک کے ریلوے کے منصوبوں میں کوٹلہ جام کی حیثیت مرکزی ہوگی۔ یوں بھکر کی اہمیت آنے والے دنوں میں اور زیادہ بڑھ جائے گی۔ پاکستان کے مختلف خطوں کو ملانے میں یہ ضلع ایک اہم کردار ادا کرے گا۔ وہ دن دور نہیں جب یہاں سے ریلوے ٹرینیں وسطی ایشیا تک کیلئے روانہ ہوں گی۔
—تمت بالخیر۔۔۔
کچھ محنت کے بارے میں ید جاوید حسین شاور نسائی شاہ جنوبی ضلع بھکر میں 1983 ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ ابعداد سندھ کے بکھرے موجودہ بھکر میں آباد ہوئے تھے ۔ کول یو نیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے ٹیلی کمیونی کیشن میں پی ایس کی ڈگری لی۔ اور اس کے بعد بہاء الدین زکریا یو نیو رسٹی ملتان سے ایل ایل بی کیا۔ تاریخ اور ثقافت سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے اور اسی شوق نے ان کو مت دلائی اور انہوں نے بھکر داستان جیسی دستاویز گن اور محنت سے تصنیف کر کے شاکین تاریخ وادب کو عطا کی۔
ماتریک اردوشن پاکستان