کتابیں

تذکرہ اولیائے لیہ

مہر نور محمد تھند

دیباچہ

صاحبزادہ محمود الحسن سواگ ( ایم اے )

بزرگان دین اور ان کے انقلابی سلسلہ تصوف پر بے شمار کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں اور اب تو سائنسی بنیادوں پر اس کی تحقیق جاری و ساری ہے ۔ ہر ملک و شہر کے اولیاء کرام کی حقیقت و اہمیت اپنی جگہ مثلاً ملتان مد لتہ الاولیاء کے مشہور ہے جس کی اپنی تاریخ بھی ہے اور کم و بیش تمام بزرگان دین کی تصانیف بھی ہیں ۔ اس لحاظ سے لیہ کی سرزمین کسی طرح بھی کم نہیں ۔ کفر و خرد کے دور میں یہاں اولیاء کرام نے اس خطہ کو اپنا مسکن بنایا اور دین خدا وند عز و جل کی و اشاعت شروع کی ۔ لیہ اور اس کے مضافات میں کم و بیش پچاس بزرگان دین کے آستانے اور دربار ہیں مگر صد افسوس کہ ہم بعضوں کے نام تو کیا مقامات و درباروں کا بھی علم نہیں رکھتے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جہنوں نے ہمیں اور ہمارے آباو اجداد کو صراط مستقیم دکھائی جس کی وجہ سے آج ہم مسلمان کہلوانے کے حق دار ہیں ۔ ان صوفیائے کرام میں سے چند کی تصانیف موجود ہیں یا پھر سیدھے سادے مکاشفات ، کرابات اور فرمودات پر مبنی ہیں ۔ مگر تحقیقی اور سائنسی بنیادوں پر ان حضرات کی زندگی پر کسی نے آج تک روشنی نہیں ڈالی ۔ اس کتاب کے مصنف مہر نور محمد تھند نے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ( جو سالوں پر مشتمل ہیں ) نکال کر لیہ کے اولیاء کرام کی سوانح حیات پر روشنی ڈالی ہے ۔ احقر کی اونی سوچ کے مطابق یہ ایک شاہکار ہے ۔ آج کا دور ترقی یافتہ ، تیز اور دھماکا خیز ہے ۔ لوگ صرف کیا ، کیوں ، کیسے ، کہاں اور کون جیسے سوالات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس سے بڑھ کر کچھ اور معلوم کرنا چاہتے ہیں ۔ سو آج کے دور میں عوام الناس کے تجس کو ہر لحاظ سے اور ہر جہت سے مطمئن کرنا ایک کٹھن مسئلہ ہے جو میری حقیر سوچ کے مطابق مصنف نے اس کتاب میں پایہ تکمیل کو پہنچایا ہے۔ قران مجید میں ایمان کی سب سے بڑی علامت اور خاصیت محبت الہی کو قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ( اور جو ایمان لائے وہ سب سے زیادہ خدا سے محبت رکھتے ہیں )
اور بس یقین ہو گیا۔ گویا بزرگان دین کی ہر حرکت ، ہر محفل اور ہر اشارہ خدا وند قدوس کی محبت کا آئینہ دار ہوتی ہے ۔ اور ان لوگوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی خداوند کی محبت ہی کو قرار دیا ہے۔اٹھارویں اور انیسویں صدی کے ہندوستان میں کفرو خرد اور انتشار و ابتری کا دور تھا ۔ مختصراً یوں کہیئے کہ وہ خصائل وہ عوامل جو سیاسی و سماجی نظام کو قائم رکھنے میں عمر و معاون ہوتے ہیں فنا ہو چکے تھے اور زوال و انحطاط کا دور دورہ تھا۔ خصوصاً اور نگ زیب کے دنیا فانی سے کوچ کرنے کے ساتھ ہی تمام ہندوستان عیش و عشرت ، طوائف الملوکی ، بد نظمی و بد انتظامی اور تخریب کاری کی تمام قوتیں ابھر آئیں – ناد نوش میں مدہوش رنگیلے فرمان روا بگڑتی صورت حال کو نہ بھانپ سکے ۔ ہر طرف شیطانی قوتوں کا دور دورہ تھا ۔ کہیں سکھوں کا سیلاب تو کہیں مرہٹوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر – ان سب فرعونوں کے سامنے سینہ سپر ہونے کی کسی کو ہمت نہ تھی ۔ اس انحطاط اور تنزلی کے دور میں اللہ کے کچھ بندوں نے حکومت و حکمرانی کے مزوں سے قطع نظر اسلامی سوسائٹی کو بچانے کی کوشش کی ۔ غیر ملکی کفر بڑے رعب و دبدبے سے آیا مگر مسلمانوں کی ملی اور دینی زندگی کو کوئی گزیذ نہ پہنچا سکا ۔ اگر سلطنت چھن گئی مگر ان اسلام کے جیالوں نے سر تسلیم خم نہ کیا۔ ان کو سب سے زیادہ فکر اس چیز کی طرح تھی کہ کہیں سلطنت کے لٹ جانے اور برباد ہو جانے کے ساتھ ساتھ اسلامی روح ، اسلامی فکر ، اسلامی کردار اور اسلامی سرمایہ زندگی ہی نہ مسمار ہو جائے ۔ چنانچہ یہ غازی میدان میں کود پڑے جہنوں نے مسلمانوں کی بالخصوص اور ہندوستانیوں کی بالعموم اصلاح اور انسانیت کی ذہنی اور عملی سطح کو بلند کرنے کے لئے جو ایڑی چوٹی کا زور لگایا وہ بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایک خاص الخاص اہمیت کا حامل ہے ۔ آج کا مورخ جب ان اسباب کی تلاش کے لئے ورق گردانی کرے گا جن کی بدولت سلطنت کے لٹ جانے کے بعد بھی یہاں اسلامی سوسائٹی ( یعنی ہم کلمہ گو ) کا شیرازہ بکھر نہ سکا تو وہ ان بزرگان دین اور نائین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پر خلوص اور دل کی گہرائیوں سےہونے والی جدوجہد اور کاوش کا اعتراف ضرور کریگا۔
آج کا پاکستان، بنگلہ دیش کسی بھی مسلمان جنگ جو اور فاتح کے نام نہیں کیا ما سکتا ۔ کئی بار یہ دھرتی لئی پھر بھی پھر لئی مگر ہم گہند سدرہ کے پوجاری جو زندہ و تا لا ہے ہیں تو آخر کس رو رعایت کی بنا پر یہ سب کو چارو نہ چار تسلیم کرنا پڑے گا۔ یہ ان مجاہدوں کی بدولت اور انہیں کی خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سےاس کتاب ” تذکرہ اولیاء کرام کے مصنف نے پھر سے ہم کند ذہنوں کو جھنجوڑا ہے ، پھر سے بھولا بسرا سبق یاد دلایا ہے ۔ اس کی شیخ میں وہی تاریخی گرج ہے کہ ہم سب مرہٹوں ، سکھوں ، ہندووں اور انگریزوں اور استعماری قوتوں کے لئے ہوئے ہیں ۔ ہمیں سیدھی راہ پر اور اپنے رب کی رسی کو مضبوطی سے پکڑوانے والے اولیاء عظام کی تعلیمات ہر حال ہر رنگ اور ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھنی ہونگی ورنہ ہمارا حال یہی ہوگا جو پہلے والی زمین میں دفن اور مسخ شدہ قوموں کا ہوا۔ کیونکہ جو قوم اپنی تاریخ کھو دیتی ہے ۔ تاریخ اس کو کھو دیتی ہے ۔

شاه سلطان حسین رحمتہ اللہ علیہ خوارزمی

حضرت شاہ سلطان حسین بن عبد الله سلطنت خوارزم کے ولی عہد تھے ۔ جب آپ کے والد سلطان عبداللہ نے 40 سال تک خوارزم پر حکومت کرنے کے بعد انتقال فرمایا تو عمائدین حکومت نے آپ کو تخت شاہی پر بٹھا دیا۔ لیکن آپ کو امور حکومت سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ آپ ہر وقت یاد رب العالمین میں منہمک رہتے۔ آپ کے چچا شیخ شمس الدین عارف زمانہ اور علوم دینیہ میں یکتا تھے ۔ ولیعہد سلطان حسین کو بچپن سے ہی حضرت شیخ شمس الدین سے قلبی لگاؤ اور ارادت تھی۔ شیخ شمس الدین بھی آپ پر زیادہ توجہ فرماتے اور آپ ہی کی تعلیم و تربیت نے حضرت شاہ سلطان حسین کے دل میں دنیا کی محبت کی بجائے دین کی محبت کی شمع فروزاں کی۔
کچھ عرصہ تک سلطنت نیم دلی سے سرانجام دیتے رہے ۔ لیکن آپ کو گوارا نہ تھا کہ ایک لمحہ بھی یاد الہی سے غافل رہا جائے۔ آپ نے تخت و تاج کو ٹھکرانے اور خود کو یاد الہی کے لیے وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ سوچ کر بزرگ پنچا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مرید ہونے کی خواہش ظاہر کی
حضرت شمس الدین نے فرمایا انے بیٹے اگر اس وادی میں قدم رکھنا چاہتے ہو تو پہلے دنیا کی آرائش سے اپنا دامن صاف کرو پھر اس وادی میں قدم رکھو ۔ شاہ حسین فورا محل میں پہنچے اپنا تمام خزانہ غرباء میں تقسیم فرمایا – تخت و تاج سے دست برداری اختیار کی اور شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے شیخ نے قلندرانہ لباس میں ملبوس دیکھا تو حالت وجد میں ایسی توجہ کی کہ ایک ہی نظر کیمیا اثر سے تمام مدارج و مراتب روحانی طے کرادئیے۔ یہ وہ دور تھا ۔ جب بنو عباس کا آفتاب حکومت غروب ہو رہا تھا ۔ محمود غزنوی جو ایک مرد مومن تھا ۔ اہل علم اور اہل اللہ کا قدردان تھا۔ سلطان حسین والی خوارزم کی تخت و تاج سے دست برداری کے متعلق سنا تو بن دیکھے سو جان سے خدا ہو گیا ۔
منزلیں مارتا ہوا شوق زیارت میں قدم بوسی سے مشرف ہوا جیسا سنا تھا ۔ اس سے بڑھ ” کر پا یا ۔ نہایت عاجزی سے غزنی چلنے کی گزارش کی۔حضرت سلطان حسین کے پیرو مرشد اور بزرگوار حضرت شمس الدین کچھ عرصہ قبل اس جائے فانی سے سفر حقیقی کی طرف کوچ کر گئے تھے ۔ خوارزم میں حضرت کیلئے کوئی چیز باعث دلکشی نہ تھی ۔ محمود غزنوی کے شوق محبت کے آپ کو خوارزم سے غزنی آنے پر آمادہ کر لیا ۔ خوارزم سے چل کر غزنی میں رونق افروز ہوئے ۔ جامع مسجد غزنی کے ایک حجرہ میں مشغول ہو گئے اور اللہ سے ایسی لو لگائی کہ پورے تین سال تک محمود غزنوی کی طرف متوجہ نہ ہوئے لیکن محمود بھی غیر معمولی عزم اور استقلال کا پیکر تھا ایک دن حضرت نے سلطان محمود پر ایسی نظر کیمیا اثر ڈالی کہ زمین و آسماں کے اسرار پنہاں ہو گئے جب محمود نے ہندوستان پر حملوں کا آغاز کیا تو حضرت شاہ سلطان حسین بھی اپنے مریدوں کے ساتھ جذبہ جہاد اور شوق شہادت سے سرشار ہو کو افواج سلطانی کے ساتھ ہو لیے محمود غزنوی نے جب کوٹ دیپال گڑھ ( کروڑ لعل عیسن ) فتح کیا۔ تو سلطان محمود نے اپنی منت کے مطابق کوٹ کروڑ اور ملحقہ علاقے آپ کی خدمت میں بطور جاگیر عطا کیے۔ سلطان حسین پر بڑھاپے کا عالم تھا۔ آپ نے کوٹ کروڑ میں رہنا قبول کر لیا۔ قلعہ میں آپ نے ایک مسجد تعمیر کی ایک کروڑ مرتبہ سورۃ مزمل کا ورد کیا۔ اور دیپال گڑھ کا نام تبدیل کر کے کوٹ کروڑ رکھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ کے دست مبارک پر تقریباً ایک کروڑ ہندووں
نے اسلام قبول کیا ۔ اس لیے آپ نے اس قلعہ کو کوٹ کروڑ کا نام دیا۔ کرامات
1 جب آپ نے سلطان محمود کے ساتھ ہندوستان کا قصد کیا تو ایک رات کو ہستانی علاقے میں فوج پڑاو ڈالے ہوئے تھی ۔ فوج سو رہی تھی ۔ کہ اچانک فضاء میں آتش بازی ہونے لگی ۔ تمام فوج میں بھگڈر مچ گئی ۔ فوج کے چند سپاہی پریشان حال آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ مجھے سے باہر تشریف لائے۔ کعبہ کی طرف رخ کیا دعا کے لیے ہاتھ پھیلائے ۔ گڑ گڑا کر رب ذوالجلال کی درگاہ میں عاجزی و انکساری سے ترفع بلا کے لیے دعا مانگی خدا جو رحیم و کریم ہے ۔ اپنے مومن بندوں کی دعاوں کو خالی نہیں موڑتا ۔ چندی لمحوں میں آتش بازی ختم ہو گئی۔ آپ نے سجدہ شکر ادا کیا۔ اور فرمایا جاو آرام سے سو جاو یہاں جنات کا مسکن تھا اور یہ انہی کی شرارت تھی ۔ انشاء اللہ اب کوئی شرارت نہ کریں گے۔
-2 اس واقع کے کئی دنوں بعد جب فوج ایک لق و دق ریگستان میں پہنچی ۔ دن سخت گرم تھا۔ فوج اور جانور پیاس سے تڑپنے لگے ۔ دور و نزدیک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لشکر میں قیامت برپا ہو گئی ۔ اس سے پہلے کہ لشکر پیاس کے باعث صحرا میں لقمہ اجل بن جاتا سلطان محمود حضرت کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ قدم بوسی کی اور دعائے بارش کے لیے گذارش کی ۔ آپ نے ہاتھ اٹھائے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے بادل رونما ہوئے ۔ اور لمحوں میں ایسی بارش ہوئی کہ سیلاب کی سی کیفیت پیدا ہو گئی۔ کوٹ کروڑ میں جو آپ نے مسجد تعمیر کرائی تھی ۔ آپ وہیں عبادت میں مصروف رہتے ۔ اور لوگوں کو اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے میں لگے رہتے۔ اور وہی قلعہ جہاں کل تک ہنوماں اور شیو جی کی پوجا ہوتی تھی ۔ اس کے درو دیوار سے کلمہ توحید کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ قدرت نے آپ سے تعلیم و تبلیغ کا جو کام لینا تھا وہ پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ تو بلاوا بلا بھیجا اور تقریباً 412 ہجری میں خالق حقیقی کے دربار جا
حاضری دی۔

مدفن


آپ کا مدفن کوٹ کروڑ ہے۔ لیکن دریائے سندھ کی لہروں نے اس قلعہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور دریا برد کر دیا ۔ حضرت محمد یوسف لعل عیسن کروڑ کے دربار کے شمال طرف چوکنڈی میں پانچ قبریں ہیں۔ اور یہ قبریں پنج پیر کے نام سے موسوم ہیں۔
1878-80ء کی بندوبست رپورٹ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں فکر سمجھ نے لکھا ہے کہ حضرت لعل عیسن کے آبا و اجداد کے مزارات دریا برد ہو گئے تھے ۔ جب حضرت یوسف عرف لعل عیسن کروڑ میں تشریف لائے ۔ تو آپ نے اپنے آباو اجداد کی یاد میں قبرس تیار کرائیں

حضرت سلطان علی رحمتہ اللہ علیہ

آپ کی پیدائش کوٹ کروڑ میں تقریباً 403 ہجری میں ہوئی ۔ آپ مادر زاد ولی اللہ تھے۔ آپ کے والد حضرت شیخ شمس الدین ایک نہایت جری جانباز ماہر جنگجو اور بہادر مرد مومن تھے۔ شیخ شمس الدین کی زندگی کا زیادہ وقت کفار ہندوستان سے جہاد کرتے ہوئے گزرا اور راجہ جیل سے جنگ کرتے ہوئے شہادت کے درجہ پر فائض ہوئے جب حضرت شاہ سلطان حسین نے اس جہان فانی سے کوچ کیا تو اس وقت سلطان شمس الدین قلعہ چتروڑ میں راجہ جیل سے بر سر پیکار تھے ۔ اس لیے سلطان علی کو کوٹ کروڑ کاوالی سلطنت مقرر کیا گیا۔ معرکہ چتروڑ میں حضرت شیخ شمس الدین داد شجاعت دیتے ہوئے اپنے ہزاروں جانبازوں کے ساتھ شہید ہو گئے۔ تو راجہ جیل نے اپنے لاو لشکر کے ساتھ کوٹ کروڑ کا محاصرہ کر لیا۔ اور وکیل کے ذریعے کہلا بھیجا اگر زندگی سے خوابی – طناب فرمابرداری در گردن خودانیا خسته مبار گاه راجه حاضر شو والا اذکر پدر کود چنان خوابی یافت که از قوم شمایک نفس زنده نخو اہم گذاشت یعنی کہ اگر تجھے اپنی زندگی عزیز ہے تو خلوص نیت کے ساتھ فرمانبردار بن کر ہمارے دربار میں چلے آو۔ ورنہ میں تمہاری قوم کا ایک آدمی بھی زندہ نہ چھوڑوں گا۔ سلطان علی ساتھیوں کے مشورہ سے قلعہ بند ہو گیا۔ جس سے راجہ جیسل نے علاقے کو اجاڑنا شروع کردیا۔ جو مسلمان ہاتھ آتا شہید کر دیا جاتا۔ سلطان علی نے یہ ظلم و ستم برداشت نہ کیا۔ صلح کی بات چیت کی۔ راجہ جیسل نے شرط رکھی کہ سلطان علی کو میرے حوالے کیا جائے ۔ آپ کے جانثاروں نے قبول نہ کیا۔ بلکہ جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر ہتھیار بند ہونے لگے ۔ لیکن آپ نے راجہ جیل کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا۔ جانثاروں نے ساتھ جانے اور سلطان علی پر تصدق ہونے کا عزم کیا۔ لیکن آپ نے سب کو حکما” روک دیا۔ گھوڑے پر سوار ہو کر قلعہ سے باہر آئے ہندووں کے کیمپ کی طرف بڑھے اس وقت آپکی عمر بارہ سال تھی۔

کرامت

ہندووں نے مسلمانوں کے اس سردار سے بدلہ لینے اور اسکی تضحیک کرنے کے کئی منصوبے سوچ رکھے تھے ۔ ہندو بے جا تفاخر میں مبتلا ہو کر طرح طرح کی باتیں بنا رہے تھے ۔ اور کل کے حاکم مسلمانوں کو آج کے محکوم سمجھ کر بہت خوش تھے لیکن خدا اپنے محبوب کا ساتھ نہیں چھوڑتا ہے اور نہ ہی وہ فخر کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔سلطان علی بھی خدا کی امان سمجھ کر اور اللہ کے بھروسے پر کفار کے اژدھام میں گھوڑے پر سوار بے دھڑک چلے آئے کفار نے آپکے چہرے کی طرف دیکھا ۔ آپ کے چہرے کا جلال جلوہ نور کی صورت میں موجزن تھا۔ اس جلوہ نور کی تاب کونسی آنکھ لا سکتی تھی ۔ جس نے چہرے پر نظر کی بنیائی سے محروم ہو گیا۔ ہندو فوج میں کہرام ہا ہو گیا۔ اور جب آپ راجہ جیل کے سامنے پہنچے تو وہ بھی آپ کے چہرے مبارک کو دیکھ کر بنیائی سے محروم ہو گیا۔ابھی چند لمحوں قبل جن کفار نے آپ کی شان میں گستاخیاں کرنے کے منصوبے باندھ رکھے تھے ۔ سب کچھ بھول کر آپ کے قدموں میں لوٹنے لگے ۔ ہاتھ باندھ کر معافی کے طلبگار ہوئے اور وعدہ کیا کہ اگر حضرت ہماری بینائی واپس لوٹا دیں تو آپ کی سلطنت سے کوئی اعتراض نہ کیا جائے گا۔ سلطان علی نے پانی منگوایا وضو کیا اور بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو کر دشمنوں کے لیے آنکھوں کی روشنی لوٹ آنے کی التجا کی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ وضو ہے بچا ہوا پانی جو شخص آنکھوں پر لگائے گا۔ انشاء الله بصارت پائے گا۔ تائید ایزدی سے ایسا ہی ہوا اس واقعہ کا ذکر منبع البرکات میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔
فرمود هر که آب وضو بر چشمان خود مالد بصارت او رامسر شود – اول راجه جیل و اقربا او آب مستعمل بر چشمان خوش مالید هموندم بصارت یا مستند زاں بعد تمام لشکر آب وضو مالید و بینا شده ملک خوش گرفت.اس کرامت کو دیکھ کر راجہ جیل بے نیل و مرام واپس لوٹ گیا۔ سلطان علی قلعہ میں واپس ہوئے ۔ والدہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر قدم بوس ہوئے ۔ والدہ محترمہ ابھی حالت مراقبہ میں تھیں ۔ آپ کو دیکھ کر فرمایا۔ ابھی آپ کا معاملہ رسالت باب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش تھا۔ ارشاد ہوا کہ سلطان علی اس ملک پر چالیس سال تک حکمرانی کرے گا۔
وفات سلطان علی نے کامل چالیس سال تک کوٹ کروڑ پر اس عدل وانصاف سے حکومت کی کہ ہر طرف امن و سکون اورخوشحالی کا دور دورہ تھا۔ کوٹ کروڑ ہزاروں مشائخ کیوجہ سے علم کا بہت بڑا مرکز بن گیا۔ دور دور سے علم کے پیاسے یہاں حاضر ہوتے اور فاضل و کامل مشائخ کی صحبت میں رہ کر علم لدنی و باطنی سے سرفراز ہوتے۔ حضرت کی عمر تقریباً 52 سال کے قریب پہنچ چکی تھی ۔ کہ ایک دن اچانک دیوار شق ہوئی ۔ اور ایک سفید ریش بزرگ نے نمودار ہو کر فرمایا ” اے فرزند زودشتو ! و خود را دربار گاه صمدیت برسال – و بجائے خلف برگزیده افعال سلطان جلال الدین بر تخت سلطنت نشاں۔
آپ نے یہ سنا تو تبسم فرمایا غسل کر کے سجدے میں چلے گئے اور سجدے ہی میں اپنے رب سے جاملے۔
حضرت میاں رانجھا میاں رانجھا سیلانی فقیر تھے ۔ ایک دفعہ صبح کے وقت لوگ کھیتوں میں ہل چلا رہے تھے کہ ایک سبز پوش بزرگ ہاتھ میں تسبیح اور گودڑی لٹکائے ہوئے کنوئیں کے پاس آ کر بیٹھ گئے لوگ مسافر
فقیر سمجھ کر اس کے پاس آئے اور کسی قسم کی خدمت کا پوچھا۔میاں رانجھا نے کہا کہ میرا نام رانجھا ہے۔ مجھے اس جگہ پر اللہ واسطے 3 ہاتھ ( 6 فٹ) جگہ بخش دو ۔ لوگوں نے جگہ بخش دی ۔ یہ کہہ کر میاں رانجھا ان کی موجودگی میں زمین میں غائب ہو گیا لوگوں نے بعد ازاں قبر بنادی۔ قادر بخش قوم گھاؤں جھاڑو برداری کرتا ہے۔ لوگ منتیں مانتے ہیں چوری بھی ہوتی ہیں۔

مولانا وجیہہ الدین محمد غوث

حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد غوث کی تاریخ پیدائش کا تعین نہیں ہو سکتا۔ آپ خانواده سلطان حسین کے ایک بزرگ کامل اور صاحب کرامت اولیائے اللہ میں سےتھے۔آپ کو آپ کے والد حضرت کمال الدین ابو بکر نے جو خود بھی صاحب کرامت بزرگ تھے ۔ روحانی فیض پہنچایا۔ محمد غوث اپنے والد کے مرید تھے ۔ والد کی وفات کے بعد سیر و سیاحت کے لیے نکلے۔ حصار شادمان میں شیخ محمد نور اللہ کی خدمت میں ایک ہفتہ رہ کر فیض حاصل کیا۔ دمشق میں شیخ وجیہہ الدین محمد کی زیارت کی جب آپ بغداد پہنچے تو مستنصر باللہ کا زمانہ تھا۔ حضرت امام اعظم کے مزار پر نور کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ رات کو زیارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نصیب ہوئی ۔ آپ نے حضرت محمد غوث کا ہاتھ حضرت خضر کے ہاتھ میں دیا۔ اس رات آپ کو بہت فیض پہنچا۔ چودہ سال مکہ مکرمہ میں گزار کر چودہ حج کئے۔ چودہ سال روضہ رسول پاک پر حاضر رہ کر باکمال علماء اور مشائخ سے فیض حاصل کیا اور یہاں آپ کو بے شمار فیوضات حاصل
ہوئے۔ایک رات آپ کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے وطن جانے اور وہاں تبلیغ کرنے کا اشارہ ہوا تو آپ وطن کی طرف روانہ ہو پڑے۔ واپسی پر جب شهر حامہ میں پہنچے جہاں آپ کی بزرگی اور زہد کا چرچا پہلے سے تھا۔ حضرت غوث الاعظم سیدنا عبد القادر جیلانی قدس مرہ کے فرزند حضرت شیخ عیسی قادری رحمت اللہ علیہ آپ کی زیارت کو آئے۔ انہوں نے آپ کو دیکھتے ہی نور باطن سے معلوم کر لیا کہ حضرت کی پشت سے غوث زمانہ نے تشریف لاتا ہے ۔ شیخ عیسی قادری نے آپ سے اپنی لڑکی حضرت فاطمہ کا نکاح کردیا ۔ نکاح کے بعد حضرت محمد غوث 6 ماہ تک وہیں رہے ۔ اس کے بعدکوٹ کروڑ میں واپس آگئے۔

کرامات

حضرت مولانا وجیہہ الدین محمد غوث عالم بے بدل تمام علوم میں یکتا اور علوم باطنی میں کمال درجہ پر پہنچے ہوئے تھے ۔ آپ صاحب کرامت ولی تھے ۔ آپ جب مخلوق خدا کو کسی تکلیف میں دیکھتے تو آپ سے ایسی ایسی کرامات ظہور میں آتیں کہ وہ تکالیف دور ہو جاتی تھیں۔آپ کو جب روضہ رسول سے وطن واپس جاکر تبلیغ کرنے کا اشارہ ملا آپ کرخ کے علاقے پہنچے تو وہاں کے لوگوں سے معلوم ہوا کہ قریب کے جنگل میں دو خونخوار شیر ایسے ہیں کہ اس جنگل سے سفر ناممکن ہے ۔ اور اگر کوئی مسافر بھولے سے گزرنے لگتا ہے تو یہ اسے پھاڑ کر کھا جاتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے وہاں لے چلو انشاء اللہ قدرت کاملہ سے وہ ختم ہو جائیں گے ۔ جب آپ جنگل کی طرف آنے لگے تو ایک بہت بڑا مجمع ساتھ ہولیا۔ جب جنگل میں پہنچے تو لوگوں سے فرمایا کہ درختوں پر چڑھ جاو۔ تھوڑی دیر میں دھاڑتے ہوئے دو شیر جنگل سے بر آمد ہوئے۔ لوگ خوف کے مارے درختوں پر چڑھ گئے۔ لیکن آپ وہیں کھڑے رہے۔ شیر چھلانگیں لگاتے ہوئے آپ کی طرف جھپٹے لیکن جب آپ کے چہرے مبارک پر نگاہ پڑی تو سر آپ کے پاوں میں رکھ دیئے۔ آپ نے شیروں کو سر اوپر اٹھانے کا حکم دیا۔ انہوں نے سر اوپر اٹھائے اور ایک دوسرے کے مد مقابل ہو کر آپس میں لڑنے لگے یہاں تک کہ دونوں ختم ہو گئے۔ اور لوگوں کو اس مصیبت سے نجات مل گئی۔

-2- انہی دنوں ایک قافلہ کرخ سے ہامہ جانے والا تھا۔ ان دونوں شہروں کے درمیان 4-3 دن کا فاصلہ تھا۔ اور راستہ میں قافلہ کے لٹنے کا خطرہ تھا۔ قافلے والوں نے حاضر ہو کر قافلے کے ساتھ چلنے کی درخواست کی ۔ آپ بھی حامہ جانا چاہتے تھے۔ اس لیے قافلہ کے ساتھ چلنے پر رضا مند ہو گئے ۔ بعد نماز عشاء قافلہ روانہ ہوا اور صبح کے وقت جب مرغ نے بانگ سحردی تو اہل قافلہ نے دیکھا کہ شہرحامہ سامنے ہی نظر آرہا تھا۔ تمام قافلے والوں کا مال بھی اچھے منافع پر بکا۔ آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں ۔ لیکن یہاں صرف دوہی اہل محبت کے لیے بہت ہیں۔ آپ جب حضرت فاطمہ کے ہمراہ کوٹ کروڑ پہنچے تو آپ کے بھائی حضرت شیخ احمد بہت خوش ہوئے ۔ شہر میں خوشیاں منائی گئیں ۔ شیخ احمد نے آپ سے کوٹ کروڑ کی حکومت سنھبالنے کی درخواست کی لیکن آپ نے انکار کر دیا اور جب خزانے میں سے حصہ لینے کو کہا تو آپ نے اس طرف بھی دلچسپی ظاہر نہ کی۔آپ کا زیادہ وقت حجرے میں گزرتا۔ شنگان علم جو کہ دور دور سے آپکے زہد و تقوی اور عالم بے بدل کا شہرہ سن کر حاضر خدمت ہوتے آپ ان کی تعلیم و تربیت کرتے۔یہ آپ جیسے بزرگوں کا فیضان ہے کہ یہ خطہ جو کبھی کفر کا ظلمت کدہ تھا۔ آج چپہ چپہ سے اللہ اکبر کی اذانیں گونج رہی ہیں ۔ آپ کی وفات 78-577 ہجری میں ہوئی۔ روایت ہے کہ حضرت غوث پاک بہاوالحق ذکریا ابھی بارہ سال کے تھے ۔ کہ آپ کی وفات ہوئی ۔

پیر عنائت شاہ بخاری

روایت ہے کہ کوٹ سلطان میں مرانی خاندان کی حکومت تھی دونوں بھائی بمعہ اہل و عیال آج شریف سے تشریف لائے.حضرت جلال الدین بخاری کی اولاد سے تھے ۔ جب آپ تشریف لائے تو آپ کے ساتھ کثیر تعداد میں جانور تھے۔ رش.کی وجہ سے مرانیوں نے آپ کے جانورں کو پانی نہ پالا نے دیا۔ اور پانی بھی نہ بھرنے دیتے تھے دونوں بھائیوں نےمل کر راتوں رات کنواں تیار کیا، بیبی طاقت سے کنویں سے پانی ابل پڑا۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ مرانیوں کی فصلیں تک ڈوب گئیں یہ حالت دیکھ کر مرانی آپ سے معافی کے درخواستگار ہوئے اور آپ کے معتقد ہو گئے۔ اس روایت کے راوی سید اظہر حسین بخاری ہیں ۔ اس خاندان کے سید فدا حسین شاہ بخاری کا شمار بہترین حکماء اور علماء میں ہوتا ہے۔

حضرت شیخ احمد قادری رحمتہ اللہ علیہ

حضرت کمال الدین کے دو فرزند تھے ۔ حضرت شیخ احمد بڑے تھے ۔ جبکہ حضرت محمد غوث آپ سے چار سال چھوٹے تھے ۔ والد محترم کی وفات کے بعد سلطنت کروڑ کا ہے نظام آپ کے ہاتھ میں تھا ۔ ایک رات آپ کو شیخ المشائخ سلطان علی نے عالم خواب میں علم لدنی حاصل کرنے حضرت جمال الدین سہسمانی کے پاس پہنچنے اور خدمت اقدس میں حاضر ہونے کو کہا ۔على الصبح آپ نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ امور سلطنت شیخ حسن جو کہ مخدوم عبدالرشید کے بیٹے اور آپ کے ہوتے تھے کے سپرد کر دیے۔ اور خود حضرت جمال الدین سمنانی کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے روانہ ہو پڑے جب ایک ہفتہ کے بعد ان کے سامنے حاضر ہوئے تو حضرت نے کشف باطن سے معلوم کر لیا کہ سلطان علی کے اشارے پر آئے ہیں ۔ حضرت جمال الدین نے ایک حجرہ عطا فرمایا اور اپنی نگرانی میں کامل دو سال تک چالیس مجاہدے کرائے۔ تین سال کے عرصہ میں حضرت جمال الدین سمنانی نے تمام علوم باطنی سے آپ کو مالا مال کر دیا۔ اور کروڑ واپس جانے کی اجازت دی ۔ کروڑ واپس آنے پر آپ نے امور سلطنت کی طرف توجہ نہ کی بلکہ سلطان حسن کو ہی اس کام پر مقرر رکھا۔ آپ اکثر اوقات عالم استغراق میں رہتے ۔ چونکہ اس وقت کوٹ کروڑ کو ہندوستان میں علوم ظاہری و علوم باطنی کے حصول کے لیے ایک یونیورسٹی کی حیثیت حاصل تھی ۔ حضرت احمد رحمتہ اللہ علیہ طالبان حق کی تربیت میں لگے رہتے اور آپ جب حالت وجد میں آتے تو چند ہی لمحوں میں شنگان علم کو سلوک کی وہ منزلیں طے کراتے جو کہ سالوں تک مجاہدے کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہیں۔
آپ کی شادی بھی حضرت عیسی رحمتہ اللہ علیہ کی دوسری دختر نیک اختر سے ہوئی۔ اس حرم سے حضرت احمد غوث کے چار صاحبزادے حضرت مخدوم عبدالرشیدحقانی شیخ عبدالرحمن شیخ ظاہر شیخ موسی نواب پیدا ہوئے جبکہ شیخ لعل دریا اور شیخ ملا فقیر دوسری بی بی سے پیدا ہوئے۔ جب حضرت محمد غوث کوٹ کروڑ تشریف لائے تو حضرت احمد غوث نے فرمایا لوح تقدیر میں لکھا ہے کہ شیخ عیسی کی دوسری معصومہ میرے نکاح میں آئے گی۔ حضرت محمد غوث نے یہ معاملہ اپنی زوجہ کے آگے رکھا تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ اور جب شیخ عینی رحمتہ اللہ علیہ سے نامہ و پیام کیا گیا تو رضا مند ہو گئے۔ اور یوں آپ کی شادی بی بی جنت خاتون سے ہو گئی۔ شادی کے بعد آپ نے اپنے بھائی حضرت وجیہہ الدین محمد غوث سے گزارش کی کہ وہ کوٹ کروڑ کی سلطنت سنھبال لیں ۔ لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد اپنے خزانے کو تقسیم کرنے کو کہا تو حضرت محمد غوث نے یہ بھی قبول نہ فرمایا۔ حضرت احمد غوث نے شیخ حسن کو مستقل طور پر کروڑ کی حکومت کا والی مقرر کر دیا۔ حضرت احمد غوث مجسمہ علم و عمل تھے۔ اور صاحب وجد وحال بزرگ تھے ۔ آپ کی ولایت علمیت اور زہد و فکر کا دور دور تک شہرہ تھا۔ اور طالبان حق اس چشمہ سے سیراب اور فیض یاب ہونے کیلئے دور دور سے تشریف لاتے۔
اللہ تعالیٰ نے آپ کو روحانی و دینی دولت کے علاوہ اولاد کی دولت سے بھی
سرفراز فرمایا ۔ جن میں حضرت عبدالرشید اپنے دور کے مشہور اولیاء تھے۔ آپ کی وفات کوٹ کروڑ میں ہوئی اور نہیں دفن ہوئے۔ تاریخ وفات کا تعین ناممکن ہے ۔ اور نہ ہی کسی تذکرے سے معلوم ہوتا ہے ۔ آپ کا مزار دربار لعل عیسن کے شمالی طرف واقع ہے۔

غوث الاعظم حضرت بہاو الحق زکریا رحمتہ اللہ علیہ

غوث پاک حضرت بہاوالحق زکریا سهروردی جن کا مزار مبارک ملتان میں مرجع خلائق عام ہے ۔ آپ کی پیدائش کروڑ لعل عیسن میں 66-565 (70-1169ء) ہجری میں ہوئی۔ کروڑ لعل عیسن کو اس وقت تحصیل کی حیثیت حاصل ہے ۔ اور یہ ضلع لیہ کی دوسری بڑی تحصیل ہے ۔ سید جلال بخاری اچومی ملفوظ الحدوم میں آپ کی پیدائش کے متعلق لکھتے ہیں کہ میرے مخدوم شیخ بہاء الحق رحمتہ اللہ علیہ 27 رمضان المبارک شب قدر 566 ہجری میں کوٹ کروڑ میں پیدا ہوئے ۔
حضرت غوث پاک پیدائشی ولی اللہ تھے۔ روایت ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں آپ صرف سحری اور افطاری کے درمیان سارا دن دودھ نہ پیتے تھے ۔ اور جب آپکے والد محترم تلاوت قرآن پاک کرنے بیٹھتے تھے تو حضرت غوث پاک دودھ پیناچھوڑ دیتے تھے ۔ اس روایت کو ایک عقیدت مند نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔ جب کہ قرآن پڑھتے تھے والد تیرے کان تھے تیرے بھی بس اس پر لگے ذوق تھا تجھ کو بہت قرآن کا شوق تھا تجھ کو بہت رحمان کا حضرت ابھی کم عمر ہی تھے کہ آپ کے والد نے آپ کو مولانا نصیر الدین بلخی کے پاس بٹھا دیا۔ مولانا ملٹی اس وقت کوٹ کروڑ میں رہائش پذیر تھے ۔ آپ کے علم و عمل کا شہرہ اور چرچا دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ حضرت غوث العالمین کے ذہن خداداد کا یہ عالم تھا کہ سات سال کی عمر میں قرآن پاک سات قراہ کے ساتھ حفظ کر لیا۔ اس کے بعد درسی کتابوں اور صرف و نحو کی تعلیم میں مشغول ہوئے 78-577 ہجری میں آپ کے والد محترم وفات پا گئے۔ والد کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آپ اپنے چچا حضرت غوث احمد رحمتہ اللہ علیہ سے اجازت لے کر مزید تحصیل علم کے لیے ملتان تشریف لے گئے۔ تذکرة الملتان کے مطابق آپ نے یہاں مولانا عبد الرشید کسانی سے تعلیم و معلم حاصل کیا اس کے بعدآپ نے ایران و توران کے مشائخ سے اکتساب فیض کیا ۔ وہاں سے علوم قران حدیث فقہاور تفسیر کا علم حاصل کیا۔ بخارا میں آٹھ سال قیام کیا۔ اس کے بعد زیارت حرمین الشریفین کا شوق آپ کو مکہ مکرمہ لے گیا۔ مناسک حج ادا کرنے کے بعد روضہ رسول اللہ کی زیارت سے فیض یاب ہوئے۔ سرزمین عرب میں پانچ سال تک قرب رسول میں گزارنے کے بعد بغداد تشریف لا کر شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سهروردی کے حلقہ ارادت میں شامل ہو کر سترہ دن کے اندر خرقہ خلافت سے سرفراز
ہوئے۔چونکہ قدرت خداوندی سرزمین ملتان کو قرا ملیوں سے نجات دلانے کے لیے آپ کو چن چکی تھی ۔ اس لیے تائید ایزدی سے مرشد کی طرف سے ملتان میں جاکر تسلیغ کرنے کا حکم ہوا ۔ آپ وہاں سے سیدھے ملتان پہنچے اور یہاں آگر آپ نے علم و عرفان کی شمع روشن کی جو تا قیامت بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ مستقیم پر چلنے کے لیے روشنی
مہیا کرتی رہے گی۔
آپ رئیس اولیاء تھے ۔ آپ کی کرامات بہت زیادہ ہیں ہندوستان میں سہروردی طریقت کے بانی تھے ۔ یہاں صرف ایک کرامت کا ذکر ہے ۔ روایت ہے کہ ایک دفعہ آپ نے بھنور میں ڈوبتی ہوئی کشتی کو تائید ایزدی سے سلامت کنارے پر پہنچا دیا۔ اس لیے آج بھی جب کشتی بان دریا میں کشتی چلانے لگتے ہیں۔ تو وہ مناجات خداوندی کے بعد دم بہاوالحق کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ آپ اکثر فرماتے کہ بندہ پر واجب ہے کہ وہ بندگی پرورگار میں صدق و اخلاق کو اپنا شعار بنالے ۔ ماسوائے اللہ کے تصور کو مٹائے اور عبادات و اذکار میں غیر اللہ کی نفی کرے ایسا کرنے میں بندہ کو لازم ہے کہ وہ اپنے اعمال احوال کو درست کرے۔ اور دینی اقوال وافعال میں محاسبہ نفس کرے گفتگو سے حتی المکان احتراز کرے ضرورت کے سوا کوئی بات نہ کرے۔ آپ کا مزار ملتان میں ہے ۔ ہر سال آپ کا سالانہ عرس ہوتا ہے ۔ جس میں ہندوستان اور پاکستان سے لاکھوں عقیدت مند شامل ہو کر خیر ہوتے ہیں۔آپ کے مزید حالات کے لیئے تذکرہ بہاوالدین زکریا کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

حضرت عنایت شاہ صاحب بخاری رحمتہ اللہ علیہ

حضرت عنایت شاہ بخاری کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ حضرت شہباز قلندر سندھڑی کے خلیفہ تھے حضرت عنایت شاہ کے شہباز قلندر سے خرقہ و خلافت پایا اور اٹھیں ان کی خدمت گزاری سے ہی باطنی فیض حاصل ہوا روایت کی جاتی ہے کہ حضرت عنایت شاہ صاحب لعل شہباز قلندر کے لنگر کیلئے پانی بھرا کرتے تھے اور آپنے
جس ملکے میں پانی بھرا وہ آج بھی شہباز قلندر کے مزار پر محفوظ ہے ۔ اگر اس روایت کو سند مانا جائے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ یہ میں پیر اصحاب کے بعد سب سے پہلے آنے والے ولی اللہ حضرت عنایت شاہ صاحب تھے کیونکہ حضرت لعل شہباز قلندر اور حضرت بہاوالحق ذکریا ہم زمان و ہم عصر تھے ان بزرگان دین کا دور تیرھویں صدی عیسوی تھا اس لیے حضرت عنایت شاہ بخاری کا اطراف لیہ میں آنا تیرھویں صدی ثابت ہوتا ہے ۔ جب حضرت شہباز قلندر نے سید عنایت شاہ بخاری کو خرقہ و خلافت عطا فرمایا تو آپکو حکم دیا کہ علاقہ تھل میں جا کر لوگوں میں تبلیغ کا کام سر انجام دیں آپ نے اپنے مرشد کے حکم سے وداع ہو کر فتح پور کے نزدیک ایک بستی میں آکر ڈیرہ لگایا۔ آپ کے ساتھ قوم لشاری کا ایک فرد بھی تھا یہاں آپ نے کریر یعنی (کری) کے درخت کے نیچے ڈیرہ لگایا آپکا زیادہ تر وقت عبادت میں گزرتا تھا کئی کئی دن مراقبے کی حالت میں گزر جاتے تھے ۔ کری کے اس درخت میں شہد کی مکھیوں نے چھتہ بنا رکھا تھا آپ جب کچھ کھانا چاہتے تو شہد کی مکھیاں چھتے سے اڑ جائیں آپ چھتے سے ضرورت کے مطابق شہد لے لیتے تو مکھیاں پھر چھتے پر بیٹھ جاتیں ۔ ایک مرتبہ آپ کہیں گئے ہوئے تھے ایک ہندو گڈریا بھیڑیں چراتا ہوا اس جگہ آگیا۔ اس نے کری میں شہد کا چھتہ دیکھا تو دھواں دے کر لکھیاں اڑادیں اور جس شمنی پر چھتہ لگا ہوا تھا وہ کاٹ لی اتنے میں شاہ صاحب بھی تشریف لے آئے آپ نےاسے روکا کہ شہد کو نہ کھادہ لیکن ہندو نے ان کی بات نہ مانی اور شہد کھانا چاہا لیکن شد کی چھلی جونسی گڈریے کے دانتوں سے لگی وہ پھر کی شکل اختیار کر گئی اور اس پر دانتوں کے نشان بھی لگ گئے آج بھی وہ پھر آپ کے مزار پر موجود ہے۔
اس علاقے میں سب سے پہلے آپ کے ہاتھ پر ایک عورت مسلمان ہو گئی گو کہ وہ خفیہ مسلمان ہوئی تھی لیکن کسی طرح سے ہندووں کو اس عورت کے مسلمان ہونے اور آپ سے عقیدت رکھنے کا پتہ چل گیا۔ ہندوں نے منصوبہ بنایا کہ شاہ صاحب کو قتل کر دیا جائے اس اکیلے پر چار طاقتور آدمی مقرر کیے گئے رات کے وقت جب وہ آپکے جھونپڑے میں شہید کرنے کے ارادے سے داخل ہوئے تو یہ دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے کہ عنایت شاہ صاحب کے اعضاء سارے جھونپڑے میں بکھرے ہوئے تھے وہ یہ دیکھ کر بھاگ گئے ۔ لیکن جب صبح ہوئے تو لوگوں نے دیکھا کہ شاہ صاحب زندہ سلامت ہیں جن ہندووں نے آپکو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا انھوں نے آپکو زندہ دیکھا تو ان کی قسمت جاگ اٹھی وہ مسلمان ہو گئے پھر تو لوگوں میں ایسا اعتقاد بڑھا کہ ساری بستی مسلمان ہو گئی
جب آپ نے وفات پائی تو آپ کو اسی جگہ دفن کر دیا گیا۔ حضرت عنایت شاہ صاحب کا شجرہ یوں بیان کیا جاتا ہے ۔ عنایت شاہ بن ہاشم شاہ بن حسن شاہ بن بنی شاہ بن سید بهاون شاہ بن شیخ فتح محمد بن شیخ مخدوم فرید الدین بن عبد الخالق بن عبد الجليل بن ابوالفتح بن عالم الدین بن حامد شاہ بن محمد شاہ بن ابوالفتح بن شیخ عبد الله بن معز الدین بن علاوالدین بن زین العابدین بن سیدنا امام حسین ۔

حاضر شاہ

کوٹ سلطان کے ساتھ موضع و جھیر تھل میں آپ کا مزار ہے۔ بخاری سید تھے۔ مجذوب تھے ۔لوگ آپ سے جو کچھ طلب کرتے فوراً حاضر کر دیتے اس لیے حاضر شاہ کے نام سے معروف ہوئے ۔ ہنجھیر ے اور منی وال اقوام کے لوگ آپ کو اپنا پیر مانتے ہیں ۔

حضرت مخدوم شیخ لعل عیسن

حضرت غوث العالمین بہاو الحق زکریا کے خاندان کو کوٹ کروڑ سے ملتان منتقل ہوئے۔ ساڑے تین سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ اس خاندان نے برصغیر میں داخل ہو کر دین اسلام کی جس شمع کو روشن کیا تھا۔ اس کی کرنیں پنجاب سے لے کر مشرقی بنگال تک پہنچیں۔ کوٹ کروڑ جو اس خانوادہ قریش کے دم قدم سے اسلام کا ایک عظیم قلعہ تھا۔ اب پھر سے ہندومت کا زور ہو گیا۔ لوگوں نے اسلام کی روایات کو پس پشت ڈال دیا۔ کوٹ کروڑ شیطانیت اور برائیوں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ اور یہاں کے لوگوں پر قحط مذاب الہی بن کر نازل ہو چکا تھا۔ جانور بھوک سے تڑپ تڑپ کر مر چکے تھے۔ انسان درختوں کے پتے کھا کھا کر زندگی کے ہاتھوں بے تاب تھے۔ یہ تھے وہ حالات جب ولی کامل عالم بے بدل حضرت لعل میسن کوٹ کروڑ میں تشریف لے آئے۔ آپ کا اصل نام شیخ محمد یوسف تھا۔ لیکن آپ لعل عیسن کے نام سے مشہور ہوئے۔ اور آپ کے اس معروف نام کی وجہ کوٹ کروڑ کروڑ لعل عیسن کے نام سے مشہور ہوا۔ حافظ دین محمد صاحب امام مسجد دربار حضرت لعل عیسن روایت کرتے ہیں۔ کہ حضرت محمد – لوسف حضرت شاہ عیسی بلوٹ سے محبت و عقیدت رکھتے تھے۔ اس کا زیادہ سے زیادہ وقت وہیں گزرتا تھا۔۔ شاہ عیسی بلوٹ آپ کو پیار سے لعل کہتے تھے۔ جب حضرت شاہ عیسی بلوٹ نے اس جہاں فانی سے کوچ فرمایا تو لوگ آپ کو لعل عیسنی کہنے لگے۔ جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ لعل عیسن بن گیا۔ اور آپ کا یہ نام اس طرح مشہور ہوا کہ اب آپ کا اصل نام بہت ہی کم لوگوں کو معلوم ہے اور آج تک یہ نام لعل عیسن چلا آتا ہے۔ حضرت مخدوم لعن حیسن کے والد بزرگوار اپنے وقت کے صاحب علم مرد مومن اور صاحب کرامات بزرگ تھے۔ یہ عظیم بزرگ حضرت مخدوم بہاالدین ثانی تھے۔مخدوم بہاوالدین ثانی کا مرتبہ مشائخ ملتان میں بہت بلند تھا۔ اور آپ کی بزرگی کا. شہرہ دور دور تھا۔ 931ھ میں جب شاہ حسین ارغون نے ملتان پر حملہ کیا۔ حضرت بہاوالدین ثانی کی سفارش سے باز آیا۔ اور انہی کی وجہ سے ملتان لوٹ مار اور محل و غارت سے محفوظ رہا۔ حضرت بہاوالدین ثانی کی وفات 1545ء میں ہوئی۔ مخدوم لعل عین کے ایک اور بھائی حضرت شیخ کبیر تھے۔ شیخ کبیر مخدوم محمد یوسف المعروف لعل مین سے عمر میں چھوٹے تھے۔ شیخ کبیر نے بچپن میں ایک مرتبہ والد کی پگڑی کو ہاتھ لگایا تو آپ کے والد نے فرمایا کہ بیٹا انشاء اللہ تو بھی ایک دن صاحب پک ہو گا۔ جب حضرت بہاوالدین ثانی وفات پا گئے۔ تو آستانہ خوشیہ کی گدی نشینی وجہ نزع بن گئی۔ خاندانی روایات کے مطابق تو گدی نشین ہونے کا حق محمد یوسف کا تھا۔ لیکن شیخ کبیر گدی نشین ہونے کے دعوے دار تھے۔ اور اپنے اس دعوئی کی بنیاد اپنے والد کے فرمائے ہوئے الفاظ بتاتے تھے۔ اس جھگڑے نے طول کھنچا تو فیصلہ حاکم وقت تک پہنچا۔ حاکم ملتان نے علماء اور مشائخ کو جمع کیا۔ لیکن وہ بھی گدی نشیخی پر متفق نہ ہو سکے۔ آخر کار یہ فیصلہ قرار پایا کہ دونوں بھائیوں کی پگڑیاں غوث العالمین بہاو الدین زکریا کے مزار مبارک میں رکھ دی جائیں۔ اور مزار کو تالا لگا دیا جائے۔ صبح کو دروازہ کھول کر دیکھا جائے گا کہ جس بھائی کی گڑی مزار کے تعویز کے ساتھ بندھی ہو گی وہ سجادہ نشین قرار پائے گا۔ دونوں بھائیوں کی چھڑیاں مزار کے اندر فیصلہ کے مطابق رکھی گئیں۔ اور مزار کو تالا لگا کر چابی حاکم مہان نے اپنے پاس رکھ لی۔ صبح کے وقت جب علماء و مشائخ کی موجودگی میں دربار کا دروازہ کھولا گیا۔ تو قبر کے ساتھ دونوں پگڑیاں بندھی ہوئی تھیں۔ حاکم ملتان اور علما کرام ایک مرتبہ پھر سوچ میں پڑ گے۔ لیکن چونکہ منشائے ایزدی اسی طرح تھی کہ محمد یوسف رحمتہ اللہ علیہ اپنے آبا و اجداد کے وطن کوٹ کروڑ میں رونق افروز ہوں۔ فیصلہ حضرت شیخ کبیر کے حق میں ہوا۔ شیخ کبیر آستانہ خوبیہ کے سجادہ نشین قرار پائے۔ حضرت لعل عیسن اس فیصلہ سے آزردہ ہوئے۔ غوث الاسلام حضرت بہاو الدین زکریا کے مزار میں داخل ہوئے۔ پر غم آنکھوں سے قبر پر بوسہ دیا۔ سرہانے رکھے ہوئے قلمی قران پاک کو اٹھایا۔ الوداع کر کے وہاں سے چل دیئے۔ ذہن میں منزل کا کوئی خاکہ موجود نہ تھا۔ شہر سے باہر نکلے توآپ کا رخ شمال مغرب کی طرف تھا۔رات ایک گاوں میں بسر کی خواب میں حضرت بہاو الحق زکریا کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضرت نے آپ سے فرمایا کہ بیٹا تم اتنے غمگین کیوں ہو۔ کوٹ کروڑ میں جہاں ہمارے آباد کرام نے صد ہا سال تک علم و عرفان کی شمعیں روشن کی تھیں۔ پھر اس پر بے دینی کی گھٹا ٹوپ ظلمت چھا چکی ہے۔
قدرت کو یہی منظور ہے کہ تم وہاں پر بھولی بھکی ہوئی مخلوق کو راہ ہدایت پر لے آو۔ کوٹ کروڑ میں تم میرے سجادہ کی حیثیت سے کام کرو گے اور لاکھوں بندگان خدا کو فائدہ پہنچے گا۔ آپ نے یہ بشارت سنی تو دل باغ باغ ہو گیا۔ خوشی خوشی کوٹ کروڑکی طرف روانہ ہوئے۔ آپ جب کوٹ کروڑ میں پہنچے تو یہاں کی مخلوق کو بھوک کے ہاتھوں نڈھال پایا۔ خشک سالی کے باعث سبزے کا نام و نشان تک نہ ملتا تھا۔ آپ نے شہر سے باہر ڈیرہ لگایا ۔ اور عبادت میں مشغول ہو گئے ۔ لوگوں نے جب دیکھا کہ ایک نورانی صورت شخصیت تشریف فرما ہے تو آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ۔ آپ نے جب لوگوں کو بھوک سے نڈھال دیکھا ۔ تو آپ لوگوں کی اس مصیبت کو دیکھ نہ سکے ۔ خداوند تعالٰی کی درگاہ میں دعا کے لیے ہاتھ پھیلائے ۔ آپ کی دعا قبول ہوئی ۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ جاوء دریا سے مچھلیاں پکڑو اور پکا کر کھاو ۔ لوگوں نے عرض کی دریا کی تمام مچھلیاں ہم پہلے ہی پکڑ کر ختم کر چکے ہیں ۔ آپ نے دوبارہ فرمایا کہ جاو دریا سے مچھلیاں پکڑو اور پکا کر کھاو اللہ تعالی برکت دے گا ۔ کوٹ کڑور کے تمام لوگ یہ سن کر دریا پر پہنچے ۔ تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جس دریا میں صبح تک ایک مچھلی نہ پائی جاتی تھی ۔ اب اس دریا میں مچھلیوں کی نسبت پانی بھی کم نظر آتا تھا ۔ لوگ آپ کی یہ کرامت دیکھ کر بہت معتقد ہوئے ۔ آپ کی اس کرامت کے متعلق آج تک یہ کہاجاتا ہے۔لائن آیا کبھی بک پانی دو حصے بھی یعنی کہ لعل حیسن بھی میں آیا تو آپ کے آنے کی برکت سے دریا میں ایک حصہ پانی اور دو حصے مچھلی ہو گئی ۔ اب لوگ ہر وقت پروانہ وار آپ کے پاس آنے لگے۔ آپ نے یہاں ایک مسجد کی بنیاد رکھی ۔ جو کہ اب تک آپ کے مزار کے سامنے موجود ہے ۔ کنواں کھدوایا ۔ مجرے تعمیر کرائے ۔ ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی۔ علم کے پیاسے اس چشمہ فیض سے سیراب ہونے لگے ۔ مسلمانوں میں تعلیم و تدریس کرنے کے ساتھ ساتھ آپ ہندوں میں بھی ایک خدا کی تعلیم و تبلیغ کرتے ۔ آپ کی تبلیغ سے ہزار ہا ہندو مسلمان ہوئے ۔ روایت ہے کہ ملتان میں آپ نے اپنے والد سے تعلیم دتربیت حاصل کرنے کے ساتھ دوسرے علماء وقت سے بھی علم حاصل کیا۔ آپ کے ان اساتذہ میں حضرت ملوک سندھی کا نام نامی بھی ملتا ہے ۔ حضرت لعل محیسن جب ملتان چھوڑ کر کوٹ کروڑ میں متمکن ہوئے تو آپ کے استاد محترم حضرت لملوک سندھی بھی کوٹ کروڑ تشریف لائے ۔ مولانا بھی آپ کو سجادگی کا حقدار جانتے ہوں گے ۔ اس لیے مولانا سندھی کے کروڑ آنے کی وجہ یہی ہو گی ۔ دوسرے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوٹ کروڑ میں ہزار ہا شنگاں علم جمع ہو گئے تھے۔ اس لیے قدرت ان کی روحانی تربیت حضرت ملوک سندھی سے کرانا چاہتی ۔ بہرحال پیر ملوک سندھی نے اس علاقہ میں دین اسلام کی تعلیم و تبلیغ میں اہم کردار ادا کیا ۔ مولانا سندھی نے کوٹ کروڑ میں وفات پائی ۔ یہیں دفن ہوئے ۔ مولانا سندھی کی قبر روضہ حضرت لعل حیسن کے شمال جانب آج بھی موجود ہے ۔ جس پر مولانا پیر ملوک سندھی کے نام کی ملتانی اینٹ لگی ہوئی ہے۔ حضرت لعل عیسن نے کروڑ کو جائے مسکن بنا لیا تھا۔ لیکن آپ کو سیرو سیاحت کا شوق بھی تھا ۔ آپ زیادہ تر دریائے سندھ میں کشتی کے ذریعے سفر کرتے تھے ۔ جہلم
سے لے کر سندھ تک آپ کے آنے جانے اور تبلیغ کرنے کے ثبوت ملتے ہیں۔ میاں آدم شاہ کلہوڑا جو کہ مہدوی تحریک کے بانی سید محمد جونپوری سے سلسلہ سهروردی میں بیعت تھے۔ بذات خود بھی ایک بزرگ تھے ۔ ہزاروں کی تعداد میں مرید رکھتے تھے ۔ وہ حضرت لعل عیسن سے دلی عقیدت رکھتا تھا۔ ایک دفعہ جب حضرت لعل عیسن تلمبہ میں تشریف فرما تھے ۔ یہاں آدم شاہ نے تلمبہ میں آکر ہزاروں
مریدوں کے ساتھ آپ کی قدم بوسی کی اور دل کو شاد کیا ۔ میاں آدم شاہ کلہوڑا کی آپ سے عقیدت اور محبت کا اندازہ اس بات سے چلتاہے کہ جب مغلیہ حکومت کے دور میں آدم شاہ پر فوج کشی کی گئی ۔ تو میاں آدم شاد کلھوڑا کو گرفتار کرلیا گیا اور پھانسی دینے کا حکم ہوا ۔ آدم شاہ نے اپنی جو آخری خواہش ظاہر کی وہ یہ تھی کہ اسے کوٹ کروڑ میں جا کر حضرت مخدوم لعل عیسن کی زیارت سے شرف یاب ہونے دیا جائے ۔ النڈا میاں آدم شاہ کلھوڑا کوٹ کروڑ میں آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دعا کا طلب گار ہوا۔ میاں الہی بخش سرائی لیہ روایت کرتے میں کہ حضرت لعل عیسن نے اس واقعہ کو مشیت ایزدی قرار دیا اور خدا پر راضی برضاء رہنے کی تلقین کی۔ اس موقع پر حضرت لعل عیسن نے میاں آدم شاہ کلہوڑہ کو ایک بہترین مشکی بیل تحفتاعنایت فرمایا ۔جن دنوں حضرت لعل عیسن کوٹ کروڑ میں تشریف لائے ۔ ان دنوں اس علاقہ میں بلوچ حکمران تھے ۔ دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر بلوچ آبادیاں قائم تھیں ۔ ڈیرا اسماعیل خان ، ڈیرہ غازی خان ، سرزمین لیہ ، سیت پور اور سندھ میں ٹھٹھ تک کے لوگ آپ سے گہری عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ اس دور کے حکمران اسماعیل خان ، فتح خان اور غازیخان آپ کے حد درجہ عقیدت مند تھے ۔ کوٹ کروڑ میں آپ نے جو مدرسہ قائم کیا تھا ۔ اس میں توسیع کے لیے ان حکمرانوں نے پختہ مسجد ، حجرے اور عمارات تعمیر کرائیں ۔ آپ کا مزار بھی انسی بلوچ سرداروں نے بنوایا۔ اور بعد از وفات میں حضرت لعل عیسن کی پائینتی میں مدفون ہوئے ۔
آپ کی کرامات ویسے تو بہت ہیں ۔ ایک روایت جو کہ آج بھی سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے ۔ اس کی تصدیق کتاب اذکار قلندری سے بھی ہوتی ہے ۔ ” آپ جب اپنے والد محترم کی وفات کے بعد کوٹ کروڑ میں تشریف لائے ۔ تو یہاں قحط اور خشک سالی تھی مگندم کی کاشت کا موسم تھا ۔ نہم تو زمین میں تھی تھی کہ کسان ہل چلا سکیں ۔ اور نہ ان کے پاس گندم کا بیج تھا ۔ کہ وہ فصل کاشت کر سکیں ۔ لوگوں نے آپ سے بارش کیلئے دعا کی التجا کی تو آپ نے بارگاہ خداوندی میں خشک سالی دور کر سکتے اور بارشی برسانے کیلئے گذارش کی جو کہ مقبول ہو گئی ۔ بعد از بارش لوگ پھر حاضر ہوئے کہ ہمارے پاس تو فصل بونے کیلئے بیج بھی نہیں ہے ۔ آپ نے لوگوں سے فرمایا ” کیا تمھارے پاس گندم کا بھوسہ موجود ہے 7 ” لوگوں نے ہاں میں جواب دیا ۔ تو آپ نےفرمایا کہ جاو کھیتوں میں بھوسہ بکھیر کر ہل چلا دو انشاء اللہ فصل اگ آئے گی ۔ لوگوں نے آپ کی ہدایت پر عمل کیا ۔ کھیتوں میں بھوسہ بکھیر کر مل چلا دیئے ۔ خدا کی قدرت سے بھوسے کے ڈشتمل پھوٹ پڑے اور ایسی بھرپور فصل ہوئی کہ اناج کے ڈھیر لگ گئے ۔ حضرت حاجی عبدالوہاب دین پناہ جن کا مزار مبارک دائرہ دین پناہ تحصیل کوٹ ادو میں ہے ۔ آپ کے ہم عصر اور ہم زماں تھے۔ روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت لعل عیسن مکان کی دوسری منزل سے کھڑکی میں سے سر نکال کر باہر دیکھ رہے تھے کہ حضرت دین پناہ کی کشتی خشکی پر رواں دواں تھی آپ کو یہ ناگوار گزرا اور آپ نے وہ کشتی وہیں روک دی ۔ جب حضرت عبد الوہاب دین پناہ رحمتہ اللہ نے کشتی کو رکے ہوئے دیکھا ۔ تو کشف سے سبب معلوم ہوا۔ دین پناہ نے حضرت لعل عیسن پر نظر ڈالی اور فرمایا ۔ ” اچھا سنگھلا (سینگوں والا ) کشتی تو نے روکی ہے ۔ ” حضرت دین پناہ کے یہ کہنے سے حضرت لعل میسن کے سر پر سینگ نمودار ہو گئے ۔ جن کی وجہ سے آپ کا سر کھڑکی میں پھنس کر رہ گیا ۔ حضرت لعل عیسن نے سر پر سینگ دیکھے اور خود کو بھنے ہوئے پایا تو کشتی کو روانہ ہونے کا حکم دیا کشتی روانہ ہوئی تو حضرت لعل عیسن کے سر پر سینگ بھی غائب ہو گئے ۔ آپ کا مزار انوار بلوچ سرداروں نے تعمیر کرایا تھا ۔ آپ کے مزار مبارک پر ہر سال 14 بھادوں کو ایک بہت بڑا میلہ لگتا ہے۔ جو کہ چودھویں کا میلہ کہلاتا ہے۔ اس میلے میں دور دور سے لوگ شرکت کرنے کے لیے آتے ہیں ۔ اونٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے ۔ کبڈی دورا – والی بال اور دوسرے مقامی کھیلوں کے مقابلے ہوتے ہیں ۔ آپ کے مزار مبارک پر مسجد میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ لیکن آج نہ تو مولانا ملوک سندھی جیسے جید عالم اساتذہ ، حضرت شیخ محمد یوسف لعل حیسن جیسے ولی کامل موجود ہیں ۔ کہ جس کی ایک نگاہ حیات انسانی کی کایا پلٹ دے ۔ آج ہمارے لیے ان برگزیدہ ہستیوں کے یہ مزارات بھی غنیمت ہیں کہ اگر ایک تنگ دل سے تنگ دل انسان کو جو روحانی سکون مزارات پر حاضری دینے سے ملتا ہے ۔ اس کیفیت سے صرف وہی لذت آشنا ہیں ۔ جو اس نعمت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ حضرت لعل عیسن نے جب کروڑ میں تعلیم و تربیت کا کام شروع کیا تو آپ کے نام لعل عیسن کی وجہ سے کوٹ کروڑ ، کروڑ لعل عیسن کے نام سے مشہور ہوا ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ آپ نے دریا میں ایک ٹانگ پر کھڑے ہو کر ایک کروڑ مرتبہ سورہ مزمل کا ورد کیا ۔ جب ایک کروڑ مرتبہ سورہ مزمل کا ورد ہو چکا تو آپ دریا سے باہر آئے۔ دریا کے کنارے کھجوروں کے درخت تھے ۔ اور پھل لگے ہوئے تھے ۔ آپ نے کھجور کے درخت سے لگے ہوئے ایک خوشے کی طرف انگلی کا اشارہ کر کے
سورہ مزمل کی ایک آیت پڑھی تو خوشہ ایک دم درخت سے کٹ کر نیچے آ گرا۔ آپ کے بھائی شیخ کبیر جو کہ دربار غوث العالمین حضرت بہاوالحق ذکریاء رحمتہ اللہ علیہ کے سجادہ نشیں تھے ۔ 1587ء میں رحلت فرما گئے ۔ لیکن حضرت لعل عیسن رحمتہ اللہ علیہ کی وفات تاریخ تا معلوم ہے ۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ آپ کی وفات 1580ء اور 1600ء کے درمیان ہوئی ہو گی ۔ حضرت لعل عیسن کی روحانیت سے ہزار ہا لوگوں نے فائدہ اٹھایا ۔ آپ جس شخص پر بھی ایک نگاہ قلندرانہ ڈالتے وہ دنیاداری چھوڑ اللہ سے لو لگاتا ۔ آپ روحانیت اور علم باطنی کے اس مقام و درجے پر فائض تھے جہاں اولیائے اللہ سالوں کے مجاہدے اور عبادت کے بعد پہنچ پاتے ہیں ۔ حضرت لعل عیسن جب ملتان سے کوٹ کروڑ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ کوٹ کروڑ کے راستہ سے نا واقف تھے ۔ جب آپ یہ کے علاقہ تھل میں پہنچے تو آپ نے ایک شخص غلام حسن سے راستہ پوچھا جو کہ کھیتوں کو بذریعہ کنواں پانی دے رہا تھا ۔ آپ نے اس غلام حسن سے کوٹ کروڑ کا راستہ پوچھا تو غلام حسن نے جواب دیا کہ کروڑ دا رستہ دکھاواں یا توڑ پہنچاواں (یعنی کہ صرف راستہ ہی بتا دوں یا کوٹ کروڑ پہنچا کر آوں ) ۔ حضرت لعل حیسن نے جواب دیا۔ میاں بہتر تو یہی ہے کہ مجھے کوٹ کروڑ پہنچا دو – غلام حسن نے کام وہیں چھوڑا ۔ آپ کے ساتھ چل پڑے اور آپ کو کوٹ کروڑ پہنچا کر واپس آنے لگے تو جیب سے کچھ رقم نکال کر حضرت لعل عیسن کی خدمت میں پیش کی ۔ آپ اس لن کا خلوص اور ایثار دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور فرمایا واہ میاں حسن ہتھوں ڈیون نے راہ ولی ڈسن ( واہ میاں حسن ایک تو مجھے منزل پر پہنچایا دوسرے جیب سے رقم بھی دے رہے ہو)آپ غلام حسن سے بہت خوش ہوئے اس سے معانقہ کیا اور فرمایا حسن تو نے ہمیں منزل تک پہنچایا جا میں نے بھی تجھے تیری منزل تک پہنچا دیا ۔ آج سے دنیا تجھے حسن شیر کے گی۔حسن شیر واپس گھر آیا تو کار جہاں چھوڑ عبادت الہی میں مشغول ہو گئے ۔ حسن شیرکے مزار پر ہر سال میلہ بھی لگتا ہے۔

حضرت جهان شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ

دربار جهان شاہ بخاری رحمتہ اللہ علیہ کا مزار نہر کا لونی کے جنوب کی طرف واقع ہے ۔ آپ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے ۔ حضرت جهان شاه بخاری صاحب جلال بزرگ تھے ۔ علاقے بہاول پور کی طرف سے یہاں تشریف لائے روایت کی جاتی ہے اور اس روایت کے تصدیق 1878.80ء کے ریکارڈ بندوست سے بھی ہوتی ہے ۔ که سید جهان شاہ بخاری علاقے بہاول پور سے لیہ میں 1770ء اور 1779ء کے دوران آئے آج کل جہاں آپ کا مزار ہے ۔ آپ نے اس جگہ کو غیر آباد دیکھ کر ڈیرہ لگایا۔ آپ کے ساتھ آپکا ہمشیرہ زادہ سید مرید حیدر شاہ بھی آیا جب آپ کی بزرگی اور فقیری کا چرچا دور دور تک ہوا تو بہت سی اقوام کے لوگ آپ کے معتقد ہو گئے ۔ حسن خان لسکرانی جو کہ اس وقت منکیرہ کے جسکانی حکمران کی طرف سے لیہ کا صوبہ دار تھا سید جہان شاہ بخاری کا معتقد تھا حسن خان لسکرانی نے آپ کو کچھ رقبہ برائے آباد کاری دیا اور ایک کنواں اپنی لاگت سے بنوا کر دیا اور اس کنواں سے سیراب ہونے والی زمین اور پیدا ہونے والی فصل پر لگان بھی معاف تھا چونکہ سید جہان شاہ رحمتہ اللہ نے شادی نہ کی تھی اس لیے جب آپ نے وفات پائی تو سید مرید شاہ جو کہ آپ کا بھانجا تھا ۔ اس کنویں اور زمین کا مالک بنا۔ اس نے آپ کی قبر پر پختہ مزار تعمیر کروایا اور خود اس کا مجاور بن گیا۔

حضرت محمد راجن بخاری سهروردی عرف سدا بھاگ رحمتہ اللہ علیہ

سر زمین ہندو پاکستان میں حضرت سید جلال الدین سرخ بخاری سہروردی کے خاندان کا کردار اشاعت اسلام میں نمایاں ہے ۔ سید جلال الدین بخاری جن کا مزار مبارک اچ مبارک میں ہے ۔ بخارا سے ملتان تشریف لائے۔ ملتان میں حضرت بہاء الدین زکریا سہروردی کی خدمت میں رہے ۔ چھ سال اپنے پیر طریقت کی خدمت میں رہنے کے بعد فرقہ خلافت سے نوازے گئے ۔ اور آپ کو سلسلہ سہروردی کو آگے بڑھانے کی اجازت مل گئی ۔ ملتان سے اچ شریف سکونت اختیار کی اور اشاعت اسلام میں نہایت سرگرمی سے حصہ لیا۔ حضرت سید جلال الدین بخاری مسلک حنفی سهروردی
سے وابستہ تھے۔
سید محمد راجن سدا بھاگ انہی بزرگ کی اولاد میں سے تھے۔ سید محمد راجن کے والد گرامی شیخ حامد کبیر ثانی دربار حضرت جلال الدین سرخ بخاری کے سجادہ نشین تھے۔ ان دنوں ملک میں افرا تفری کا سماں تھا۔ اچ شریف پر کئی حملے ہوئے اور کئی بار لوٹا گیا۔ لہذا 933 ہجری میں جب شاہ ارغون والی سندھ نے اچ شریف پر حملہ کیا۔ شہر کا مال و اسباب لوٹ کر کشتیوں میں بھر کر لے گیا تو حضرت شیخ حامد کبیر ثانی روز روز کے حملوں سے تنگ آکر بمع اہل و عیال نقل مکانی کر کے عیسی خیل ضلع میانوالی میں سکونت پذیر ہو گئے۔
سید محمد راجن بھی اپنے والد محترم کے ساتھ عیسی خیل میں رہائش پذیر ہوئے ۔ آپ کی شادی مبارک خان لنگاہ کی بیٹی سے ہوئی تھی۔ جس سے آپ کا ایک بیٹا سید زین العابدین تھا۔ جس سے آپ کو بہت زیادہ پیار تھا۔ جب سید زین العابدین عالم جوانی میں وفات پا کر موجودہ قصبہ راجن شاہ میں مدفون ہوئے تو حضرت محمد راجن رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے کے جائے مدفن کو جائے مسکن بنایا۔ ان دنوں یہاں جنگل تھا۔اور اس جنگل میں ایک قوم بسلیم رہتی تھی ۔ یہ قوم مویشی پالتی اور لوٹ مار سے زندگی کے گزراوقات بسر کرتے۔ اور جب ان پر حملہ کیا جاتا تو جنگل میں چھپ کر جان
بچاتے۔
سید محمد راجن نے اس قوم سے جنگ کر کے جنگل سے نکال دیا۔ جنگل صاف کرا کر آبادی شروع کی۔ اپنے پیارے بیٹے سید زین العابدین کا مزار تعمیر کرایا۔ رہائش کے لیئے مکانات بنائے اور ایک تعلیمی درسگاہ کی بنیاد رکھی ۔ آپ کے مریدین اور منتقدین نے بھی یہاں رہائش اختیار کی اور تھوڑے ہی عرصہ میں اچھی خاصی آبادی ہوگئی۔سید محمد راجن اپنے زمانے کے بہت بڑے ولی کامل ذی علم متقی صاحب ذوق شوق اور صاحب کرامت بزرگ تھے ۔ اوائل عمر میں آپ نے اپنے دادا حضرت مخدوم سید کیمیا نظر بخاری سے اچ شریف میں تعلیم حاصل کی ۔ اپنی ذہانت چرب لسانی اور وضاحت بیانی کی وجہ سے ممتاز علماء اور اولیاء میں شمار ہوتے تھے۔ آپ نے علاقہ تھل میں جنگل شکافی کر کے جس علمی درسگاہ کی بنیاد رکھی تھی جلد ہی اس کا شہرہ دور دور تک پہنچا۔ آپ کی تعلیم و تدریس سے ہزار ہا شنگان علم کی سیرابی ہوئی۔ اور ہزار ہا لوگ آپ کے خلوص محبت اخلاق سخاوت اور تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام لائے۔ سخاوت میں آپ کا ثانی نہ تھا۔ طالبان علم جو کہ دور دور سے آپ کے پاس آتے ۔ آپ ان کے رہائش و خوراک کے تمام اخراجات خود برداشت کرتے۔ سوالی کو کبھی در سے خالی نہ لوٹاتے ۔ آپکو آپ کی اسی سخاوت کی وجہ سے سدا بھاگ (ہمیشہ کا بخت)کہا جاتا ہے۔ جب حضرت سید محمد راجن کا خاندان اچ شریف سے عیسی خیل منتقل ہو گیا تو سید جلال الدین سرخ بخاری اور دوسرے بزرگوں کے مزارات کی سجادگی اور گدی نشینی بھی آپ کے خاندان سے چلی گئی ۔ اور آپ کی عدم موجودگی میں سید رحمت اللہ شاہ چاندنہ چراغ نے تمام خانقاہوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ سید محمد راجن بخاری نے جب حالات پر سکون دیکھے اور آپ کے پاس مریدین کی جمعیت بھی کافی ہو گئی تو آبائی خانقاہوں کو دوبارہ حاصل کرنے کا پروگرام بنایا۔ اپنے پوتے سید حسن جہانیاں رحمتہ اللہ علیہ کی سربراہی میں اپنے مریدین اور معتقدین کی ایک زبردست فوج تیار کی اور انہیں حکم دیا کہ اوچ شریف پہنچ کر سید رحمت اللہ شاہ چاند نہ چراغ سے تمام خانقاہیں چھین لو اور انہیں اوچ شریف سے نکال دو۔ سید حسن جہانیاں کافی جمعیت لے کر اورچ شریف پر حملہ آور ہوئے ۔ سید رحمت اللہ شاہ نے بڑی بہادری سے مقابلہ کیا لیکن فتح مخدوم حسن جہانیاں کو ہوئی۔ سید رحمت اللہ شاہ اچ شریف چھوڑ کر چلے گئے۔ اور سید جلال الدین سرخ بخاری کی سجادگی مخدوم حسن جہانیاں کے قبضے میں آگئی۔ مخدوم حسن جہانیاں تو غالبا اچ شریف میں منتقل ہو گئے لیکن سید محمد راجن نے اپنے بیٹے کی تربت چھوڑنا برداشت نہ کیا۔ اپنی نگرانی میں خانقاہ تعمیر کرائی اور بعد ازاں وفات اس مقبرے میں دفن ہوئے۔
حضرت سید محمد راجن نے علوم متداولہ اپنے والد اور اپنے دادا سے حاصل کیئے ۔ اپنے والد کی نگرانی میں مجاہدے کیئے۔ آپ کا شمار اپنے زمانے کے چوٹی کے علماء اور اولیاء میں ہوتا تھا۔ آپ کے زہد و تقوی اور بزرگی کی شہرت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب آپ دہلی میں دربار مغلیہ پہنچے تو مخدوم الملک عبداللہ لاہوری جو کہ قاضی القضاۃ تھا۔ آپ کی علمی قابلیت ، زہد و تقوی کی شہرت سن کر جل اٹھا۔ اور آپ پر را قضصیت کا الزام لگا کر بادشاہ کو آپ سے بدظن کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن ہمایوں نے آپ کے استقبال کے لئے اپنے امراء اور بیٹے اکبر کو بھیجا اور دربار میں آپ سے نهایت ادب کے ساتھ پیش آیا۔ حضرت سید محمد راجن بخاری کا خاندان سلسلہ سہروردی سے منسلک رہا ہے لیکن حضرت مخدوم جلال الدین جہانیاں جہانگشت سلسلہ چشتیہ اور سلسلہ قادریہ میں بھی خرقہ و خلافت کے حامل تھے۔ حضرت محمد راجن بھی اپنے آباواجداد کے سلسلہ اور مسلک کے پیروکار تھے اور دین اسلام میں تفرقہ بازی پیدا کرنے والوں کے خلاف تھے ۔ آپ کے مسلک سے متعلق بھی ابہام پیدا کیئے جا رہے ہیں جیسا کہ رسالہ ناردن الزمن میں کتاب مجالس المومنین کے حوالے سے آپ اور آپ کے خاندان کا مسلک شیعہ بیان کیا گیا ہے ۔ مخدوم الملک عبداللہ لاہوری دربار ہمایوں اور دربار اکبری میں قاضی القضاۃ کےعہدے پر فائض تھا ۔ یہ شخص چڑھتے سورج کا پجاری، خوشامدی ، لالچی اور دولت کا حریص تھا۔ ہر ممکن اور ناممکن طریقہ سے دولت سمیٹنے میں لگا رہتا تھا مخدوم الملک نے بظاہر تو ایک بہت بڑے عالم کا سوانگ رچا رکھا تھا لیکن حقیقت میں وہ رشوت ، ہیرا پھیری اور ناجائز ذرائع سے دولت جمع کرنے میں مصروف رہتا ۔ خود کو زکواۃ سے بچانے کے لئے وہ اپنی تمام دولت اپنی بیوی کے نام پہ کر دیتا تھا اور پھر دو تین ماہ کے بعد واپس لے لیتا اور اس طرح خود کو صاحب نصاب ہونے سے بچا لیتا ۔ مخدوم الملک نے اپنے گھر کی حویلی میں بڑی بڑی قبریں بنا رکھی تھیں جنہیں وہ اپنے آباد اجداد کی قبریں بتاتا تھا ۔ لیکن جب شہنشاہ اکبر نے ان قبروں کو کھدوایا تو ان قبروں میں ہیرے جواہرات ، سونا، چاندی جو کہ کروڑ ہا روپے کی مالیت بنتی تھی برآمد ہوئی۔ مخدوم الملک کو دربار ہمایوں و دربار اکبر میں بلند رتبہ حاصل تھا۔ اور وہ ہر اس شخص کا دشمن بن جاتا تھا ۔ جس کے متعلق اسے ذرا بھی شبہ ہو تا کہ وہ شخص دربار میں رہ کر مخدوم الملک کا مرتبہ کم کرنے کا سبب بن سکتا ہے ۔ چونکہ سید محمد راجن ایک بلند مرتبہ عالم ، متقی اور زاہد بزرگ ولی اللہ تھے ۔ اس لیئے مخدوم الملک کو خدشہ تھا کہ سید محمد راجن کی دربار مغلیہ میں موجودگی سے اس کی تمام بدکرداریوں کا پول کھل سکتا ہے ۔ لہذا اس نے جہاں آپ سید محمد راجن سے بادشاہ کو بد گمان کرنے کے لئے دوسرے کئی ہتھکنڈوں سے کام لیا ہو گا ۔ وہاں اس نے آپ پر را قصیت کا بھی الزام لگایا۔
رسالہ نادرة الزمن صفحہ نمبر 5 پر مولانا وصی حیدر خان کتاب مجالس المومنین کے حوالے سے سید جلال الدین سرخپوش بخاری کے حالات میں لکھتے ہیں ” سید مذکور” ( سید جلال سرخپوش ) حالات کی نا مساعدت کی وجہ سے عراق سے کوچ فرما کر بخارا میں تشریف لائے اور جب بخارا میں بھی امن و سلامتی نظر نہیں آئی تو وہاں سے دارالحرب کابل ہجرت فرمائی لیکن کابل میں جن لوگوں سے واسطہ پڑا ان کے حالات بھی سابقہ جگہوں سے مختلف نہیں تھے لہذا وہاں پر بھی نہ شہر سکے ان کی تنگ نظری اور تعصب کی وجہ سے ہجرت کرکے وارد ہندوستان ہوئے سو یہاں بھی لوگوں کے حالات و عقائد حنفی تھے لیکن بادل نخواستہ یہاں پر قیام کیا اور از راہ تقیہ زندگی گزارنی شروع کی اور مدت مدید تک اپنے آباو اجداد کے مذہب کو چھپائے رکھا یہاں تک کہ نااہل قسم کے لوگوں کے ربط اور جہلا کی مصاحبت کی وجہ سے آپ کی بعض اولاد اپنے آبائی مذہب ( شیعہ) کو خیر باد کہ بیٹھی۔
آگے چل کر اسی رسالہ میں سید محمد راجن کے حالات میں لکھتے ہیں لیکن آپ ( سید جلال سرخپوش بخاری ) کی اولاد میں سے ایسے بزرگوار بھی گزرے ہیں کہ جنہوں نے اعلائے کلمتہ الحق اور اپنے آبائی مذہب (شعیہ) کی ترویج میں کارہائے نمایاں انجام دیئے جن میں سرفہرست اسم گرامی جناب السید راجو البخاری کا ہے جنہوں نے ترک تقیہ کر کے کھلم کھلا تبلیغ فرمائی ۔ سید قاضی نور اللہ نے اپنی کتاب مجالس المومنین میں سید محمد راجن کو اس لئے شیعہ لکھا تھا کہ مخدوم الملک نے آپ پر شیعہ ہونے کاالزام لگایا تھا مخدوم الملک جس کا اصل نام عبداللہ تھا۔
علامہ نور اللہ شوستری نے سید محمد راجن کے حالات میں جو کچھ بھی لکھا ہے ۔ وہ حالات واقعات اور تاریخی و سوانحی کتب کے مطالعہ سے غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ سید جلال الدین بخاری سلسلہ سہروردی میں غوث العالمین حضرت غوث بہاء الدین زکریا سے بیعت تھے عرصہ چھ سال تک ان کی خدمت میں رہ کر فرقہ خلافت حاصل کیا ۔
حضرت سید جلال الدین بخاری کی ملتان میں آمد سے متعلق نور احمد خان فریدی لکھتے ہیں ” جن دنوں حضرت غوث العالمین (بہاء الدین زکریا) بخارا میں رہتے تھے ایک نجیب الطرفین سید حضرت علی کو آپ سے بڑی عقیدت ہو گئی ۔ آپ کے ملتان آنے کے بعد بھی وہ ہمیشہ آپ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے ان کے نوجوان صاحبزادے سید جلال اپنے والد کی زبان سے بار بار تعریف سن کر حضرت غوث العالمین کے معتقد ہو گئے اور ارادات و عقیدت یہاں تک پہنچی کہ ایک مرتبہ والد بزرگوار سے اجازت لے کر ملتان کو چل پڑے اگرچہ وہ زمانہ بے حد تشویشناک تھا بخارا سے ملتان تک خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اس کے باوجود آپ سچی تڑپ اور طلب صادق کی حفاظت میں بخیر و عافیت ملتان پہنچ گئے۔ ملتان پہنچ کر حضرت بہاء الدین زکریا کی خدمت میں رہنے لگے۔ علوم روحانی سےبہرہ ور ہو کر خرقہ خلافت پایا۔ اچ شریف میں رہائش اختیار کر کے محلہ بخاریاں کی بنیاد رکھی حضرت جلال الدین بخاری مسلک حنفیہ کے نہایت سچے پیروکار او دین اسلام کے مبلغ تھے خاندان سید محمد راجن کے عقائد کیا تھے اس کے متعلق حضرت مخدوم جلال الدین کی کتاب ” الدرا المنظوم ” کا حوالہ پیش خدمت ہےیعنی ہم رسول اللہ کے کسی صحابی سے بیزاری کا اظہار نہیں کرتے اور یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے درمیان اہلسنت و الجماعت اور درمیان روافض کے کیونکہ وہ بیزار ہیں صحابہ سے سوائے علی کے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح فرمان ہے کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے تم جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پاوء گے ۔ اور اگر انکار کروگے تو گمراہ ہو جاوٴ گے ۔ پس ہم سب صحابہ کو برابر واجب الاحترام جانتے ہیں لیکن شیعہ حضرات صرف حضرت علی سے باقی تمام صحابہ کے مقابلے میں زیادہ محبت رکھتے ہیں اور یہ اعتقاد را فضیوں کے اعتقاد سے زیادہ قریب ہےحضرت مخدوم الدرا لمنظوم میں صفحہ 238 پر تحریر کرتے ہیں ۔
وافضل الناس بعد النبي صلى الله علیہ وسلم ابوبكر ثم عمر ثمه عثمان ثمه على ترجمہ – حضرت محمد کے بعد حضرت ابو بکر ان کے بعد حضرت عمران کے بعد حضرت عثمان اور ان کے بعد حضرت علی بالترتیب تمام لوگوں سے افضل ہیں حضرت مخدوم بخاری کا درج بالا اعتقاد مسلک شیعہ کے بالکل خلاف ہے۔ لہذا یہ کب ممکن ہو سکتا ہے کہ حضرت مخدوم جلال الدین تقیتا مسلک شیعہ سے وابستہ ہوں لیکن تعلیم و تبلیغ مسلک حنفی کی نشر و اشاعت کرنے کی بجائے خاموشی کو بہتر سمجھتے لہذا آپ کے خاندان سے متعلق یہ گمان کرنا کہ وہ مسلک شیعہ کا پیروکار تھا ۔ ناصرف خلاف حقیقت ہے بلکہ آپ جیسے عظیم ولی کامل کی سیرت و کردار سے متعلق ابہام پیدا کرنے کی ایک
دانستہ کوشش ہے ” حضرت سید جلال الدین بخاری سرخ پوش غوث العالمین حضرت بهاء الدین زکریا کے مرید تھے سلسلہ سہروردیہ آپ کے خاندان کے بزرگوں سے ہندوستان کے چپے چپے میں پھیلا ۔ حضرت سید جلال الدین جلال جہانیاں جہانگشت نے حضرت ابوالفتح شاہ رکن عالم سے خرقہ خلافت پایا تھا۔
کیا حضرت غوث العالمین ، حضرت بہاء الدین زکریا اور قطب الاقطاب شاہ رکن عالم جیسے عظیم اولیاء کرام بھی اپنے مریدوں کے اصلی مسلک اور مذہبی عقائد سے واقف نہ ہوسکے ۔ جن کے کشف و کرامات کی گواہی سرزمین پاکستان کا ایک ایک ذرہ دے رہا ہے ۔ حضرت محبوب الہی دہلوی آپ کے متعلق فرماتے ہیں ” حضرت شیخ الاسلام بہاء الدین زکریا نے درویشی کے ستر ہزار علوم طے کر لیتے تھے اور ان پر اپنے عمل کو حد کمال تک پہنچا دیا تھا ۔ انہیں اتنی روحانی قوت حاصل ہو چکی تھی ۔ اگر آسمان کی طرف نظر اٹھاتے ۔ عظمت عظیم بے حجاب مشاہدہ کرتے اور اگر زمین پر نظر کرتے تو تحت الشرکی تک کی چیزیں دکھائی دینے لگتیں لہذا جن بزرگوں کا تصوف کی دنیا میں یہ مقام ہو وہ اپنے زیر تربیت مریدین کی دلی کیفیات تک رسائی نہ رکھتے ہوں اور انہیں شہرقہ ہائے خلافت عنایت فرما کر سلسلہ کو
آگے چلانے کی اجازت مرحمت فرما دیں ۔ یہ کبھی بھی ممکن نہیں ہو سکتا۔ ان تمام حالات واقعات اور تاریخی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات تسلیم کرنا پڑتی ہے کہ نہ تو حضرت سید محمد راجن بخاری مسلک شیعہ سے منسلک رہے ہیں اور نہ آپ کے آباو اجداد کا مسلک کبھی شیعہ رہا ہے اور نہ انہوں نے کبھی تقیہ کی حالت میں زندگی گزاری۔ عام طور پر روایت کی جاتی ہے کہ سید محمد راجن نے اپنے حالات و ملفوظات پر ایک کتاب قلمی تحریر کی تھی ۔ جو کہ بعد میں اس لیئے دانستہ چھپائی گئی اس سے آپ کے عقائد اور مسلک حنفی کی وضاحت ہوتی تھی۔ آپ کے مزار مبارک پر ایسی منقش اور لکھی ہوئی سلیں لگی ہوئی تھیں جن سے آپ کے عقائد حلفیہ کی توسیقی ہوتی تھی۔ لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ یہ اینٹیں اکھاڑ کر کسی جگہ دفن کردی گئی تھیں ۔
حضرت سید راجن بخاری کے آباو اجداد نهایت دین دار با عمل مسلمان اور مسلک حنفی کے بچے پیروکار تھے آپ کی اولاد امجد بھی بعد میں ہیں پشتوں تک مسلک حنفی سے منسلک رہی لیکن مخدوم نوبہار ثالث کے دور سجادہ نشینی میں یہ خانوادہ مسلک اہل سنت و الجماعت کی آغوش سے نکل کر مسلک اہل شیعہ سے مربوط ہوگیا ، مسلک کی اس تبدیلی پر مولانا نور احمد خان فریدی کا علم ان الفاظ میں نوحہ خانی کرتا ہے ۔ مخدوم حامد نو بہار ثالث اپنے والد ماجد مخدوم ناصر الدین رابع کے بعد سجادہ نشین ہوئے ہیں جنہوں نے قبلہ عالم خواجہ نور محمد صاحب مہاروی سے بیعت کی اور ایک ہزار بیگھ جاگیر جھیلن والی بھی اپنے پیر کی نذر کی جو آج تک مہاروی صاحبزادگان کے قبضے میں چلی آتی ہے اس طرح اس آستان کا تعلق حضرات چشت اہل بہشت سے مربوط رہتا ، تو پھر کوئی بات نہ تھی ۔ کیونکہ ان خانوادوں نے ہمیشہ یک جہتی سے خلق خدا میں اصلاح نفس کا کام کیا ہے ۔ خود حضرت مخدوم جہانیاں بھی چشتی سہروردی تھے لیکن افسوس ہے کہ روحانیت کا یہ بہت بڑا مرکز نہ صرف ان خانوادوں سے چھن گیا ۔ بلکہ اہلسنت و الجماعت کی آغوش شفقت سے بھی نکل گیا۔
ہے۔
انالله وانا اليه راجعون
آپ کے خاندان مسلک شعیہ کا کب پیرو کار بنا وہ درج ذیل شجرہ سے ظاہر ہوتاہے
سید جلال الدین سرخ بخاری سهروردی

سید احمد کبیر بخاری
جلال الدین حسین جہانیاں جہا نگشت
سید ناصر الدین محمود بخاری
سید حامد کبیر احمد
سید رکن الدین بخاری

مخدوم سید کیمیا نظر بخاری

سید حامد کبیر ثانی

مخدوم سید محمد راجن بخاری عرف سدا بھاگ

سید زین العابدین  مزار لیہ

سید حسن جہانیاں اچ شریف

غلام سید ناصر الدین والی

سید محمود ناصر الدین ثانی

سید نو بهار اول نو
سید غلام علی سبز امام
سید غلام علی سبز امام
سید ابر شماه
سید غلام شما
غلام سید ناصر الدین
مخدوم نو بهار ثالث

مخدوم نو بہار ثالث ہی وہ بزرگ ہیں جنہوں نے مسلک شیعہ اپنایا

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com