لیہ کی صحافت

لیہ میں اردو صحافت کا آغاز وارتقاء

پروفیسر ڈاکٹر ظفر عالم ظفری

صحافت انسانی معاشرے کا اہم ستون ہے۔ تاریخ انسانی گواہ ہے کہ صحافت نے انسانی اذہان ، اقدار، معاشرت اور اخلاق بدلنے میں بے مثل کام کیا ہے۔ صحافت سچائی کا اظہار اور کسی بھی سرکش کو ضابطے میں رکھنے کا کام کرتی ہے۔ صحافت کیمرے کی آنکھ ہے جو جیسے اور جہاں دیکھتی ہے اسے من وعن بیان کر دیتی ہے۔ صحافت نے تاریخ کا رخ موڑنے اور معاشرے میں انقلاب برپا کرنے کا کام کیا۔ سماج کو روشنی دی اور لوگوں کو باشعوربنایا۔
انگریزی معاشرے میں سٹیل اور ایڈیسن کے رسائل "سپیکٹیر“ اور ” ٹیٹلر نے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اسی طرح سرسید احمد خاں نے ” تہذیب الاخلاق ” کے ذریعے اخلاقی ،سماجی ، مذہبی علمی اور ادبی تحریریں لکھ کر مسلمانوں کی سوچ کے دھارے بدل دیئے۔ صرف یہی نہیں آج اُردو زبان و ادب جس فقید المثال مرتبے پر فائز ہے اس میں اخبارات در سائل کا کردار بہت اہم ہے۔اُردو صحافت کی تاریخ میں کلکتہ سے جاری ہونے والے جامِ جہاں نما کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ جو ۱۸۲۲ء میں جاری ہوا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ اردو اخبارات و رسائل کے اجراء کا سلسلہ چل نکلا۔ کچھ اخبارات خالص علمی و ادبی اور سوشل موضوعات کا احاطہ کرتے تھے اور کچھ ملکی وغیر ملکی خبریں پہنچانے کو اہمیت دیتے تھے لیکن اس وقت ان کا لب ولہجہ نہایت دھیمہ اور ٹھنڈا ہوتا تھا۔ یہ کہنے میں بھی مجھے کوئی عذر نہیں کہ اس عہد کے اخبارات کا مزاج نہ صرف دھا تھا بلکہ مصلحت وقت کے تابع ہو گیا تھا۔
ہر عہد میں صحافت کے تقاضے، ان کے رویے اور ان کا مزاج بدلتا رہا ہے۔۱۸۷۷ء سے ۱۹۱۲ء تک ظریفانہ اخبارات کا غلغلہ بلند رہا۔ کم و بیش ۱۵۰ خالص ظریفانہ اخبارات تاریخ اردو صحافت کا حصہ بنے۔ ان اخبارات نے مغربی تہذیب ، سمندر پار سے آئے ہوئے انگریز اور غیر ملکی تہذیب اختیار کرنے والوں کو ہدف طنز بنایا۔ بیسویں صدی کے آغاز میں صرف تین روزنامے موجود تھے۔ اول پیسہ اخبار ، دوم اودھ اخبار سوم صلح کل ۔
ان کے ساتھ ہی بیسویں صدی کے آغاز میں سیاست کے تیور بدلے تو سخت لب و لہجے کے ساتھ بہت سے
اخبارات منظر عام پر آئے۔عبد السلام خورشید نے لکھا ہے:صدی کا رخ پلٹنے کے ساتھ جب سیاست نے انقلابی کروٹیں لیں تو نئے اخبارات جاری ہوئے ان میں سر فہرست زمیندار ، الہلال اور ہمدرد تھے۔ یہ محض اخبار نہیں قومی ادارے بھی تھے۔ اور ان کی ادارت پر جو شخصیات فائزتھیں وہ محض اخبار نویس ہی نہیں سیاسی شخصیات بھی تھیں۔ جو کر داران کا تھا اس کے برابر اس دور میں کسی کا کردار نہ تھا ۔“ان اخبارات نے خالص انگریزوں اور محکوم ہندوستانیوں کو خوب جھنجوڑا۔ عوام کو بیدار کرنے اور ان کی حالت پر انھیں سوچنے پر مجبور کیا۔ "زمیندار” میں ظفر علی خاں نے انگریزوں کے خلاف سخت گیر رویے کو پروان چڑھایا۔ اس کے نتیجے میں اخبار کو حاکمان وقت نے بند کر دیا۔
اسی طرح الہلال اور ہمدرد کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اس عہد میں اور بہت سے اخبار بھی منظر عام پر آئے جس میں مہر و سالک کے انقلاب کو خاص اہمیت حاصل ہوئی۔ ان سب نے مل کر آزادی کی جدو جہد کو تیز کیا۔ اور پھر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ زمیندار ، انقلاب، نوائے وقت ، جنگ اور دیگر اخبارات کے موضوعات بدلے اب ان کے مخاطب غاصب انگریز یا ہندو نہ تھے بلکہ پاکستان کے حکمران یہاں کی حکومتیں ، سیاسی وسماجی حالات اور نئے جنم لینے والے مسائل تھے۔
قیام پاکستان کے بعد ملک کے چپے چپے سے اخبارات کا اجراء ہوا اور حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا رجحان غالب ہو گیا۔ صحافت عوام کی ترجمان بنی ، ان کی زبان بنی اور ان کے دکھ کا مداوا ہونے لگا۔ پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح لیہ سے بھی اخبارات کا اجراء ہوا۔ یہ وہ دور تھا جب یہ ضلع نہیں بنا تھا۔ ۱۹۵۷ء میں لیہ سے پہلا ہفت روزہ "جانباز کے نام سے شائع ہوا۔ اس اخبار کے ایڈیٹر ایم آر روحانی تھے۔جبکہ لکھنے والوں میں رفیق خاور تھلوچی ، غافل کرنالی اور عرشی مفتی شامل تھے۔ اس میں زیادہ تر خبریں لیہ کی ہی ہوتی تھیں جبکہ بہت کم خبر میں ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھتی تھیں۔ مقامی سطح کا اخبار ہونے کی وجہ سے لوکل خبروں کو ہی ترجیح دیتا تھا۔ لوگوں کو روز مرہ کے مسائل اور ان کی پریشانیوں کو حکومتی افسران تک پہنچاتا تھا۔ افسران اور سیاستدانوں کے نا پسندیدہ اعمال اور افعال کو اپنے صفحات کی زینت بنا تا تھا۔ اخبار کے ایڈیٹر کی پالیسی چونکہ مصلحت آمیز نہ تھی اس لیے حکومت نے اس کا ڈیکلیئریشن منسوخ کر دیا اور جانباز کے مالک، ایڈیٹر اور پبلشرز کو گرفتار کرلیا گیا تا ہم جانباز کو شائع ہونے کی اجازت نہ ملی۔ حکومت کا یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ جانباز حکومت بالخصوص لوکل انتظامیہ پر کڑی تنقید کرتا تھا۔ بیور کریسی اور ان کی من مانیوں پر سخت گرفت کرتا تھا۔ اور دوسری طرف اظہار رائے کی آزادی کامل طور پر حاصل بھی نہ تھی۔ جہاں زمیندار، الہلال اور اس سطح کے اخبارات پر حکومت وقت کی طرف سے قدغن لگتے رہے وہاں لوکل سطح کے اخبارات کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ جہاں کہیں لوکل اخبار نے اڑنے کی کوشش کی انتظامیہ نے فوراً پر کاٹ دیئے۔ جانباز گو کہ پہلا ہفت روزہ تھا لیکن لیہ میں صحافت کی روایت ڈال گیا۔ اس اخبار کی ادارت میں رفیق خاور تھلوچی، غافل کرنالی اور عرشی مفتی شامل تھے۔ جنھوں نے آگے چل کر لیہ سے نکلنے والے اخبارات کو توانائی بخشی۔
اس عہد میں اخبار کا نکالنا، اس کی مسلسل آبیاری کرنا انتہائی مشکل کام تھا۔ وسائل کی کمی ، اشتہارات کا نہ ہونا حکومت کی عدم دلچسپی لکھنے والوں کا فقدان ان حالات میں کوئی عاشق ہی قیمتی دوپہر میں صحرا کا سفر کر سکتا ہے۔ تاہم شاباش ہے ایم آر روحانی ، رفیق خاور تھلوچی، اور غافل کر نالی کو جنھوں نے لیہ میں صحافت کی بنیاد رکھی
اور لوگوں کو اپنے گردو پیش کی خبروں سے آگاہ کرتے رہے۔ جانباز کی بندش کے بعد ایم آر روحانی نے ۱۹۵۷ء میں اس وقت کے وزیر زراعت قادر بخش جکھر کے تعاون سے ہفت روزہ ”سنگ میں جاری کیا۔ اس ہفت روزہ نے متعدد خصوصی نمبر شائع کیے۔ قیام پاکستان کے بعد جنم لینے والے مسائل سے پردہ اٹھایا۔ لیکن جلد ہی روحانی صاحب سنگ میل” کے ساتھ ملتان منتقل ہوگئے۔دوجانباز ” اور ” سنگ میل کے بعد لیہ کی صحافتی تاریخ کا ایک معروف نام روز نامہ تھل ہے۔ ابتدا نوائے تھل ، ۱۴ اگست ۱۹۷۲ء کو معرض اظہار میں آیا۔ اس کے مالک و ایڈیٹرارمان عثمانی اور غافل کرنالی کےشاگرد عبدالحکیم شوق تھے جو آج ۲۰۲۰ ء تک اس کو اپنی جان سے لگائے بیٹھے ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں نوائے تھل ہفت روزہ سے روز نامہ ہو گیا۔ روز اول سے ہی اس کی پالیسی معتدل اور متمدن ہے۔بزرگ صحافی اور نوائے تھل کے مالک وایڈیٹر نے خود مجھے بتایا کہ وہ سنسنی خیزی، چٹخارے کسی کی پگڑی اچھالنے، گریبان پر ہاتھ ڈالنے اور بلاتحقیق سرخیاں لگانے کے قائل نہیں رہے۔ ان کی صحافتی پالیسی تہذیب و شرافت کے دامن کو تھامے رکھنا اور خبروں کو سچائی سے جوڑے رکھنا ہے۔ لیہ کی صحافتی تاریخ میں سب سے زیادہ خدمات نوائے تھل کی ہی ہیں۔ جس دور میں لوگ اخبار خرید کر پڑھنے کو بوجھ سمجھتے تھے اس عہد میں روزنامہ نوائے تھل تین ہزار کی تعداد میں چھپ کر خوشاب، سرگودھا، جو ہر آباد اور لیہ کے مختلف علاقوں کی دکانوں تعلیمی اداروں اور سرکاری اداروں کی میزوں پر پڑا ہوتا تھا۔ نوائے تھل نے لوگوں کو حالات حاضرہ سے آگاہی دی۔ ان میں علمی اور سیاسی شعور بیدار کیا۔ نرم اور دھیمے لہجے میں سرکاری اداروں اور سیاست دانوں کی گرفت کی۔ اس کے لکھاریوں میں مہر عبدالحمید ایڈوکیٹ، غافل کرنالی، ارمان عثمانی نیم لیہ رفیق خاور تلوچی، مرحوم نثار احمد اور برکت اعوان مرحوم شامل ہوتے تھے۔ تاہم نوائے تھل کے مالک وایڈیٹر اور بزرگ صحافی عبدالحکیم خود کہتے ہیں کہ لیہ میں جس طرح شعر و ادب نے اپنا معیار قائم کیا۔ صحافت آج دن تک وہ معیار قائم نہ کرسکی اس کا بڑا سبب صحافت کے مالکان اور ایڈیٹروں کا کم علم ، بے وسائل اور حکومتی سر پرستی کا نہ ہوتا ہے۔
"نوائے تھل میں خبروں کے علاوہ دیگر موضوعات پر تحریریں بھی شائع ہوتی تھیں۔ مثلاً فیچر ، کالم، انٹرویوز اور کبھی کبھی ظریفانہ کالم بھی۔ بالخصوص قومی ، صوبائی اور لوکل باڈیز الیکشن کے دنوں میں یہ اخبار مزیدار خبروں اور مضامین سے آراستہ ہوتا تھا۔ اور اپنے پسندیدہ امیدواروں کے جلسے جلوسوں اور تقریروں کو اپنے صفحات پر خوب جگہ دیا تھا۔ خاص مواقع یا قومی دنوں پر خاص نمبر بھی شائع کرتا تھا۔ لیہ کے نو جوانوں کو لکھنے اور اظہار رائے کے مواقع مہیا کیے۔ نوائے تھل کے صفحات پر چھینے والے بعد میں اچھے لکھاری اور رپورٹر بھی ثابتہوئے۔ لیہ سے چھپنے والا ایک اور روزنامہ ” داور” ہے جس کے نوجوان ایڈیٹر مالک منیر عاطف باجوہ نے لیہ کی صحافت میں خوب نام کمایا۔ داور کی قابل ذکر خوبی تعصب سے پاک ہونا اور شائستگی کو پروان چڑھانا ہے۔ داور کااراء ۲۰۰۲ میں ہوا۔ اس وقت یہ یک ورقہ اخبار تھا اور اس کی قیمت بھی صرف ایک روپیہ تھی۔ سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ روز نامہ چھ ماہ بعد ہی بند ہو گیا۔منیر عاطف باجوہ کی طبیعت نے پھر زور مارا اور یومِ پاکستان یعنی ۲۳ مارچ ۲۰۰۶ء کو یہ اخبار دوباره منظر عام پر آ گیا۔ اس وقت سے یہ اخبار باقائدگی سے دور دراز تک لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے۔ اس کے اہم لکھاریوں میں انجم صحرائی ، ایم آر ملک اختر بردهی ، چودھری اشرف قسم، پروفیسر مزمل حسین ، پروفیسر اکرم میرانی خود منیر عاطف باجوہ اور پروفیسر نو از صدیقی شامل رہے۔ منیر عاطف کی طبیعت صرف ” اور ” پر قانع نہ رہی انھوں نے کوئل موذن صحرا ، ایگر وورلڈ اور غازی کے ڈکلیریشن بھی لیے جو باقاعدہ نہ نکلے۔ لیکن ضرورت کے تحت کبھی کبھی شائع ہو جاتے ہیں۔ آج کل ایجوکیشن گائیڈ کے نام سے بھی ایک پر چہ نکال رہے جس کے مالک تو منیر عاطف باجوہ ہیں لیکن اس کے ایڈیٹر لیہ کے معروف ماہر تعلیم پروفیسر گل محمد خان ہیں۔گل محمد خان گزرے پینتیس سال سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں ، باریک بینی سے تعلیمی اور پیچ پیچ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایجو کیشن گائیڈ میں سکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ہونے والے فیصلے اور نوٹیفکیشن وغیرہ جاری کیے جاتے ہیں۔ اس میں ماہرین تعلیم کے انٹرویوز بھی شائع ہوتے رہتے ہیں اور یہ انٹرویو پروفیسر گل محمد خان خود کرتے ہیں۔ روز نامہ ” داور نے بقول اس کے چیف ایڈیٹر منیر عاطف باجوہ کبھی بھی سرکاری درباروں، سرکاروں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھک نہیں سجائی ۔ اور اخبار کی پالیسی چونکہ شرافت کو پروان چڑھانا ہے اس لیے وہ سنسنی خیزی یا خبر کو چٹخارے دار بنانے کے لیے نمک مرچ نہیں لگاتے۔ داور بے اعتدالیوں ناہمواریوں اور قباحتوں کا پر دو تو چاک کرتا ہے لیکن مہذب اسلوب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ منیر عاطف کا کہنا ہے کہ خوبصورت اسلوب ہی میری اور داور کی پہچان ہے۔ میں کڑوی گولی کو فتند بنا کر پیش کرتا ہوں۔ میرے پیش نظر چیر پھاڑ کرنے کی بجائے اصلاحی جذبہ ہوتا ہے۔ میں برے شخص کی بھی عزت نفس کا خیال رکھتا ہوں ، حقائق کونہیں چھپاتا ۔منیر عاطف نے بزرگ صحافی عبد الحکیم شوق کی طرح کہا کہ لیہ کی صحافت ابھی تک معیاری صحافت کااجراء ۲۰۰۲ میں ہوا۔ اس وقت یہ یک ورقہ اخبار تھا اور اس کی قیمت بھی صرف ایک روپیہ تھی۔ سہولیات کی عدمدستیابی کی وجہ سے یہ روز نامہ چھ ماہ بعد ہی بند ہو گیا۔منیر عاطف باجوہ کی طبیعت نے پھر زور مارا اور یومِ پاکستان یعنی ۲۳ مارچ ۲۰۰۶ء کو یہ اخبار دوباره منظر عام پر آ گیا۔ اس وقت سے یہ اخبار باقائدگی سے دور دراز تک لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے۔ اس کے اہم لکھاریوں میں انجم صحرائی ، ایم آر ملک اختر بردهی ، چودھری اشرف قسم، پروفیسر مزمل حسین ، پروفیسر اکرم میرانی خود منیر عاطف باجوہ اور پروفیسر نو از صدیقی شامل رہے۔
منیر عاطف کی طبیعت صرف ” اور ” پر قانع نہ رہی انھوں نے کوئل موذن صحرا ، ایگر وورلڈ اور غازی کے ڈکلیریشن بھی لیے جو باقاعدہ نہ نکلے۔ لیکن ضرورت کے تحت کبھی کبھی شائع ہو جاتے ہیں۔ آج کل ایجوکیشن گائیڈ کے نام سے بھی ایک پر چہ نکال رہے جس کے مالک تو منیر عاطف باجوہ ہیں لیکن اس کے ایڈیٹر لیہ کے معروف ماہر تعلیم پروفیسر گل محمد خان ہیں۔گل محمد خان گزرے پینتیس سال سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں ، باریک بینی سے تعلیمی اور پیچ پیچ کا جائزہ لیتے ہیں۔ ایجو کیشن گائیڈ میں سکول ، کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح پر ہونے والے فیصلے اور نوٹیفکیشن وغیرہ جاری کیے جاتے ہیں۔ اس میں ماہرین تعلیم کے انٹرویوز بھی شائع ہوتے رہتے ہیں اور یہ انٹرویو پروفیسر گل محمد
خان خود کرتے ہیں۔ روز نامہ ” داور نے بقول اس کے چیف ایڈیٹر منیر عاطف باجوہ کبھی بھی سرکاری درباروں، سرکاروں، حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھک نہیں سجائی ۔ اور اخبار کی پالیسی چونکہ شرافت کو پروان چڑھانا ہے اس لیے وہ سنسنی خیزی یا خبر کو چٹخارے دار بنانے کے لیے نمک مرچ نہیں لگاتے۔ داور بے اعتدالیوں ناہمواریوں اور قباحتوں کا پر دو تو چاک کرتا ہے لیکن مہذب اسلوب کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ منیر عاطف کا کہنا ہے کہ خوبصورت اسلوب ہی میری اور داور کی پہچان ہے۔ میں کڑوی گولی کو فتند بنا کر پیش کرتا ہوں۔ میرے پیش نظر چیر پھاڑ کرنے کی بجائے اصلاحی جذبہ ہوتا ہے۔ میں برے شخص کی بھی عزت نفس کا خیال رکھتا ہوں ، حقائق کو نہیں چھپاتا ۔منیر عاطف نے بزرگ صحافی عبد الحکیم شوق کی طرح کہا کہ لیہ کی صحافت ابھی تک معیاری صحافت کاکوئی ہاتھ یا قلم اسے سنبھالنے والے نظر نہیں آرہے۔ تا ہم خالص وطن دوستی کے نعرے کو انجم صحرائی اور صبح پاکستان نے اپنی روح کا حصہ بنا رکھا ہے۔ہر چیف ایڈیٹر اور اخبار کی اپنی ایک پالیسی ہوتی ہے۔ بعض اخبار بین الاقوامی حالات و واقعات اور خبروں پر بنیادرکھتے ہیں۔ بعض انٹر نیشنل سیاست پر اخبار کی بنیا د رکھتے ہیں۔ بعض صرف ملکی خبروں کو اہمیت دیتے ہیں۔ کچھ اخبارات جرائم کی کھوج اور ان کے انجام تک پہنچنے کی کوشش میں سرگرم رہتے ہیں۔
۲۰۱۴ء میں لیہ سے نکلنے والا یہ ٹو ڈے آج ۲۰۲۰ تک چوکڑیاں بھر رہا ہے۔ اس کے چیف ایڈیٹر حسن عدیل چودھری ہیں ۔ لیہ کی دیگر صحافت میں اس کا منفرد کردار یہ ہے کہ اپنے جنم دن سے لے کر آج دن تک تحقیقاتی صحافت کو فروغ دے رہا ہے۔ علاقائی خبریں تولوگوں تک پہنچاتا ہی ہے لیکن کرائمز پر اس کی خاص نظر رہتی ہے۔ لیہ میں زمینوں پر نا جائز قبضے، سرکاری اراضی پر قبضے، انتظامیہ کی ملی بھگت سے بوگس اللہ میں اور تقسیم ہند کے وقت سے کلیموں کا نا جائز کاروبار عروج پر رہا۔ لیہ کی تحصیل چوبارہ میں بطور خاص زمینوں کی خرید و فروخت اور نا جائز قبضے عام سی بات ہے۔ لیہ ٹوڈے کے ایڈیٹر انچیف محسن عدیل چودھری نے بطورِ خاص اس بددیانتی کو اپنے نوک قلم پر رکھا۔ عدیل چودھری نے خود کہا کہ اس عمل سے گزرتے ہوئے دار و رسن کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان چھ سالوں میں سیکڑوں تحقیقاتی سٹوریوں کی بدولت میں نے یہ ٹوڈے کو عوام میں پہچان دی۔یہ ٹوڈے نے چھوٹی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کی بجائے سرکاری اداروں میں پائی جانے والی بڑی بڑی کرپشن ، رشوت خوری ، لوٹ مار، اقربا پروری سرکاری خزانے کو پہنچنے والے کروڑوں کے نقصانات، لینڈ مافیا، سود خوروں اور منشیات فروشوں کا خوب خوب پردہ چاک کیا ہے۔ بوگس اور جعلی فائلیں بنا کر اربوں کی زمین ادھر سے اُدھر کرنے والوں کی نشاندہی کرنا لیہ ٹوڈے کا کام ہے۔ محسن عدیل کی تحقیقاتی رپورٹوں کے ذریعے نہ صرف کروڑوں روپے حکومت کو وصول ہوئے۔ ہزاروں کنال ہوگی الاٹ شدہ رقبہ خارج ہوا۔ غرض یہ ٹوڈے اور اس کا ایڈیٹر انچیف مظلوم کی آواز بن رہا ہے۔ اور ظالم کے خلاف بیا کی وبے خوفی کے ساتھ آواز بلند کر رہاہے۔ یہی لیہ ٹوڈے کی پہچان ہے اور یہی اس کی انفرادیت۔
تحقیقاتی صحافت کو فروغ دینے کے علاوہ لیہ ٹوڈے میں قومی دنوں پر بہت اچھے مضامین، انٹرویوز اور خصوصی نمبر بھی شائع ہوتے ہیں۔ گورنمنٹ کی طرف سے کوئی اشتہار نہیں ملتا تا ہم لوکل اشتہارات ہی اسے زندہ رہنے کے لیے تازہ خون مہیا کرتے ہیں۔روز نامہ ” سنگ بے آب ۲۰۰۹ ء سے نہایت با قاعدگی کے ساتھ شائع ہورہا ہے۔ یہ ہفتے میں سات دن شائع ہوتا ہے۔ سید محمد عثمان اس کے مالک اور چیف ایڈیٹر ہیں۔ جبکہ فرید اللہ اس کے ایڈیٹر ہیں۔ سید محمد عثمان فیاض قادری کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کے شعری مجموعے کا نام سنگ بے آب ہے۔ فیاض صاحب راہی عدم ہوئے تو دلوں میں ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے سید محمد عثمان نے فیاض قادری کے شعری مجموعے کے نام پر ہی روز نامہ سنگ بے آپ کا اجراء کیا۔اس اخبار میں محسن عدیل ، فرید اللہ، ڈاکٹر مزمل حسین اور اس طرح کے دیگر پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں۔ صاف ستھرا اخبار ہے۔ خبروں میں تہذیب کا دامن تھامے رکھتا ہے۔ سرکاری اشتہارات نہ ہونے اور لوکل اشتہارات کی کمی کی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار رہتا ہے۔ تاہم یہ خوبی ہے کہ نہایت خوبی سے آج تک شائع ہو رہا ہے۔روزنامه شناور سید اظہر حسین زیدی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے۔ مناسب اخبار ہے دیگر اخباروں کی طرح لیہ کے معالمات زیر بحث لاتا ہے۔ خبریں معتدل اور بے ضرر ہوتی ہیں اس کی نظریہ سے باہر نہیں دیکھتی۔اخباریہ جو پہلے ہفت روزہ تھا اب کبھی ڈوبتا اور کبھی ابھرتا ہے۔ یہ اخبار ۲۲ مئی ۱۹۹۱ء میں مہر محمد رفیق تحدید کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا جبکہ نورمحمد تعند اس کے اعزازی ایڈیٹر تھے۔ نور محم محمد اقوام لیڈ کے نام سے خصوصی فیچر لکھا کرتے تھے۔ بعد میں تاریخ لیہ کے نام سے نور محمد تحمید نے کتاب لکھی جو خاصی مقبول ہوئی۔ انتظامیہ سے ٹکر لینے کی وجہ سے ۱۹۹۸ء میں اخبار لیہ بند ہو گیا۔ پھر بحال ہوا۔ اب باقاعدگی سے نہیں چھپتا۔ معرکہ ۲۰۰۲ ء میں ہفت روزہ کی حیثیت مہر ارشد حفیظ کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا۔ اب سانس لے لے کر جی رہا ہے۔هروز ۲۰۰۱ محمد جاویداکبر کلاسرہ کی ادارت میں ہفتہ وار نکلنے والا اخبار ہے۔ چٹخارے دار اور چٹ پٹی خبروں کی وجہ سے معروف ہوا۔ شدت پسند اخبار تھا۔ بے باکی اور بے خوفی اس کی پہچان بنی اور یہی بات اس کابند ہونے کا سب بھی۔ اب کبھی کبھی دیکھنے کول جاتا ہے۔قمر شیرازی نے بھی ”نوائے حق کے نام سے ۱۹۸۲ء میں ہفت روزہ کا آغاز کیا۔ تین سال بعد قمر شیرازی اسے بھکر لے گئے۔ وہاں سے پھر لیہ لے آئے۔ اس کا شمار بھی زندہ اخباروں میں نہیں ہوتا۔ بقائے تھل ” قاضی احسان اللہ کی ادارت میں ۱۹۹۳ء میں نکلنا شروع ہوا۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے۱۹۹۶ ء میں بند ہو گیا۔سکے۔ئیس لیہ پکار لیہ اور ‘پکار تھل بھی لیہ کے افق پر نمودار ہوئے لیکن کوئی انفرادیت قائم نہ کران روز ناموں اور ہفت روزوں کے علاوہ بھی کچھ اور رسائل بھی شائع ہوئے جن میں طاہر مسعود مہار کے سہ ماہی ” غزل اور جسارت خیالی کے نیا قدم ” کو پہچان لی۔ یہ بھی باقاعد ہ شائع نہیں ہوتے ۔ اپنی تمام تر کمزوریوں ، خامیوں کے باوجو دلیہ کی اردو صحافت نے عوام کو حالات و واقعات سے آگاہی دی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اخبارات کے اکثر مالکان اور ایڈیٹر صاحبان کم رقم اور ناتجربہ کاری کی مار کھاتے رہے۔ چند ایک کے علاوہ لیہ کے صحافیوں میں گریجویٹ بھی نہیں۔ رپورٹنگ کا معیار بھی پست رہا۔ انتظامیہ تک رسائی اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش بھی ہوتی رہی۔ ذاتی عناد ، ذاتی اختلاف اور معاصرانہ چشمک بھی سچائی کو داغدارکرتے رہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ لیہ کی اردو صحافت اپنا معیار قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اکثر و بیشتر خبروں کی صداقت پر انگلی اٹھتی رہی، غیر مصدقہ خبریں اور سرخیوں میں چھپنے کا رجحان اکثر و بیشتر دیکھنے میں آتا ہے۔ کونسی خبر اور کیسی خبر کہاں چھپنی چاہیے اس کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ بنیادی وجہ نا تجربہ کاری مطالعے کی کمی علمی کم مائیگی اور صحافی ہونے کا میڈل گلے میں ڈالنے کے شوق نے لیہ کی صحافت کو معیاری اعتبار سے ابھر نے نہ دیا۔ تاہم یہ بھی ایک نعمت ہے کہ وسائل کی کمی اور سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے باوجود سورج طلوع ہوتے ہی علاقے بھر کی خبریں مل جاتی ہیں۔ لیہ کے صحافیوں ، اخبار کے مالکوں، ایڈیٹروں اور رپورٹروں کے باہمی اختلاف نے بھی لیہ کی اردوصحافت کو پہنے نہ دیا۔ پریس کلب پر قبضہ کرنے کی کوششیں آج دن تک جاری ہیں۔ صحافیوں کی گروہ بندی کی وجہ سے پریس کلب کو کبھی تالے لگے کبھی اسٹے آرڈر ہوئے۔ صحافیوں کی متعدد تنظمیں وجود میں آئیں نتیجہ یہ نکلا کہ صحافیوں کے باہمی اختلاف سے انتظامیہ خوش رہی اور زرد صحافت کے دروازے کھلتے رہے۔

 نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com