جامی چانڈیو نے صحافت کو”جلد بازی میں لکھا گیا ادب قرار دیا تھا“صحافت دراصل ایک ایسا مقدس پیشہ ہے جس کی جڑیں براہ راست عام آدمی تک ہیں۔لوگ اخبارات،رسائل و جرائد میں چھپنے والی ہر چیز کو مستند مانتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ نامورشعرا،ادبا نے عوام سے گفت گے لیے جو راہ نکالی وہ کالم نگاری ہے۔اخبارات کی اہمیت بارے پروفیسر ریاض راہی لکھتے ہیں کہ
زندوں کی طرح عالمِ فانی میں جیا کر
اور دانش و حکمت کی جو باتیں ہوں سنا کر
دنیا کی اگر نبض شناسی کی طلب ہو
روزانہ کہیں بیٹھ کے اخبار پڑھا کر۱۱؎
قیام پاکستان سے قبل لیہ میں صحافت کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا۔قیام پاکستان کے بعد یہاں جو اخبارات آتے تھے وہ لاہور سے آتے تھے جو کہ ملتان سے ہوتے ہوئے لیہ تین دن بعد پہنچتے تھے۔رانا عبدالحکیم شوق اپنے دئیے گئے انٹرویو میں کہتے ہیں کہ
”میرے چچا محمد رشید ریاست پٹیالہ(انڈیا)میں اخبارات سے وابستہ تھے۔تقسیم ہند کے بعد لیہ آئے تو پھر یہاں بھی انہوں نے اخبارات(نوائے وقت،زمیندار،تسلیم) کی ایجنسیاں حاصل کر کے لیہ کی عوام کو اخبارات کے ذریعے معلومات تک رسائی کو یقینی بنایا۔1950ء میں قریباً ہر اخبار کے 10،10اور بعض کے 5،5کا پیاں ان کی نیوز ایجنسی(محمد صدیق،محمد رشیدنیوز ایجنسی) پر آتی تھیں۔یہ اخبار لاہور سے بذریعہ ٹرین رات کو 9بجے پہنچتے تھے اور اگلے روز صبح تقسیم ہوتے تھے۔“۲۱؎
لیہ کا باقاعدہ پہلا اخبارہفت روزہ ”سنگ میل“جس کے پبلشر ایم۔آر روحانی تھے۔بعد میں نوائے تھل،صبح پاکستان ودیگر اخبارات بھی شامل تھے رانا عبدالحکیم شوق کہتے ہیں کہ”ابتداء میں روزنامہ نوائے وقت (لاہور)،روزنامہ کوہستان (لاہور)آتے تھے۔قومی اخبارات کے ساتھ ساتھ مقامی اخبار ہفت روزہ سنگ میل (لیہ)جس کا ڈیکلریشن ایم۔آر روحانی کے نام تھا لیکن انہوں نے اس کی اشاعت بندکردی میں نے ان سے درخواست کی کہ یہ اخبار مجھے چلانے دیا جائے اور انہوں نے تمام اخبارات کی ذمہ داریاں میرے حوالہ کردیں اور 4سال تک باقاعدگی سے میں اس اخبار کے توسط سے علاقہ کی تعمیر و ترقی کی جدوجہد کرتا رہا۔بعد ازاں ہفت روزہ بشارت (مظفر گڑھ)سے نامور شاعر و ادیب کشفی العصدی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا میں نے لیہ سے اس کی اشاعت شروع کی۔تقریباً ایک سال اس کی مسلسل اْشاعت کے بعد لیہ کے معروف شاعر و ادیب جناب ارمان عثمانی اور ایس اے منور (مالک ناز سینما)لیہ،مہر عبدالحمید سمراایڈووکیٹ (جوکہ ڈاکٹر مہر عبدالحق کے چھوٹی بھائی تھے) کی ترغیب پر میں نے اپنا ڈیکلریشن نوائے تھل (لیہ)کے نام سے حاصل کیا اور 1970ء میں اس اخبار کا باقاعدہ اجراء کیا جوکہ تادم تحریر اس کی اشاعت جاری و ساری ہے۔اس کی ادارتی ذمہ داریاں کچھ عرصہ کے لیے ارمان عثمانی بطور ایڈیٹرجبکہ دیگر معاونین میں گلزار احمد مرزا،غافل کرنالی،نسیم لیہ شامل ہیں جبکہ اب رانا عبدالرب کی ادارت میں یہ اشاعت کے مراحل طے کررہا ہے۔“۳۱؎
لیہ کی صحافت میں جو اخبارات نکالے گئے ان میں سے اکثرو بیشتر کا تعلق علم و ادب سے تھا جن میں راجہ عبداللہ نیازاور دیگر لوگ شامل ہیں جنہوں نے صحافت میں ادب کو متعارف کرایا۔راجہ عبداللہ نیاز کے نہ صرف مقامی اخبارات بلکہ ان کے مختلف قومی اخبارات میں بھی قطعات چھپا کرتے تھے۔ڈاکٹر افتخار بیگ لکھتے ہیں کہ
”راجہ عبداللہ نیاز نے لیہ میں نہ صرف اردو شاعری کی روایت کو پروان چڑھایا بلکہ علمی اور فکری حوالے سے ان کی شاعری اتنی معتبر تھی کہ ”زمیندار“ اخبار کے صفحات کی زینت بنی“۴۱؎
راجہ عبداللہ نیاز کے بعد ارمان عثمانی لیہ کی صحافت میں ایک معتبر حوالہ ہے انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز یوں تو ہفت روزہ ”نوائے تھل“بطور ایڈیٹر کیا مگر وہ قومی سطح کے اخبارات کی زینت بھی بنتے رہے۔وہ حکمرانوں کو خاص کر مارشل لائی دور کی شدید الفاظ میں مذمت کیا کرتے تھے اور ان کے چھپنے والے قطعات حاکم وقت کے منہ پر زور دار طمانچہ ہوا کرتے تھے۔ڈاکٹر افتخار بیگ لکھتے ہیں کہ
”ضیائی مارشل لا ء میں بہاولپور سے ایک ہفت روز ہ اخبار”انصاف“ نکلتا تھا جس میں ارمان عثمانی ادارت کے فرائض سرانجام دیتے تھے۔حکومت کے خلاف لکھنے پر ”ہفت روزہ انصاف“ کو بند کر دیا گیا جس پر ارمان عثمانی نے لکھا تھا کہ:۔
انصاف تو یہ ہے کہ زباں اس کی کٹے گی
انصاف کی جو بھی یہاں بات کرے گا
انصاف کو یہ کہ کے ریاست نے کیا بند
انصاف ریاست میں رہا ہے نہ رہے گا؟“۵۱
اسی طرح اظہر زیدی،سرگودھا میں روزنامہ ”نوائے شرر“اور ”ضربِ قلم“ میں قطعات لکھا کرتے تھے۔ان کا ایک مشہور قطعہ جو روزنامہ نوائے شرر میں چھپا
قانون شکن پھرتے ہیں پہنے ہوئے وردی
چوروں کے لبادے میں ہیں پولیس کے پہرے
ڈاکو کو لٹیرے کو کوئی پکڑے تو کیسے
مضبوط قلم بکتے ہیں، بکتے ہیں کٹہرے۶۱؎
70کی دہائی کے بعد لیہ کی صحافت میں جو نام ادبی اور صحافتی حوالے سے نمایاں تھے ان میں ڈاکٹر خیال امروہوی (ان کے مضامین اکثرو بیشتر مختلف اخبارات میں چھپا کرتے تھے)،فیاض قادری، یوسف حسنین نقوی،احسن بٹ،ایم۔آر ملک،لقمان اسد،جمشید ساحل،افضل صفی،ارشد حفیظ،قاضی ظہور الناصر،رانا عبدالرب،خالد ندیم شانی
رضا کاظمی،سلیم آکاش و دیگر شامل ہیں۔