فلاح انسانیت اور تزکیہ نفوس کے پاکیزہ مقصد کے لیے اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے انتخاب فرمایا۔ ان میں اولیاء کرام رہتی دنیا تک انسانیت کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں گے۔ دین اسلام کی شمع لیہ کے دور افتادہ علاقوں میں تقریباً 1004 ء سے حضرت سلطان حسین قریشی کے دور سے روشن ہوتی ہے۔ روایات کے مطابق ان کا خاندان کروڑ میں تقریبا دو سو سال اسلام کی تبلیغ میں مصروف رہا۔ ان کے بعد مسلسل یہ کام آج تک ایسے انداز میں جاری و ساری ہے۔ ذیل میں چند اولیاء کرام کا تذکرہ ہے۔ موضوع بہت طویل ہے لیکن اپنی کم علمی کا اعتراف ہے کہ کماحقہ نہیں لکھ پایا۔
حضرت بہاءالدین زکریا ملتانی:
حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی آپ کروڑ لعل عیسن میں پیدا ہوئے ۔ حفظ قرآن کے بعد مزید تعلیم کے لیے ملتان ، ایران، بخارا اور حرمین شریف تشریف لے گئے۔ آپ سلسلہ سہروردیہ کے بانی ہیں۔ آپ کا مزار مبارک ملتان میں ہے۔
حضرت لعل عیسن :
۱۵۴۵ء میں اپنے والد حضرت بہاء الدین ثانی کی وفات کے بعد کروڑ آئے ۔ بہاؤالدین زکریا ملتانی کی اولاد میں سے ہیں۔ دین اسلام کی تبلیغ کے لیے آپ کی خدمات گراں قدر ہیں۔ آپ کے دور میں کروڑ ایک اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ آپ کے عقیدت مندوں کی قطار جہلم تا علمبہ پھیلی ہوئی ہے۔ درس و تدریس – کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرنے والے بزرگ ہیں۔ آپ کا مزار انور کروڑ لعل عیسن میں ہے۔
حضرت مخدوم رشید رحمتہ اللہ علیہ :
آپ کوٹ کروڑ ( کروڑ لعل عیسن ) میں دین اسلام کی تدریس میں مصروف رہے۔ لوگوں کی اصلاح کی۔ شہاب الدین غوری کی درخواست پر ملتان تشریف لے گئے۔ آپ کا مزار مخدوم رشید ملتان میں ہے۔
حضرت عنایت شاہ بخاری سترہویں صدی عیسوی میں تشریف لائے۔ یہاں ہندو آبادی کی کثرت تھی۔ مسلمان قلیل تعداد میں تھے۔ آپ کی خوش اخلاقی اور عبادت گزارنی اور سادگی کو دیکھ کر لوگ عقیدت مند ہونے لگے۔ ہندوؤں نے آپ کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ جب آپ کے حجرہ میں گئے تو آپ کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے پڑے تھے۔ خوش ہو گئے کہ جو کام ہم نے کرنا تھا کوئی اور پہلے کر گیا۔ علاقہ میں مشہور کر دیا گیا لیکن صبح آپ کو زندہ سلامت پا کر لوگ حیران رہ گئے ۔ اور عقیدت مندوں کی تعداد میں کثرت سے اضافہ ہونے لگا۔ آپ کا مزار مبارک فتح پور کے قریب ہے وہاں سالانہ عرس مبارک اور اونٹوں کا میلہ بھی لگتا ہے۔
حضرت شیخ قل احمد نوری حضوری:
آپ سلسہ سہروردیہ کے بزرگ ہیں۔ کوٹ سلطان میں مزار مبارک ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کو شاہ رکن عالم کے زمانے میں خلافت عطا ہوئی تبلیغ دین میں عمر بسر کی۔ آپ کی کرامات میں ایک فوج کے جنگجوؤں کا اندازہ ہو جاتا اور پھر ظلم سے ثابت ہونے پر بینائی بحال ہونا بتایا جاتا ہے۔ آپ اخوت کے پیکر تھے۔ آپ کا عرس 18 تا 20 ہاڑ ہوتا ہے۔
حضرت قادر شیر کاظمی رحمتہ اللہ:
قندھار میں پیدا ہوئے۔ بلوچستان اور ڈیرہ غازی خان کے مختلف قبائل کو مسلمان کرتے ہوئے لیہ تشریف لائے تھے آپ حافظ قرآن تھے۔ اصل نام محی الدین تھا۔ حضرت راجن شاہ نے آپ کو قادر شیر کا لقب دیا تھا۔ آپ کا مزار مبارک شاہ پور لیہ سے بارہ کلومیٹر شمال میں ہے۔ آپ کی اولاد معشوق پوترہ کہلاتی ہے۔
حضرت شیخ جلال الدین رحمتہ الله :
سترویں صدی عیسوی میں دہلی سے تشریف لائے تھے۔ علاقہ تھل میں جنڈ کے مضافات میں رکھ ہٹیاں میں مقیم رہے۔ حج کرنے کے لیے مکہ تشریف لے گئے ، وہاں سے مدینہ گئے تو بقیہ زندگی گنبد خضرا کے سائے میں گزارنے کا اشتیاق ہوا۔ وہیں پر زیارت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوئی اور علاقہ تھل میں اسلام کی خدمت کی ذمہداری سونپی گئی۔ لیہ شہر کے ملحقہ قبرستان شیخ جلو میں آپ کا مزار مبارک ہے۔ گرواں قبیلہ سے تعلق بتایا جاتا ہے۔ آپ کے دو بیٹے شیخ کریم داد اور شیخ پلیا روایت کئے گئے ہیں۔
حضرت راجن شاہ بخاری رحمتہ اللہ :
آپ اُچ شریف میں 950ھ میں پیدا ہوئے۔ حضرت جہانیاں جہاں گشت کی اولاد میں سے سید حامد کبیر ثانی کے فرزند ہیں۔ پیدل حج کیا، تمام زندگی اسلام کی خدمت میں وقف کی۔ آپ دلی بھی تشریف لے گئے۔ ہمایوں مغل بادشاہ آپ کی کرامات کا معتقد تھا۔ کچھ لوگوں نے بھنگ نوشی جیسی بے ہودہ حرکت کو آپ سے منسوب کرنے کی ناپاک جسارت بھی کی۔ لیکن یہ لعنت اپنے مقداروں کو واپس لوٹ گئی۔ پاکیزہ تھے اور پاکیزہ ہی رہا کرتے تھے۔ آپ کے تین فرزند علی زین العابدین ، بابا بڈھن اور شاہ غوث روایت کئے گئے ہیں۔ آپ کا مزار انورلیہ سے 25 کلو میٹر دور بجانب شمال ہے۔
حضرت جمن شاہ بخاری اچوی رحمۃ اللہ علیہ :
آپ سید جلال الدین بخاری کی اولاد میں سے ہیں۔ لیہ سے 10 کلومیٹر دور قصبہ جمن شاہ تشریف لائے۔ آپ کے مزار پر ہفتہ کی شام ایک کہانی سنائی جاتی تھی۔ جسے صفرا کے مریض ٹھیک ہو جاتے تھے۔
حضرت میاں عارف شہید کلہوڑہ :
سندھ کے حکمران ملک عبدالنبی کلہوڑہ کے بیٹے تھے ۔ 1793ء میں دوران جنگ شہید ہوئے ۔ آپ کا مزار مبارک لیہ شہر میں ہے۔
حضرت سخی شاہ حبیب رحمتہ اللہ علیہ :
حضرت سخی شاہ حبیب رحمتہ اللہ علیہ یہ شہر کے جنوبی دامن میں کلمہ چوک کے قریب آپ کا مزار اقدس
ہے۔ آپ حضرت عبد الجلیل دہلوی کے بیٹے تھے اور عبد الرحمن دہلوی کے بھائی تھے۔ حضرت عبد الرحمن دہلوی ، حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد تھے۔ آپ سے بہت سی کرامات منسوب ہیں۔ جس میں جلتی بھٹی میں پھینکے جانے کے باوجود آگ سے صحیح سلامت نکل آنا اور دیوار پر بیٹھ کے گھوڑے کی طرح چلانا مشہور ہے۔لیہ میں خدمت دین میں مصروف رہے۔
پیران چھتر شریف حضرت بہاول گنج بخش گیلانی رحمتہ الله علیه:
فتح پور میں تھل کے مشہور و معروف پیران میں سے ہیں۔ آپ کا تعلق ضلع خانیوال سے حضرت شاہ حبیب گیلانی بغداد سے ہے۔ شاہ حبیب ، حضرت بہاول بخش اور عبد القادر جیلانی کے حکم پر ہندوستان تشریف لائے تھے۔ اپنا فرزند تھل ( حضرت بہاول بخش) جس نے ایک گھنے درخت کے نیچے ڈیرہ لگایا جس کی وجہ سے پیر چھتر معروف ہوئے۔ پیر امام بخش، پیر شاہ محمد ، پیر غوث محمد حیات شاہ قابل ذکر ہیں۔ سالانہ عرس ہر سال یکم اکتوبر کو ہوتا ہے۔ ۱۳۔ حضرت خواجہ غلام حسن سواگ رحمتہ اللہ علیہ (1267ھ ):
حضرت خواجہ غلام حسین سواگ سندھ کے مشرقی کنارے ڈگر سواگ میں ملک لعل بن احمد یار بن محمد کے گھر پیدا ہوئے ۔ متوسط قد گندمی رنگت اور وجیہ شکل اور نورانی صورت والے تھے۔ ابتدائی عمر میں مویشی بھی چرائے۔ لیکن علم کا شوق تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان جا کر حضرت خواجہ محمد عثمان رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ مولوی غلام حسن سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جھنگ سے مولوی محمد علی سے علم صرف کروڑ سے مولوی غلام محمد سے تحصیل علم کیا۔ وہ خواجہ محمد عثمان کی بیعت ہوئے۔ دینی تعلیم کے حصول کے بعد گھر واپس آئے مراقبہ، وعظ ونصیحت، ریاضت و عبادت آپ کے مشاغل تھے۔ ڈپھی کوڑی خانقاہ سراجیہ حسن آباد کی تعمیر کرائی۔ اس کے بعد اپنی ملکیتی اراضی ڈیر ہ سواگ شریف تشریف لائے۔ واپس تشریف لا کر دین اسلام کی تبلیغ اور احکامات شریعت کی ترویج میں مصروف ہو گئے۔ آپ کا مزار اقدس سواگ شریف جو کہ لیہ سے تقریبا 22 کلومیٹر بجانب شمال ہے، آپ کے خلفاء و مریدین کی طویل فہرست ہے۔
حضرت پیر محمد عبد اللہ بار ورحمۃ اللہ علیہ (1849ء):
حضرت خواجہ غلام حسن سواگ کے خلیفہ خاص تھے۔ دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے آپ کی خدمات عظیم ہیں۔ آپ نے ہمیشہ شریعت کی پیروی کی اور اپنے مریدین کو احکامات شریعت کی پیروی کا درس دیا اور فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی پیر ہوا میں اڑتا آرہا ہو مگر شریعت پر عمل نہ کرتا ہو تو وہ کوئی پیر نہ ہے، بلکہ دھو کہ باز ہے۔ نذرانے لینے والے مریدوں کے گھروں میں جانے والے، عورتوں کی محفل میں بیٹھنے والوں کے سخت خلاف تھے۔ دنیاوی مال و زر کبھی جمع نہ کیا۔ خالق کائنات کی رضا مندی اور دین اسلام کی خدمت کے لیے سب کچھ وقف کیا۔ اسلامی تعلیمات کے لیے درس قائم کیے۔ اس وقت لگ بھگ سو سے زائد درس آپ کے گدی نشین . کے زیر انتظام چل رہے ہیں۔ رسوم و رواج کے خلاف احکام شریعت کے نفاذ کے لیے حد درجہ کوشش کرتے رہے۔ آپ کے خلفاء ومریدین کی طویل فہرست ہے۔ آپ کا مزار اقدس پیر بارو شریف فتح پور کے جنوب مشرق کی طرف تقریبا آٹھ کلو میٹر ہے۔
حضرت سید حافظ حسن علی گیلانی (1333ھ):
آپ سید عبد القادر جیلانی کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ جدی پشتی اولیاء ہیں۔ آپ کے والد محترم سید ولایت علی شاہ اور دادا سید حیدر علی شاہ بہت بڑے اولیاء تھے۔ جن کا تعلق جبی شریف خوشاب سے ہے۔ آپ شریعت کے پابند تھے اور احکام شریعت کی تبلیغ سے پوری زندگی بسر کی۔ آپ کا مزار مبارک لیہ شہر سے جنوب مشرق کی طرف گیلانی منزل شریف پر ہے۔ آپ کا عرس مبارک 26 ربیع الاول کو ہوتا ہے۔
حضرت سید حاجی شاہ:
قریب چار سو سال قبل جھنگ سے ہجرت کر کے لیہ تشریف لائے۔ زراعت میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ بیلوں کا شوق تھا۔ زمیندار ان سے محبت رکھتے تھے۔ بیلوں کا مقابلہ کراتے تھے۔ تعلیمی لحاظ سے قرآن، عربی، فارسی کے عالم تھے۔ اسلامی شرعی فقہی مسائل سمجھاتے تھے۔ پیدل چھے حج کیے۔ صاحب کشف و کرامات تھے۔ عوام کو دینی وروحانی تعلیمات سے آراستہ کیا۔ آپ کا مزار مبارک لیہ شہر کے شمالی دامن میں کوئلہ حاجی شاہ میں ہے۔ آپ کا عرس 13 اپریل کو ہوتا ہے۔ جسے میلہ بیساکھی اور بیلوں کے مقابلہ سے بھی شہرت حاصل ہوئی سید جعفر شاہ بخاری ( پیر جگی شریف): آپ شاہ جیونہ جھنگ میں پیدا ہوئے۔ روحانی و باطنی تعلیم کے حصول کے لیے لیہ تشریف لائے۔ لدھانہ کے جنوب میں پیر جگی کے مقام پر مقیم ہوئے۔ اس وقت یہ علاقہ فحاشی، عریانی وعیاشی کی لپیٹ میں تھا۔ بد معاشی مسلمانوں اور ہندؤں دونوں کے لیے تکلیف دہ تھی۔ آپ نے یہاں مدرسہ قائم کیا، مسجد بنائی ۔ تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ آپ حضرت جلال الدین اچوی کی نسل میں سے تھے۔ جن میں سید چراغ شاہ سید بڑھن شاہ ، سید محبوب شاه، سید نورمحمد شاه سید کریم حیدر شاه، سید غلام اکبر شاہ قابل ذکر ہیں۔ سید غلام اکبر شاہ کے
مریدین کی کثیر تعداد ہے۔ آپ کے بعد سید خورشید شاہ اور سید اقبال شاہ نے سلسلہ جاری رکھا۔
حضرت حسن شیر رحمتہ اللہ علیہ :
تحصیل کروڑ لعل عیسن میں آپ کا مزار ہے۔ آپ حضرت لعل عیسن کے مرید تھے۔ اصل نام غلام حسن تھا۔ محنت مزدوری کے ساتھ عبادت الہی اور خدمت انسانیت آپ کا شعار تھا۔ آپ کے مزار پر سالانہ عرس ہوتا ہے جہاں پر میلہ دیکھنے دور دراز سے معتقدین آتے ہیں۔
حضرت صالح محمد قریشی ہاشمی (1880):
آپ ایک عالم دین تھے۔ جمن شاہ کے قرب و جوار میں خانقاہ محمد حاجی سے تعلق تھا۔ آپ قرآن پاک تفسیر و حدیث کے معلم تھے۔ جمن شاہ سے ملحقہ بستیوں ، جیسل کلاسرہ ، جوالی اور ہوت والہ میں تعلیم وتربیت کے لیے روزانہ پیدل چل کر جانا آپ کا معمول تھا۔ آپ نے سیکڑوں معتقدین ، شاگر د اور علماء بنائے۔
حضرت محمد اللہ یار چشتی عباسی ہاشمی (1900ء):
آپ حضرت عباس بن عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہیں۔ آپ کے بزرگان میں حضرت مخدوم کی الدین عباسی قریشی ہیں۔ جن کا مزار اقدس ضلع رحیم یار خان میں ہے۔ آپ کے دادا میاں احمد نامد را رحیم یارخان سے ہجرت کر کے لیہ تشریف لائے۔ آپ نے تعلیم و تربیت کے لیے تحفہ گرمانی، ملتان اور تونسہ شریف کے سفر کیے۔ خواجہ سلیمان تونسوی کے عقیدت مند تھے۔ خواجہ اللہ بخش قطب مدار سے بہت پیار تھا۔ آپ حافظ سید حیدر علی شاہ پیر جبی شریف کے مرید اور خلیفہ تھے۔ لیہ سے بجانب جنوب 10 کلو میٹر علاقہ ہوت والہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ آپ کے دور میں یہاں ہندوؤں کا راج تھا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کو جاہل رکھنے کی کوشش کی۔ آپ نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک مدرسے کا قیام کیا اور لوگوں کو کلمہ اسلام کی دعوت دی۔ قرآن و حدیث کا علم دیا۔ شریعت کے احکامات کو نافذ العمل کرانے پر زور دیا۔ آپ کے عقیدت مند ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ آپ کا مزار مبارک ہوت والا شریف چک نمبر ATDA-149 میں ہے۔ آپ کا سالانہ عرس مبارک 29جمادی الاول ہوتا ہے۔
حضرت حافظ غلام حیدر (1943ء):
موضع گٹ تھل رحمان آباد نزد جمن شاہ میاں غلام حسن بھٹی کے گھر پیدا ہوئے۔ حافظ قرآن اور قاری تھے۔ محکم الدین میرانی ضلع بہاولپور کے مریدین میں سے ہیں۔ آپ کے پیر قبلہ عالم پیر مٹھا سائیں تھے۔ جن کی صحبت کے فیض سے آپ مانتان ، ڈیرہ غازیخان ، احمدانی جام پور تک پھیلا ہوا ہے۔ آپ مورخہ 17 جنوری2015ء کو دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ آپ کا مزار مبارک لالو فقیر کے قبرستان میں ہے۔
حضرت علی العلم :
آپ لیہ شہر میں دفن ہیں آپ کے حالات زندگی تک رسائی نہ ہوسکی ہے۔
حضرت شاہ محمد لطیف :
آپ بھی ایک بزرگ صوفی تھے تفصیلی حالات زندگی نا معلوم ۔ تا ہم ان کی مزار لیہ کے مرکزی ڈاکخانہ کے شمال کی جانب ہے۔
حضرت کموں کامل :
آپ قریشی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ لیہ آمد کے وقت جہاں آپ نے ڈیرہ لگا یا کوئی گنجان آبادی ی تھی بلکہ ایک غیر آبادی جگہ تھی۔ جیسا کہ بزرگان کا طریقہ ہے۔ اور آپ نے اپنی رہائش کی جگہ پر ایک مسجد اور کنواں تعمیر کیا۔ کیونکہ چاہ کنویں کو کہتے ہیں۔ اس لیے آپ کی بستی کا نام چاہ کموں کامل مشہور ہو گیا۔
حضرت سیدا کبر:
آپ کا مکمل نام سید احمد اکبر ہے۔ اور آپ کا مزار اقدس لیہ کے محلہ شاہ لطیف میں واقع ہے۔ جس کمرے میں آپ کو دفن کیا گیا ہے۔ وہ اللہ وسایا نامی شخص کی ملکیت تھی ۔ آپ کے مزار پر شہد کے چھتوں کی کثرت پائی جاتی ہے۔
حضرت نور احمد :
آپ کا تعلق جھند خاندان سے تھا۔ چونکہ غریب تھے اس لیے امیر تصویر آپ سے رشتہ کرنے پر رضامند نہ تھے۔ اس لیے آپ لیہ سے بہاولپور ہجرت کر گئے اور کافی عرصہ بعد واپس آئے اور چک نمبر TDA/126 میں زندگی بسر کی اور وہیں مدفون ہیں۔
حضرت شاہ سرخہ رحمتہ اللہ علیہ :
جمن شاہ میں آپ کا مزار ہے۔ آپ کے مزار کے گرد قبرستان ہے۔ آپ کے بارے میںمشہور ہے کہ اگر کسی کو باؤلا کتا کاٹ لے تو آپ کے مزار پہ آ کر کپڑوں سمیت نہائے اور پھر لباس تبدیل کر کے پرانا لباس وہیں چھوڑ دے، وہ ٹھیک ہو جاتا ہے (واللہ اعلم )۔ آج کل آپ کے مزار کے گرد قبرستان کو کاٹ کرنا جائز تجاوزات کھڑی ہوتی جارہی ہیں۔
حضرت رتن شاه (لدھانہ ):
آپ قریشی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ انتہائی نیک اور پرہیز گار تھے۔ لدھانے شہر میں سالانہ عرص مبارک کی تقریب آپ کے ایصال ثواب کے لیے کی جاتی ہے۔
حضرت ممکن سلطان ڈلو :
آپ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ کی کرامات میں سے دریائے سندھ کا کٹا ؤ رک جانا ایک مشہور کرامت ہے۔ آپ کا مزار مبارک چوک اعظم سے چوک منڈا کے درمیان چک نمبر TDA/395 میں واقع ہے۔ جہاں پر ڈلو برادری اور جو تہ برادری مقیم ہے۔
سید شبیر شاہ خوشیه در بارسیدے والا چوک اعظم :
ان بزرگ کا نام سید شبیر شاہ ہے تفصیلی حالات سے آگاہی نہیں تا ہم ان کا مزار ضلع لیہ میں چوک اعظم بروڈ سے مشرقی چک نمبر TDA/393 میں واقع ہے۔ ان کا مزار مرجع خلائق ہے۔ اور آپ کے نام پر ایک پرائمری سکول بھی قائم ہے۔
حضرت صوفی غلام شبیر خالد رحمتہ اللہ علیہ (لیہ):
محلہ واگھے والہ لیہ شہر میں آپ کا مزار اقدس ہے۔ آپ کا سلسلہ نقشبندیہ وادی عزیز شریف چینیوٹ سے ہے۔ آپ کے مرید تونسہ، سوکڑ، ڈیرہ غازیخان ، راجن پور، ملتان ،مظفر گڑھ اور کراچی میں موجود ہیں۔ آپ کے صاحبزادے منیر خالد آپ کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حضرت محمد یعقوب کھگہ رحمتہ اللہ علیہ (لیہ ):
آپ بہاولپور سے لیہ میں تشریف لائے ۔ نہایت متقی اور پرہیز گار انسان تھے۔ آج بھی لوگ آپ سے انتہائی عقیدت رکھتے ہیں۔ اور آپ کے مزار واقع عید گاہ روڈلیہ پر فاتحہ کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔
سید جیون جہاز شاہ (چوبارہ):
آپ کو جیون جہان بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ آپ کی سبک رفتاری کی وجہ سے آپ کو جہاز یا جہاج کہا جاتا ہے۔ آپ لمبے سفر تھوڑے وقت میں لے کر لیتے تھے۔ آپ کا مزار چوبارہ کے پولیس اسٹیشن کی جنوبی جانب موجود ہے۔
حضرت مولانا حامد علی:
آپ کا مزار مبارک محلہ شیخا نوالہ یہ شہر میں ہے۔ آپ قرآن وحدیث کے عالم تھے۔
اسیر دیار حبیب اللہ بخش نیر رحمتہ اللہ علیہ (1938 ءتا 2010ء):
آپ ایک معروف عالم دین اور صوفی تھے۔ آپ نے قرآن کا ترجمہ اور تفسیر نیر العرفان کے نام سے لکھی۔ ان کے علاوہ سیرت نیر رسالت، فاتح کربلا، مقالات نیر، نیر صداقت، نیر حقیقت، دلائل قویه ، نورانیت النبی ، نصرت القادر، راز سربسته تفصیل الابهامین سمیت کم و بیش 42 کتب مطبوعہ ہیں۔ غیر مطبوعہ اس کے علاوہ ہیں۔ جن پر کام جاری ہے۔ سلسلہ طریقت میں آپ سلسلہ چشتیہ حیدریہ، نقشبندیه با رویہ، چشتیہ سعیدیہ کاظمیه قادریہ رضویہ برکاتیہ قادریہ مجددیہ، سہروردیہ مجددیہ اور قادریہ خوشیہ میں نمایاں مقام پر تھے اور ان سلاسل میں بعیت فرمانے کی اجازت تھی۔ آپ نے قال اللہ وقال الرسول کا پیغام عام کرنے کے لیے قلم کے ساتھ ساتھ وعظ و نصیحت کا طریقہ بھی اختیار کیا ۔ کراچی سے پشاور تک پاکستان کے ہر کونے میں آپ نے خطابات فرمائے ۔ سعودی عرب 1982ء میں حج کے دوران آپ پر مقدمہ چلایا گیا جہاں قید کر لیا گیا۔ عدالت میں پیشی پر آپ پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹے ثابت ہوئے اور آپ بری ہو کر تشریف لائے۔ اس لیے آپ کا لقب اسیر دربار حبیب پڑا۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت محمد اللہ یار چشتی، مخدوم احمد نامدار، مخدوم محی الدین جیٹھ بھٹہ کے واسطہ سے حضرت عباس بن عبد المطلب سے ملتا ہے۔ اس واسطہ سے آپ عباسی لاڑ کہلاتے ہیں۔
بابا بھلہ سرکار :
آپ انتہائی پر ہیز گار اور صوفی انسان تھے ۔ آپ کا مزار چک نمبر TDA/381 میں ہے۔ اور آپ کا سالانہ عرس جون ، جولائی کے مہینوں میں ہوتا ہے۔ کافی تعداد میں معتقدین شرکت کرتے ہیں۔۔
با با مراد شاه:
آپ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ آپ ضلع جھنگ کے علاقہ علی پور سے تجارت کی غرض سے چک نمبرTDA/399 آئے۔ آپ کے چار بھائی تھے۔ بابا مراد شاہ نے ایک مردہ جانور کو زندہ کیا۔ جس پر ان کے بھائیوں نے ان کو اللہ سے مقابلہ کرنے کی کوشش سمجھ کر چھوڑ دیا۔ لیکن آپ نے وہیں پر ڈیرہ لگا یا اور جنجوعہ برادری کو بشارت دی اور انھیں اپنا جانشین مقرر کیا۔ آج بھی محمد اقبال جنجوعہ دربار کے متولی ہیں اور سالانہ عرض ہوتا ہے۔
سید جہان شاہ:
آپ بخاری سید تھے۔ آپ تقریباً اٹھارویں صدی عیسوی بہاولپور کے علاقے سے لیہ تشریف لائے۔ آپ کے بارے میں مشہور ہے۔ کہ آپ نے شادی نہ کی بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھانجے نے گدی نشینی سنبھالی۔ جن کا نام سید مرید شاہ تھا اور انھوں نے آپ کی مجاوری کی۔
تین شہداء بھائی:
که به شہید، مالد شہید اور مسو شہید کے بارے میں مشہور ہے کہ غیر مسلموں سے بغیر سر کے جنگ کی تھی۔ یعنی سر قلم ہونے کے بعد بھی لڑتے رہے۔ آپ کے مزارات چک نمبر TDA/135 اور 137 TDA میں موجود ہیں۔
با با عظمت رحمتہ اللہ علیہ :
آپ ایک بزرگ اور متقی تھے۔ آپ کی قبر مبارک مسجد ولی داد کے قریب ہے۔ گرمیوں میں آپ کی قبر کو نسل دینے سے بارش ہو جاتی اور لوگ یہ کرامت اکثر دیکھتے ہیں۔
حضرت فتح شیر رحمہ اللہ علیہ:
آپ علاقہ نشیب کے ایک ولی گزرے ہیں۔ آپ کے معتقدین زیادہ تر علیانی برادری کے لوگ ہیں۔ اور آپ کی مزار بھی نشیب میں موجود ہے۔
حضرت خالق ولی:
علاقہ تھل غالبا چک نمبر 164 TDA کے قریب ایک جال کے درمحت میں آپ کی آرام کرنے کی جگہ گردانی جاتی ہے۔ جبکہ آپ کا مزار ملتان شریف میں ہے۔ یہاں ایک جڑ ہے جس کے نیچے سے لوگ گزرتے ہیں اور اپنی مرادیں اور منتیں پوری کرتے ہیں۔ کافی لوگوں نے اس جڑ کو کاٹنے کی کوشش کی لیکن ہر بار کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوئے۔
حضرت میاں بہادر :
آپ علاقہ تھل میں بسلسلہ تبلیغ تقریبا ایک سو سال قبل سندھ سے تشریف لائے ۔ ہر وقت عبادت میں مشغول رہے۔ آپ کے مزار پر ایک سانپ کی موجودگی رہتی ۔ جو زائرین کو کوئی تکلیف نہ دیتا بلکہ دودھ وغیرہ پی کر چلا جاتا تھا۔ آپ کا عرس دسمبر کے مہینے میں ہوتا ہے۔
میران شاہ حسین :
آپ کا مزار کوٹ سلطان سے مشرق کی جانب ہے۔ یہاں پر تلی کے مرض میں مبتلا لوگ آتے ہیں اور دعا کرواتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شفاءل جاتی ہے۔
میاں نور حافظ گیلانی:
آپ گیلانی سید تھے۔ آپ نے پیدل سات مرتبہ حج کی سعادت حاصل کی اور حافظ قرآن تھے۔ آپ کا سلسلہ حضرت غورث عبد القادر جیلانی سے ہے۔ اور وہیں سے ہجرت کر کے لیہ کے مشرق میں اڈہ نور حافظ جسے آج کل لالہ زار کہا جاتا ہے تبلیغ کے سلسلہ میں ڈیرہ لگایا اور یہیں آپ کا مقبرہ ہے۔ جہاں پر ایک مدرسہ اور مسجد بھی قائم ہے اور آپ کا نگر ہر وقت جاری رہتا ہے۔
حضرت شاہ مستانہ:
لالہ زار سے شمال کی طرف تقریبا چار سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر آپ کا مزار موجود ہے۔ مشہور شاہ مستانہ نام ہے۔ جبکہ معلومات کے مطابق یہ دو بھائی شاہ محمد اور شاہ مستانہ تھے اور دونوں اسی جگہ مدفون ہیں۔ آپ کے نام سے قبرستان شاہ مستانہ مشہور ہے۔ آپ کا مزار زیر تعمیر ہے۔ مشہور عالم قاری منظور احمد بھی شاہ مستانہ کے
قریب رہائش پذیر ہیں۔
میاں دین محمد :
بنیادی طور پر آپ ایک مجذوب بزرگ تھے اور جانور چراتے تھے۔ آپ کا اصل نام میاں دین محمد تھا اور جس کو دعا دیتے وہ قبول ہوتی اور اگر بد دعا کرتے تو وہ بھی۔ تقریباً ۱۵ سال کی عمر میں فوت ہو گئے۔ ۴۸ سیدامیر حسین شاہ لیہ سے جنوب مغرب کی طرف موضع جکھڑ کے قریب آپ نے اللہ اور رسول صلی یا یہ تم کے احکامات کی تبلیغکی۔ آپ ایک صاف گو صلح پسند اور امن پسند انسان کے نام سے پہنچانے جاتے تھے۔ دین اسلام کی تبلیغ میں ساری زندگی گزاری۔ علم اور اسلام آپ کا مشن تھا۔ آپ کی دعا کی تاثیر بہت مشہور تھی۔ آپ جس کے لیے بھی دعا فرماتے وہ پوری ہو کر رہتی تھی۔ آپ کے ہم عصر بزرگوں میں حضرت صالح محمد قریشی، اللہ یار عباسی اور مولانا حامد علی مشہور ہیں۔
قاری گل حسن چشتی:
آپ قرآن کریم کے بہت اچھے قاری خوش الحان تھے۔ قرآت کے اصولوں پر کتب لکھیں ۔ گورنمنٹ ایم سی ہائی سکول میں استاد بھی رہے۔ اللہ کے ذکر میں پوری زندگی گزاری ، ہر وقت تلاوت قرآن پاک میں مشغول رہتے ۔ آپ کا مزار مبارک محلہ فیض آباد کے مشرق میں لیہ مائنر نہر کے مغربی کنارے کے ساتھ ہے۔
میاں عثمان بھٹہ رحمتہ اللہ علیہ:
آپ دوریش صفت انسان دوست آدمی تھے۔ اللہ کا ذکر آپ کا مشغلہ تھا۔ لوگوں کو تدریس قرآن میں مصروف رہتے تھے۔ آپ کا مزار مبارک چک نمبر A/TDA-149 قبرستان ڈھیری والا میں ہے۔ آپ کے مزار کے باہر احمد شاہ دربار کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ علاقہ کے بزرگان اور بورڈ لگانے والوں سے اس بابت دریافت کیا تو کوئی بھی احمد شاہ سے واقف نہ تھا۔ ایک روایت کے مطابق شیر محمد کھگہ نامی بزرگ جو محمود کوٹ ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں ان کو خواب آیا کہ یہاں احمد شاہ دفن ہے۔ تو ان کے معتقدین نے یہاں احمد شاہ دربار مشہور کر دیا۔ جبکہ عثمان فقیر بھٹہ کو تمام علاقہ جانتا بھی ہے۔ اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ anticoخواجہ صوفی بشیر احمد نقشبندی آپ سلسلہ نقشبندیہ میں صوفی محمد علی آف چنیوٹ کے خلیفہ مجاز تھے ۔ محکمہ تعلیم سے وابستہ رہے۔ ان کے مرشدان کو پیار سے ہیڈ ماسٹر بلاتے تھے۔ آپ مرشد کی دعا سے ہیڈ ماسٹر بن گئے۔ زندگی قال اللہ وقال رسول سم میں گزاری۔ شریعت مصطفی اور احکام خداوندی کی بجا آوری میں کوئی کمپرومائز نہ کیا۔ اپنے مریدین و معتقدین کو بھی ہمیشہ اللہ اور اسکے رسول صلی یہ تم کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتے رہے۔ آپ کا مزارمبارک چک نمبر TDA/148 چاہ بالو والا میں ہے۔
خواجہ خواجگان خواجہ فقیر محمد با روی:
آپ ولایت کے کمال درجہ پر فائز شخصیت تھے۔ پر محمد عبد اللہ المعروف پیر بارو شریف کے خلیفہ مجاز ، سجادہ نشین اور امیر اہلسنت کے لقب سے پہنچانے گئے۔ احکام شریعت کی بجا آوری میں انتہائی محتاط اور سخت تھے۔ آپ نے متعدد درس گاہیں قائم کیں اور ان کے تمام اخراجات کی ذمہ داری بھی احسن طریقے سے نبھائی۔ سنت رسول صلی اینم کی پیروی میں پوری زندگی گزاری۔ اپنی اولا د اور مریدین و معتقدین کو بھی سنت رسول سنی می بینم پر عمل پیرا ر کھنے کی تبلیغ ساری زندگی کی ۔ عشق و محبت رسول مینی یتیم کو ہر چیز پر مقدم رکھا۔ آپ کا مزار مبارک حضرت پیر حمد عبد اللہ بارڈ کے پہلو میں روضہ پاک کے اندر ہے۔
حضرت حکیم غلام رسول با روی عباسی:
آپ حضرت پیر بارو” کے مرید خاص تھے۔ حکمت کے شعبہ سے وابستہ رہے۔ سنت رسول ملی تم کی پیروی آپ کا نصب العین اور مقصد حیات تھا۔ اپنی تمام اولا د کو سنت رسول صل تم پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتے رہے۔ متعدد بار روضہ رسول سلام پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ تہجد گزار تھے۔ کئی دفعہ ایک ہی دن میں پورا قرآن پاک تلاوت فرمالیتے تھے۔ زیادہ سے زیادہ تین دن میں ختم قرآن پاک فرمالیتے تھے۔ وفات سے کچھ عرصہ قبل فرمایا کہ مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان میں دفنانا اور قرآن پاک کی تلاوت کبھی بھی بند نہ کرنا۔ آپ ہر جمعرات کی شام بعد نماز مغرب اپنے تمام اہل و عیال کو اکٹھا کر کے ختم پاک فرمایا کرتے اور تمام مسلمانوں کی بخشش کی دعا کرواتے اور فرمایا کہ اسے جاری رکھنا۔ آپ کا مزار مبارک ایک قبرستان جالیاں والا چکنمبر C/TDA-149 میں ہے۔
جام محمد ظفر اللہ با روی:
پر محم عبد اللہ بارڈ کے مرید خاص تھے۔ محکمہ تعلیم میں ضلعی آفیسر بھی رہے۔ انتہائی نیک سیرت اور اللہ
والے تھے۔ شریعت کی پابندی اور سنت رسول سیل اینم پر عمل پیرا ر ہے۔ قال اللہ و قال الرسول مینی می چینم کی تبلیغ جاری رکھی ۔ آپ کا مزار مبارک کوٹ سلطان میں پیر جگی اڈہ کے قریب ہے۔
سید طالب حسین شاہ با روی:
آپ بھی محمد عبد اللہ بارڈ کے مرید خاص تھے۔ جمن شاہ میں مدرسہ انوار بارو کا قیام اور درس و تدریس آپ کے نمایاں کارناموں میں سے ایک ہے۔ آپ ہر وقت تسبیح ہاتھ میں رکھتے تھے جو کہ آپ کی خاص نشانی سمجھی جاتی تھی۔ پوری زندگی اللہ اور رسول سینی یا یتیم کے احکامات پر گزاری۔ آپ کا مزار شریف جمن شاہ مدرسہ انوار بارو
میں ہے۔
حضرت شاہ سلطان :
آپ کا مزار مبارک جمن شاہ اور کوٹ سلطان کے درمیان روڈ کے ساتھ ہے اور سٹاپ قبرستان شاہ سلطان کے نام سے مشہور ہے۔ جسم پر کوڑیوں کے علاج کے لیے لوگ حاضری دیتے ہیں اور چند کنگران جسمانی مکوڑیوں پر پھیرنے سے ختم ہو جاتی ہیں۔
حضرت حیدر شاہ (المعروف حاضر شاہ):
آپ ایک متقی اور پرہیز گار صوفی بزرگ تھے۔ تفصیلی حالات زندگی نہیں مل سکی۔ آپ کا مزار کوٹ سلطان میں ہے۔
۵۸ حضرت تیونه شریف:
آپ کا اصل نام اسد اللہ تھا، آپ قریشی تھے اور اصل وطن تو نسہ شریف تھا۔ آپ لوڑھے والے فقیر بھی کہلاتے تھے۔ کیونکہ آپ کی حدود میں چوری نہیں ہوتی تھی۔ آپ کا مزار شیخ قل احمد نوری حضوری قبرستان میں ہے۔
حافظ محمد سعید ( کروڑ ) :
حافظ محمد سعید صاحب کروڑ کی ایک علمی شخصیت تھے۔ حافظ قرآن ، عالم دین اور مبلغ کے ساتھ ساتھ بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے ۔ آپ کا مزار کر ڈو لعل عیسن مزار کے ساتھ مغربی جانب ہے اور آپ کے فرزندان اشفاق کروڑی صاحب مشہور عالم دین اور حافظ اسحاق صاحب ڈپٹی ڈائر یکٹر کالجز رہے اور لیہ کی عظیم علمی شخصیت ہیں۔
حضرت مولانا اللہ بخش کوثر :
نہایت ہی شیریں گفتگو کے مالک تھے۔ آپ کا آبائی علاقہ لدھا نہ ہے۔ ایک نعت گو شاعر تھے۔ سرائیکی زبان پر مہارت تھی۔ اپنی ابتدائی تبلیغ نعتیہ شاعری سے کی اور بعد میں وعظ و نصیحت اور تقاریر بھی مختلف عنوانات پر کرتے رہے۔ آپ کے بیٹے مولانا منظور حسین اور نازک حسین کو شر بھی عالم دین ہو گزرے ہیں۔ آپکا مزار لدھانہ شہر میں ہے۔ آپ کا مدرسہ انوار حبیب کو ثر لدھانہ شہر میں عظیم دینی درسگاہ ہے۔
ٹلاں والی سرکار :
یہ مزار تحصیل چوبارہ میں ہے۔ جہاں پر لوگ اپنی منتیں پوری کرنے کے لیے ٹل لگاتے ہیں۔ اور جانور کے گلے میں ٹل ڈال کر نذرانے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
غلام مصطفی خان :
آپ کی پیدائش 1906ء میں انڈیا تحصیل حجر میں ہوئی۔ 1956ء میں تحصیل کروڑ ضلع لیہ تشریف لائے اور مستقل رہائش یہ کلمہ چوک کے قریب رکھی۔ آپ کا سلسلہ نسب چشتیہ، قادریہ، سہروردیہ، نقشبند یہ چاروں سلاسل سے ہے۔ آپ کے پیر طریقت سید قطب الدین احمد ہاشمی تھے۔ جن کا مزار انڈیا میں ہے۔آپ نے ایک پیدل حج اور متعدد حج و عمرے کیے۔ آپ کے تین بیٹے ہیں جن میں سے محمد رضا خان فوت ہو چکے ہیں اور غلام مرتضیٰ خان اور محمد عرفان خان حیات ہیں اور آخر الز گر گدی نشین ہیں۔ آپ کے خلفاء میں سندھ کے صوفی منظور احمد مشہور ہیں اور لیہ میں الحاج ظفر خان قابل ذکر ہیں۔ آپ نے 26 اگست 1996ء کو وفات پائی اور کلمہ چوک لیہ کے قریب آپ کا مزار ہے۔ جہاں مسجد مدرسہ میں تعلیمات اسلامی کا عظیم مرکز ہے۔ سالانہ عرس 7, 8 ربیع الثانی کو منایا جاتا ہے۔