لیہ کی شخصیات

لیہ: سرائیکی وسیب کا ہیر وشملہ شاہ

منظور بھٹہ

سرائیکی دھرتی مختلف کرداروں سے مالا مال ہے۔ مثبت کردار بھی موجود ہیں اور منفی بھی منفی اور مثبت کا فیصلہ تو وقت کرے گا لیکن کرداروں کو جانچنے پر کھنے کے لیے بصیرت کا ہونا از حد ضروری ہے۔ بہر حال جو اس طرح کے کردار ہوتے ہیں ان کو مختلف زادیوں سے دیکھا اور پر کھا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ بڑے حساس، ہم درد اور حریت پسند ہوتے ہیں ، مگر نا مساعد حالات میں قوموں کی جنگ لڑنے کے لیے انفرادی طور پر میدان جنگ میں کود پڑتے ہیں، جس کی وجہ سے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آتے ، ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوتی ہیں، جس کی وجہ سے بدنام ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کا دفاع کرنے والا طبقہ موجود نہیں ہوتا یا پھر کمزور ہوتا ہے اس لیے ان کے مثبت کاموں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس لیے گورنمنٹ یا پھر با اثر شخصیات ان کے خلاف جو بھی پروپیگینڈہ کرتے ہیں ، سیدھی سادی قوم اسی طرح من و عن مان لیتی ہے، مگر وقت کی گرد چھٹنے کے بعد حقائق واضح ہو جاتے ہیں، مگر وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ جس طرح کل بھگت کبیر کو تاریخ باقی لکھتی تھی مگر اب اسے ہیرو مانا جاتا ہے۔ اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ اسی طرح ہماری سرائیکی دھرتی کا ہیرو شملہ شاہ تھا۔ تاریخ پیدائش تو صحیح معلوم نہ ہو سکی مگر قبر کے کتے پر لکھی تاریخ وفات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 1884ء میں پیدا ہوا اور 1994ء میں ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی۔
سید غلام عباس شاہ عرف شملہ شاہ تحصیل تونسہ پہاڑ کے دامن میں بستی و ہوا کے نزدیک کسی بستی میں پیدا ہوا۔ ساری عمر انگریز سامراج اور ہندو ساہوکاروں کے خلاف لڑتا رہا۔ ہندوؤں سے لوٹی ہوئی دولت سے غریب مسلمانوں کی امداد کرتا رہا ہے۔ برکت اعوان نے اسے یورپ کا رابن ہڈ کہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر شملہ شاہ یورپ میں پیدا ہوتا تو اس کے ہر جگہ پر مجھے نصب ہوتے ۔ چونکہ وہ سرائیکی دھرتی کا ہیرو ہے اسی لیے تھا ، میگراس کی قبر کا نام و نشان تک بکھرا ہوا ہے، مگر لوگوں کے دلوں میں اب بھی زندہ ہے۔ والدین نے اس کا نام غلام عباس رکھا مگر ماں اسے پیار سے شملہ کہتی تھی ۔ کلف لگی پگڑی جس کا ایک سراسر کے اوپر کافی نما طرہ ” جو چڑی کی شان ہوتا ہے ، اسے شملہ” کہتے ہیں۔ پھر جب جوانی کی حدوں کو چھونے لگا اور اپنا کردار وسیب میں ادا کرنے لگا تو پھر شملہ شیر بن گیا، شملے شیر کا ہاتھ کبھی کمزور پر نہیں اٹھتا تھا اس نے جب بھی للکارا انگریز سامراج اور ہندوؤں ساہوکار کو ہی للکارا۔ اس نے انگریز سامراج اور ہند و پینے کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ شملہ شاہ ان کے لیے دہشت کی علامت بن گیا۔ شملہ کے آباو اجداد لیہ سے تعلق رکھتے تھے ، اب بھی اس کا حقیقی ہوتا مختیار حسین شاہ عرف تاروشاہ لیہ کے قصبہ کوٹلہ حاجی شاہ میں مقیم ہے۔ شملہ شاہ کا گھرانا کوئی صاحب جائیداد نہ تھا۔ وہ ہمیشہ مسلمانوں کی حالت زار پر کڑھتا رہتا تھا، جو ہندو پینے کی چالوں اور سود در سود کی صورت میں جکڑے ہوئے تھے۔ شملے شاہ سے پہلی واردات اس وقت سرزد ہوئی جب وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ و ہوا کے بازار سے گزر رہا تھا، اس کے غریب دوست نے ایک ہندو بنیے کا قرض دینا تھا، جو اس نے سود پر لیا ہوا تھا۔ ہندو نے اسے پکڑ کر شملے شاہ کے سامنے بے تحاشاز دو کوب کیا جو شملے سے برداشت نہ ہو سکا، اس نے جیب سے خنجر نکالا اور ہندو کے سینے میں گھونپ دیا۔ وہ و ہیں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ شملے نے اپنے دوست کو گھر چھوڑا اور خود روپوش ہو گیا۔ کافی عرصه رو پوش در پا انگریز حکومت نے اسے پکڑنے کی انتھک کوشش کی مگر بے سود، آخر کار سر کی قیمت رکھی گئی ، انگریز سرکار اس پر بھی ناکام ہوئی۔ شملے شاہ نے درہ ٹوچی سے آفریدی قبیلہ کے چند افراد کو اپنے ساتھ ملا کر وارداتوں کے لیے شیر کی طرح کچھار سے باہر نکل آیا۔ کراچی سے راولپنڈی تک اس کے نام سے لوگ کانپ اٹھتے تھے۔ شملہ شاہ جہاں بھی ڈاکہ ڈان پہلے پولیس آفیسر کو آگاہ کر دیتا، کیونکہ اس وقت پولیس آفیسر انگریز ہوا کرتے تھے، کیونکہ وہ انگریز سامراج کو زچ کرنا چاہتا تھا اور وطن عزیز کو انگریزوں سے آزاد کرانے کی تمنا رکھتا تھا، میں نے پہلے کہا تھا کہ جب قوم کی جنگ فرد واحد لڑ نے لگ جائے تو خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ،شملہ شاہ جہاں بھی ڈاکہ ڈالتا اسی جگہ پہلے اعلان کرواتا کہ اے مسلمانو! تم شملے شیر کی امان میں ہو، میرا مقابلہ انگریز سامراج اور ہندو ساہوکار سے ہے۔ شملہ شاہ نشانے میں تاک تھا رات کی تاریکی میں آواز پر فائر کھول دیتا تھا جو ٹھیک نشانے پر جا لگتا۔ ضلع مظفر گڑھ ضلع ڈیرہ غازی خان ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور ضلع میانوالی شملہ شاہ کے ٹارگٹ پر تھے۔ جہاں بھی ڈاکہ ڈالتا مستحق لوگوں میں دولت تقسیم کر دیتا۔ لیہ میں متواتر تین سال سے بارش نہیں ہوئی تھی ، قحط پڑ گیا،لوگ بھوک سے مرنے لگے تھل کے کچھ لوگ شملہ شاہ کو جا کر ملے اور استدعا کی کہ ہم بھوکے مر رہے ہیں ہماری مدد کی جائے شملے شاہ نے انھیں یہ پیغام دے کر واپس بھیج دیا کہ فلاں دن فلاں وقت دائرہ دین پناہ سے لے کر جھر کل تک لوگ ریلوے لائن کے آس پاس رہیں، میں وہیں ان کی مدد کروں گا۔ ملتان سے راولپنڈی جانے والی مال گاڑی جس پر ہندوؤں کا تجارتی سامان لدا ہوا تھا اس کو دائرہ دین پناہ سے یر غمال بنالیا اور ڈرائیور کوحکم دیا کہ گاڑی آہستہ آہستہ چلاتا رہے۔ تاکہ سامان اٹھانے میں دقت نہ آئے۔ جھر کل تک جاتے جاتے گاڑی خالی ہوگئی ۔ لوگ سامان اٹھاتے اور گھر کو روانہ ہو جاتے ۔ شملہ شاہ ساتھیوں سمیت اپنی پناہ گاہ کو چل دیا۔ کہا جاتا ہے کہ شملہ شاہ اور اس کے ساتھی کسی شہر کو لوٹ رہے تھے، شملہ چھت پر کھڑے ہو کر ان کی نگرانی کر رہا تھا۔ ایک عورت کی آواز نے اسے چونکا دیا وہ کہ رہی تھی کہ پہلے شملہ شاہ دولت لوٹتا تھا، اب عورتوں کی عزتیں لوٹنے پر اتر آیا ہے۔ شملے شاہ نے نیچے نگاہ دوڑائی تو اس کا ایک ساتھی عورت کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑ رہا تھا۔ فیملے کی خوددار بندوق سے ایک شعلہ نکلا اور اس کے ساتھی کے سینے میں پیوست ہو گیا۔ ساتھی وہیں پر ڈھیر ہو گیا۔ شملے شاہ نے اس وقت ڈاکا ڈالنے سے تو بہ کر لی اور پہاڑوں میں چلا گیا۔ شملے شاہ کا ایک اور واقعہ جو دل کو چونکا دیتا ہے۔ کچھ اس طرح ہے کہ شملہ شاہ کسی گھر کو لوٹنے کے لیے آیا اس گھر میں بتیاں جلتی ہوئی نظر آئیں اور چہل پہل بھی تھی کسی آدمی سے پوچھا کہ اس گھر میں چہل پہل کس وجہ سے ہے۔ اس نے کہا ہندو لالو رام کی لڑکی کی شادی ہے، اس لیے یہ رونق نظر آرہی ہے، شملہ شاہ شنک گیا کسی آدمی کے ہاتھ پیسے دے کر کہ بھیجا کہ میری طرف سے جہیز کا سامان لا کر دے دینا کیونکہ بیٹی بیٹی ہوتی ہے چاہے جس کی بھی ہو، شملہ واپس چلا گیا۔ ایک دفعہ شملہ شاہ گھر والوں کو ملنے کے لیے یہ آرہا تھا اس کی گینگ کے دو کم ظرف لوگوں نے اس کے ساتھ غداری کی اور حکومت وقت کو مخبری کر دی، جن کا نام حسن لاشاری اور حیدر لاشاری بتایا جاتا ہے۔ سرکار نے موقع غنیمت جانتے ہوئے انگریز فورسز اور مقامی لوگوں کی مدد سے دریائے سندھ کے ڈبلینا میں سوتے ہوئے شیر کو آدیو چا، جعہ جس کو شملہ شیر پیار سے جمعہ کہتا تھا مقابلے میں مارا گیا شملہ شاہ کو گرفتار کر لیا گیا اور مظفر گڑھ جیل میں لے جایا گیا کسی ڈکیتی کی تفتیش میں اسے علی پور تھانہ میں نقل کر دیا گیا۔ جہاں موقع پاتے ہی شملہ شاہ حوالات توڑ کر مال خانہ سے اہل لوٹا اور فرار ہوگیا۔ پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے شملہ شاہ نے خود گرفتاری دے دی چونکہ جمعو کی موت نے اس پر کافی اثر کیا تھا وہ دل گرفتہ ہو گیا۔ پاکستان بننے کے بعد اس کےسارے مقدمات خارج کر دیے گئے۔ جب شملے کو گرفتار کر لیا گیا تھا تو یہ خبر کراچی سے راولپنڈی تک جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی دور دراز سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مظفر گڑھ اس کی ایک جھلک دیکھنے آئے۔ اس کی پھوپھی نے بے ساختہ ایک سرائیکی میں نظم لکھی جسے داہر کہا جاتا ہے۔ یہ واہر زبان زد عام ہے کیا بچے ، جوان، مرد، عورتیں بڑے مزے سے ترنم کے ساتھ پڑھتے ، گاتے اور سنتے

 نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com