بارش کی طرح میرے آنسوبرستے ہیں
اور طبیب نے مجھے رونے سے منع کر رکھا ہے
یہاں تک کہ اپنے محبوب کی جدائی پر رونے سے بھی منع کیا ہے
لیکن میرا دل ایک حیران پرندہ ہے
جو اگر نہیں گائے گا تو مر جائے گا
مصری شاعر صلاح جاہین کی نظم کی سطروں سے مجھے وہ اچانک یاد آگیا اور میرے کانوں میں آواز گونجی ” منور‘‘
مصری اپنے مہمان کی آمد پر خوش ہو کر اُس کے لیے یہی لفظ ادا کرتے ہیں،جس کا مفہوم کچھ اِسی قسم کا ہے ” تمہارے آنے سے روشنی ہوئی ہے‘‘ ۔اِس کے جواب میں عموماً ” نُورک‘‘ کہا جاتا ہے یعنی یہ سب آپ ہی کی روشنی ہے۔منور علی ملک کی شاعری کی کرنیں دل میں اتری ہیں تو کچھ ایسے ہی جذبات امڈ آئے ہیں۔
آج کل کے ماحول میں تو افسردگی ہے ہی ،کبھی کبھی بے سبب اداسی بھی ہو ا کرتی ہے اور دل آنسوئوں سے بھر جاتا ہے۔بعض لوگ اِس کیفیت کو ” تخلیقی توانائی ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت ِ حال ہے کہ میں ایک جینوئن تخلیق کار سے معانقہ کر رہا ہوں۔
زندگی کے ہنگاموں سے دور ،چاندنی راتوں میں، سکُوت و سکون میں ڈوبا ،وہ ایک ایسا فنکار ہے جو بلاشبہ میانوالی کا ہی نہیں ” درد ‘‘ کا حوالہ بھی ہے۔اس نے عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کو درد کا سفیر قرا ر دیامگر اصلاًوہ خود درد کی تاثیر ہے۔اس کا تعلق دائود خیل کی اعوان اور ایک پڑھی لکھی فیملی سے ہے۔اس کے والد ” راوین ‘‘ تھے اور اُن دنوں کے تعلیم یافتہ تھے جب بی اے پاس کر کے لوگ ،بی اے کو اپنے نام کا حصہ بنانے میں فخر محسوس کرتے تھے۔وہ جسٹس ایس اے رحمان کے ہم درس اور گہرے دوست بھی تھے۔ خودمنور علی ملک نے گارڈن کالج کے اُس دور میں علم حاصل کیا جب اُس کالج میںانگریزی ، امریکی پروفیسرز پڑھایا کرتے تھے۔منور علی ملک کو علم و ادب گھٹی میں ملا۔ماموں منظور حسین منظور، علامہ اقبال کے ہم عصر تھے ۔یہ جوملک صاحب اِس قدر خوبصورت انگریزی لکھتے ہیں،یہ وصف بھی انہیں اپنے والد سے عطا ہوا ہے جو خود بھی بہت عمدہ انگریزی لکھنے والوں میں سے ایک تھے۔والد نے انہیں بچپن ہی سے ” مطالعے‘‘ کے پالنے میں ڈال دیا تھا۔انہیں آج کے بچوں کی طرح ٹافیاں ، چپس نہیں ملتے تھے بلکہ اُس دور کے بچوں کے بہترین رسائل و جرائد ،پھول ،تعلیم و تربیت اور ” ہدایت ‘‘ تحائف کی صورت میں ملتے تھے۔گارڈن کالج سے ا نگریزی ادب میں ماسٹر کرنے والے منور علی ملک اپنے انگریزی کے امریکی اساتذہ کی آنکھوں کا تارا تھے۔وجہ ان کا مطالعہ اور ذہانت تھی۔ان کے ایک امریکی پروفیسرJohn Wilder ان سے اس قدرمحبت کرتے تھے کہ انہیں اپنا بیٹا بنا کر امریکہ لے جانے کو تیار تھے مگر گھر والے دُور بھیجنے کو تیار نہ ہوئے۔ عزیز قارئین ! عمر بھر انگریزی کی تدریس کرنے والا یہ شفیق استاد، اند ر سے ایک میٹھا اور رسیلا شاعر بھی ہے۔اس کا سلگتا ہوا دل اس کے اشعار میں جا بجا نمایاں ہے۔اپنے عیسٰی خیل کے قیام کے حوالے سے منور ملک تحریر کرتے ہیں :
” عیسیٰ خیل میں اپنے قیام کے پانچ برسوں کے دوران، میرا زیادہ وقت عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کے ساتھ بسر ہوا۔گمنامی سے عالم گیر شہرت تک تمام مراحل عطا نے میری آنکھوں کے سامنے طے کیے ۔یہ ساری داستان ” درد کا سفیر‘‘ میں لکھ چکا ہوں ۔‘‘
جی ہاں عطا اللہ عیسی خیلوی کے حوالے سے ،ان کی یہ کتاب قارئین میں بے حد مقبول ہے ۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ لالہ جی (عطا اللہ عیسیٰ خیلوی) کے گائے ہوئے ،میرے کئی پسندیدہ گیت، منور علی ملک کی تخلیقی کاوش ہیں۔آج بھی میں یہ گیت لمبی ڈرائیونگ کے دوران شوق سے سنتا ہوں۔
ساری رات رُنّی آں‘ پل سکھ نئیں پایا
سچّی دَس وے ڈھولا‘ کل کیوں نئیں آیا
یا پھر …
پتلا ڈھولا اللہ جانے کیندے نصیب ہوسی
منور ملک پاکستان ٹائمز میں مسلسل تیرہ برس ( اس کے بند ہونے تک) لکھتے رہے۔پاکستان ٹائمز کے میگزین کے نگران اقبال جعفری اپنے دوست سلیم احسن کے ساتھ انہیں ملنے میانوالی گئے تو بس سے اترتے ہی کہا :
”ہم میانوالی میں اُس شخص کو دیکھنے آئے ہیں جو میانوالی میں بیٹھ کر آکسفورڈ کی انگریزی لکھتا ہے۔‘‘
یہ خراجِ تحسین کسی اعزاز سے کم نہیں ۔ان کی دوسری کتاب ”پسِ تحریر ‘‘ بھی نثر پر مشتمل تھی۔جس میں سینئر اہل قلم کے قلمی انٹرویو شامل ہیں ۔ان کی ”جان ملٹن‘‘ نام کی تصنیف بھی اہل ِعلم سے بے پناہ داد حاصل کر چکی ہے۔شاعری کے ساتھ بقول ان کے دوستوں کے ،انہوں نے سوتیلی اولاد کا سا سلوک روا رکھا ہے۔ان کا صرف ایک شعری مجموعہ ”جو تم سے کہہ نہ سکا ‘‘شائع ہوا۔اپنے شاگردوں کے محبوب استاد ، اعلیٰ پائے کے شاعر اور نثر نگار منور علی ملک سے ،اردو کے ممتاز ادیب ، ممتاز مفتی بھی محبت کرتے تھے۔ممتاز مفتی نے ایک بارانہیں مشورہ دیا تھا :
” ایک بات یاد رکھو!شاعروں‘ ادیبوں اور نقادوں کے لیے لکھو گے تو یہ لوگ تمہاری تحریروں کو قطعاً لفٹ نہیں کرائیں گے کہ اس سے ان کی اپنی اہمیت کم ہوتی ہے۔عام لوگوں کے لیے لکھوتو وہ تمہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے‘‘
پھر منور علی ملک نے شاعری ہو یا نثر ، اپنی من موج کے مطابق تخلیق کی جو عام لوگوں کے دلوں کی ترجمان ٹھہری ۔وہ شہرت سے بے نیاز ہو کر بھی اپنے گیتوں اور شاگردوں کی صورت میں ہر سُو مہک رہے ہیں۔ ان کے شعر شعر میں ہجراں زدہ اداس روح سلگتی نظر آتی ہے۔ان کی غزل درد اور کسک کا حسیں مرقع ہے مگر ان کی نعت بالکل انفرادی رنگ لیے ہوئے ہے۔جس میں ایک عاشق رسول ﷺ کا دل دھڑکتا محسوس ہوتا ہے۔ ؎
مرے شوق سجدہ کو آستاں‘ مری بندگی کو خدا دیا
مرے ہم نشین تجھے کیا خبرکہ مجھے حضور ﷺنے کیا دیا
وہ اداس رات فراق کی ،جو ترے کرم سے سحر ہوئی
ہوئی تیری یاد سے روشنی ،تو چراغ میں نے بجھا دیا
آنکھیں بھی برستی ہیں ساون کا مہینہ بھی
ہے شام بھی ہونے کو اور دُور مدینہ بھی
جو کچھ بھی ملا مجھ کو اُس در سے ملا مجھ کو
جینے کا سلیقہ بھی، مرنے کا قرینہ بھی
ان کے نعتیہ اشعار میں آگہی کا شعور اور ہجر کا وفور گھل مِل جاتے ہیں۔ان کی غزل کا لباس سرسوں جیسی پیلی دھوپ سے مزیّن ہے۔شعر پڑھیں تو ہجر کی ٹیسیں اور غم کی ہو ک سینے میں اتر جاتی ہے ۔تغزل کی چاشنی کے بغیر غزل ‘ غزل نہیں ہوتی۔منور علی ملک کی غزل میں زندگی کارس بھی ہے اور نمک بھی ۔ پڑھ کرآ پ بھی منور علی ملک کو ” نُورک‘‘ کہہ سکتے ہیں۔۔چند اشعار بلا تبصرہ آپ کی نذر ہیں:
ہم فقیروں کو حقارت سے نہ دیکھ
ایسے لوگوں کی سنی جاتی ہے
یوں چھپا تا ہوں مفلسی اپنی
جیسے چوری کا مال ہوتا ہے
میں اپنا گھر نہ جلاتا تو اور کیا کرتا
تمام شہر جو تاریکیوں میں ڈوبا تھا
ہم حقیقت کو ساتھ لے ڈوبے
لوگ لکھتے رہیں گے افسانے
پوچھ رہا تھا کوئی گلی کے بچوں سے
جانے والا رستے میں رویا تو نہیں
بہ شکریہ روزنامہ دنیا