تحریک پاکستان میں میانوالی کے سرائیکی شعرا نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ یہاں یہ تحریک سرائیکی شاعر اکبر چھد روی سے آشنائی سے شروع ہوتی ہے۔ انگریز ڈی سی نے اس کی زبان بندی کر دی تھی اور اس زمانے میں جب روپے کی بڑی قدر ہوتی تھی اس کا دو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا تھا سرکاری طور پر اسے اس میدان سے الگ کیا گیا تو اس نے کچھ رومانی شاعری کی شالاتوں نہ سکیں ہائو بھڑی” اسی دور کی یادگار ہے، اس نے لوک کہانیوں کی طرف بھی توجہ کی اور اپنا مجتہدانہ رنگ اختیار کیا۔ اس کی اپنی ترجیحات تھیں ہیر رانجھے کی کہانی میں کیدو اس کا پسندیدہ کردار تھا وہ ہیر سے نفرت کرتا تھا اس کے نزدیک شادی کے بعد ہیر کو میکے اور سسرال کو بے عزت اور بے توقیر کرنے کا کوئی حق نہ تھا وہ رانجھے کو بھی قابل نفرت سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک پرائیاں رناں تاڑن آلا” کنجر تھا وہ کیدو کو غیرت کا نشان سمجھتا تھا۔ جو کمزور ، لنگڑا اور بدصورت ہونے کے باوجود حتی الامکان دوسروں کو غیرت ولاتا رہا انگریزوں کا بھی پکا دشمن تھا جب اسے تعصبات ابھارنے کی شاعری سے روکا گیا تو وہ اور بھی ان سے متنفر ہو گیا تاہم وہ کھل کر شاعری نہ کر کا کیونکہ اس کی شاعری انگریز ڈی سی ایس پی کے پاس پہنچ جاتی تھی پھر بھی اس نے بہت کچھ کیا اس کے اسی جہت میں کچھ اشعار مجھے یعقوب خان مرحوم نے سنائے
تھے۔
ست سمندر ٹھل کے آئے ساڈیاں واگاں نپن
رنگ انہاں دے رتا ببر پھپھر وانگوں لگن
اتھے آکے لگے سارے جڑھاں ساڈیاں کپن
ایہہ ہن ظالم سور خورے نہ ڈرن ناں جھکن
(ہماری باگیں تھام لینے کے لئے یہ سات سمندر پار سے آئے ہیں ان کے رنگ مٹی کے سرخ ٹوٹے برتن کی طرح یا کیچڑے کی طرح ہیں۔ یہاں آکر یہ ہماری جڑیں کاٹنے لگے ہیں یہ ظالم خنزیر کھانے والے ہمیں نقصان پہنچانے میں کوئی خوف نہیں کھاتے)
سات سمندر پار سے آکر باگیں پکڑنے کی بات آزادی کا بڑا نعرہ ہے جڑیں کاٹنے کی بات میں بھی بڑی معنویت ہے انگریز کو خنزیر خور کہہ کر مسلمانوں کے نزدیک انتہائی قابل نفرت بنا دیا گیا ہے۔ ۱۹۰۲ء میں ایک شاعر بھتا کامری کے نام سے مشہور تھا اس نے سہ حرفی میں یہ جدت پیدا کی کہ ایک حرف حجمی پر دوہڑہ کہنے کی بجائے ایک مصرع کہا اور اس مصرع نظم کی صورت میں ایک ہی موضوع پر مربوط رہے۔ آزادی پر بھی اس کی ایک سہ حرفی ہے جس کے کچھ اشعار درج ذیل ہیں۔
الف اللہ بے نیاز ہیں توں ثبوت کیہ ڈیواں بے پروائیاں دے
ب بہت ظلم انگریز کیتے تختے پٹ مغلاں دیاں شاہیاں دے
ت ترس نہ آیا مول ذرا سر کپائے نوکراں توں سائیاں دے
ث ثابت قائم ذات تیڈی ڈٹھے زوال نی شاہاں دیاں جائیاں دے
ج جبر کیتا مجبوراں تے کن کپ چھوڑے سوہنیاں شاہزادیاں دے
ح حق ہے ربا ذات تیڈی حال ڈٹھے دلی دیاں بربادیاں دے
خ خبراں تھی مشہور گیاں بنے قبرستان آبادیاں دے
و دور کتونے ساڈیاں اکھیاں توں اوہ چنگے ڈینہ آزادیاں دے
۔ (اے اللہ تو بے نیاز ہے تیری بے نیازیوں کے کون کون سے ثبوت پیش کئے ا ظلم کیا انہیں ذرا بھی ترس نہ جائیں۔ مغلوں کی سلطنت : ، تباہ کر کے انگریز نے بڑا آئے انہوں نے نوکروں سے آقاؤں کی گردنیں کٹوائیں!
اے اللہ تیری ذات ثابت اور قائم ہے بادشاہوں کی بیٹیوں پر زوال دیکھا ہے انگریزوں نے مجبوروں پر بڑا جھر کیا خوب صورت شہزادیوں کے کان کاٹ دیے اے رب تیری ذات برحق ہے دلی کی بربادی کا حال دیکھ کیا دور دور تک یہ خبریں مشہور ہو گئی ہیں کہ ظالم انگریزوں نے آبادیوں کو قبرستانوں میں بدل دیا انہوں نے آزادیوں کے خوبصورت دن ہماری نگاہوں سے چھین لئے )
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۰۲ء میں یہاں آزادی کی لہر بڑے زور شور نے دھومیں مچا رہی تھی چنگے ڈینہ آزادیاں دے“ بہت بڑی بات ہے اس میں حسرتوں اور ارمانوں کی پوری دنیا آباد ہے۔
اس کے بعد ہمیں ایک سکھ شاعر رام سنگھ سنگھی کا سراغ ملتا ہے کہتے ہیں اس دور میں اس کی ایک نظم بہت مشہور ہوئی تھی "حق گروست گرو” اس کے ایک دو بند یہ ہیں۔
اٹھ پنجابی شیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لبھ ہو دا سہرا
پا انگریز نوں گھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیڈا دشمن جیڑا
اللہ کے کہڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حق گر و ست گرو
اٹھ پنجابی یارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تینوں میں پکارا
گوراں تن للکارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1ینہاں تے توں بھارا
مار چاہ کا نعرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حق گر و ست گرو
اٹھ غفلت نوں چھوڑ دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیندر سب تروڑ دے
دل وحدت و اگاں موڑ دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سبھ ٹٹے رشتے جوڑ دے
بزرگوار مولانا حکیم محمد امیر علی شاہ نصیحت آموز نظمیں لکھتے جنہیں میانوالی کے ایک اور صاحب دل شخص حیات محمد بزاز زیور طباعت سے آراستہ کرتے تھے والد مرحوم پہلے مختار کا نگموی تخلص کرتے تھے پھر غمناک گانگموی لکھنے لگے اس موضوع پر ان کی کتابیں نالہ درو صدائے غم ناک وغیرہ، مطبوعہ ہو کر لوگوں کے ہاتھ میں پہنچ گئیں۔ نالہ درد کے چند اشعار مشت نمونہ از خروار کے مصداق نذر قارئیں ہیں ۔
ہندو نے انگریز دو ہا ئیں ساڈے دین دے دشمن
دینی دشمن یار بھراؤ کدی نہ بندے سجن
بگوریاں ساڈی آزادی تے ول ول ڈاکے مارے
زر زمین نوں لٹ کے کھا گئے ہندو ساہوکارے
ایه داتا تے دنیا ساری ہو ویسی محتاجے
یک ڈینہ ہوسی ہریک جھاتے رب چاڑیسی راجے
ان کی نظم کا ایک مصرعہ غلام محمد جوئے اندر ٹبری ونج ہرائی، ایک طرف تو اس وقت کے میانوالی کے مسلمان کی بد اعمالی کا عبرت آموز خاکہ پیش کرتا ہے۔ دوسری طرف اس حقیقت کا بھی نماز ہے کہ اس وقت اس علاقہ میں مسلمان عورت بہت مظلوم تھی اسے بالکل ڈھور ڈنگر سمجھا جاتا تھا اور واقعتا ” بیویاں جوئے میں ہار دی جاتی تھیں یہ کوئی مبالغہ نہیں مجھے یاد ہے ہمارے محلے میں ایک شخص شیر خان ہو تا تھا اسے تیرا شرطی کہتے تھے۔ آخر عمر میں اس کے دل میں خدا کا خوف آیا اور وہ تائب ہو کر باریش اور پکا نمازی ہو گیا اب معلوم ہوا کہ وہ حافظ قرآن تھا اس نے تین چار رمضان مسجد یتیم خانہ میں نماز تراویح میں سامع کے فرائض بھی سرانجام دیئے ۔ جنگ عظیم میں میانوالی کے بہت سے نوجوان مارے گئے بہنوں کے دیر ماؤں سے بچے ، بیٹیوں سے باپ اور بیویوں سے سہاگ چھن گئے اس لئے مرد تو مرد عورتیں بھی تڑپ اٹھیں اور شادی بیاہ کے گیتوں میں بھی یہ کرب راہ پا گیا عورتیں گایا کرتی تھیں۔
بس کر جرمن ہن چا لاماں تروڑیں ہا
بچڑے ماواں دے گھر خیریں موڑیں ہا
ڈس او گورا خنزیر کتھے کس گئے ساڈے ویر
بس کر جرمن ہن چا لاماں تروڑیں ہا
بچڑے ماواں دے گھر خیریں موڑیں ہا
اج سنجیاں تھی گیاں جائیں۔۔ کتھے بڑ گئے سردے سائیں
اس طرح اس دور میں جو ما ہیے تخلیق ہوئے ان میں بھی انگریز سے نفرت
کے شعلے ملتے ہیں
رج پانی پی ماہیا
رب سوہنا گھر دیسی نہ بھرتی تھی ماہیا
کالا کاں ماہیا
بھرتی نہیں تھیونا بھانویں اجڑ ونجاں ماہیا
خان محمد پکے کراڑ والے کا ایک "واراں” کہنے والا شاعر ختا کے آلا کہلاتا تھا اس نے ایک وار کی
مسلم لیگ جناح دی۔۔ نشانی ہے الله دی
گاندھی ماندھی سڑ گئے۔۔ جیوح مٹھ کپاہ دی
بھریم غریب میانوالی کا ایک دہڑے لکھنے والا شاعر تھا اس کی شاعری کا موضوع زیاده تر خوف خدا اور فکر آخرت تھا لیکن وہ بھی اس تحریک سے بے تعلق نہ رہ سکا اس نے بھی اس موضوع پر لکھا۔ ایک دو بند پیش کرتا ہوں۔
م مسلم لیگ اسلام دی خاطر ہن آ گئی وچ میدان اے
انگریزاں نوں جناح چا آکھا اسیں لینا پاکستان اے
ایه مرد میدان ہکار کیتا آج نگر نگر اعلان اے
بھریم غریب ہک ملک بن ویسی جھتے چلسی قانون قرآن اے
جلد ہی مسلم لیگ اہل میانوالی کے دلوں کی دھڑکن بن گئی اس دور میں بہت سے سرائیکی شعراء نے پاکستان کے لئے نظمیں آ لکھیں جگہ جگہ جلسے ہوئے سردار خان یا رو خیل ہر جلسہ میں اپنے دو بڑے اور نظمیں سناتے تھے ان کی لکھی ایک نظم کے دو شعر پیش خدمت ہیں ۔
من انگریز حکومت والے اساں پاکستان بنانا اے
گائے وچوں غلامی والا اساں گلداواں چا لاہنا اے
سر ڈیونا اساں چاہندے ہاں تاں بے شک سر نوں کپو
اپنی زمین دے اتے اساں قانون قرآن چلانا اے
نظم کے بعض مصرعوں میں جھول ہوتی تھی جسے وہ پڑھتے میں درست ادا کر لیا کرتے تھے۔اسی دور میں ایک اور شاعر سیدا مسکین تھا یہ بھی دوہڑے کہتا تھا جو زیادہ تر رومانی ہوتے تھے لیکن وہ بھی عوامی جذبات سے بے تعلق نہ رہ سکا۔ دوسری جنگ عظم کے بعد ۲۶ ء کے الیکشن میں قائد اعظم اور ان کی مسلم لیگ یہاں اتنی مقبول ہو۔ گئی کہ لوگوں نے عقیدتوں کے عجیب مناظر دیکھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مولانا نیازی ہمارے علاقہ میں لیجسلیٹو اسمبلی کے امیدوار تھے لوگ اپنے بیمار بچوں اور بہار مویشیوں کو مسلم لیگ کے جھنڈوں تلے سے گزارتے تھے کہ اللہ قائد اعظم کی اس نشانی کے صدقے انہیں شفائے کاملہ سے نوازے گا۔ مولانا نیازی کے انہی جلسوں میں ایک نوجوان شاعر مستانہ سامنے آیا جو یہ نظم جھوم جھوم کر سنایا کرتا تھا۔
دھر رگڑتے امستانہ ۔۔ ایہا ووٹاں را جھگڑا مستانہ
آخر تحریک آزادی کامرانیوں سے ہم کنار ہوئی اور پاکستان وجود میں آگیا۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکرڈ لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ” تاریخ میانوالی (تاریخ و تہذیب) سے لیا گیا ہے۔